سلسلہ قومی افسوس کا


بے حسی اور غیر ذمہ داری موت کے رقص کا باعث بن سکتی ہے۔ عوام اور حکمران کے لیے شعور اور نظم و ضبط کی پابندی لازم ہے۔ جس نگہبان سے احساس نگہبانی چھن جائے تو یہ استغفار کی گھڑی ہے، سجدہ ریز ہونے کا وقت ہے۔

سرائے عالمگیر سے تعلق رکھنے والے استاد شاعر سید انصر نے پکار کر کہا تھا
میرے بکھرے ہوئے ٹکڑے تو سمیٹے جائیں
آپ کو جشن منانے کی پڑی ہے، اور میں

آج کل جھاڑے کی سردی ہے اور یخ بستہ طوفانی ہواؤں کا موسم۔ سکولوں میں چھٹیاں ہیں تاکہ بچے موسم سے جڑے ہوئے خطرناک اثرات اور امراض سے بچ سکیں۔ پاکستان میں ایسے شدید سرد موسم کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ اب کچھ اور کم ہو چکا ہے۔ کیونکہ دنیا کا ایک سے دو فیصد بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہمارے یہاں بھی موسمی تبدیلیاں لا چکا ہے۔ جبکہ امریکی ریاستوں، برطانیہ اور کینیڈا میں سرد موسم کی آنکھ مچولی ایک لمبے عرصے تک جاری رہتی ہے جو روز مرہ کا نظام زندگی مفلوج کر دیتی ہے۔ اس صورتحال میں بیدل حیدری کے بقول “سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا” کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

جدید دنیا میں جہاں جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر جاتا ہے اور وہاں کے باسیوں کی زندگی مسلسل برف باری اور موسم کے شدید اثرات سے متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے وہاں برف باری کی ایمرجنسی (Snow Emergency) کو نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دن پہلے ہی ہو جاتا ہے۔ لوکل مئیر سے لے کر ضلعی انتظامیہ کا کوئی بھی اہلکار اس ایمرجنسی کا اعلان کر سکتا ہے۔ ایک دن پہلے ہی زندگی سے جڑے ہوئے تمام لوازمات کا انتظام و انصرام کر لیا جاتا ہے۔

سکول بند ہو جاتے ہیں۔ غیر ضروری آمدورفت سے روک دیا جاتا ہے۔ سڑک روٹ کے ارد گرد مخصوص نشانات لگا دیے جاتے ہیں۔ جو گزرنے والی گاڑیوں کے لیے سفر میں آسانی کا باعث بنتے ہیں۔ بارشی پانی کے گزرنے والی جگہ پر رکاوٹ پیدا کرنے والوں اور قواعد و ضوابط سے انحراف کرنے والوں کو بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ شدید موسمی حالات سے نبٹنے کے لیے طبی و جوانوں کے عملے کو ایمبولینس گاڑیوں سمیت متحرک کر دیا جاتا ہے۔ زیادہ مشکل زندگی والے مقامات پر معاونت کرنے والے سینٹر قائم کر دیے جاتے ہیں جو بوقت ضرورت لوگوں کی مدد کر سکیں۔

جدید دنیا کا نظام قواعد و ضوابط پر استوار ہے۔ جہاں جہاں “سنو ایمرجنسی” نافذ کی جاتی ہے اس کو ترتیب اور ضرورت کے مطابق تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے حصے میں کم برفباری والے علاقوں کو رکھا جاتا ہے جہاں برفباری نظام زندگی کو زیادہ متاثر نہ کرے۔ اس کو درجہ اول کی سنو ایمرجنسی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کا اصل مقصد لوگوں کو غیر ضروری سفر سے روکنا ہوتا ہے۔ درجہ دوم میں کسی مجبوری کے علاوہ کوئی بھی شہری گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔

اور درجہ سوم کی ایمرجنسی میں معمولات زندگی جام ہو جاتے ہیں۔ طبی و معاونین کمیٹی ان علاقوں کا دورہ کرتی ہے اور مشکلات کے شکار لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں سیاحت کی موجودگی بہت کم ہے۔ ان ساری سہولیات کا اہتمام وہاں کے باسیوں کی زندگی کو آسان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر سیاحوں کی آمدورفت ہو تو وہاں کی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔

سیاحت کی موجودگی اور سہولت کسی بھی ملک کی معاشی حالت کو جانچنے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ سنگاپور، مالدیپ، امارات، ترکی، سوئٹزرلینڈ اور سیاحت سے جڑے ہوئے دوسرے تمام ممالک اس راز سے آشنا ہیں کہ قدرت کے انمول منظروں کو سہولیات سے مزین کر کے ملک و قوم کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ یہ ممالک اپنے جی ڈی پی کا بیس فیصد تک سیاحت سے کما رہے ہیں۔

پاکستان میں بھی کشمیر سے گوادر تک سیاحت کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ مگر سہولیات کے حوالے سے حالت زار ہر جگہ ایک سی ہے۔ مظفر آباد اور سرینگر کی فضاؤں کے قریب واقع نیلم کے علاقہ میں تاحد نگاہ سبز چادر اوڑھے سبزہ سیاحوں کا دل موہ لیتا ہے۔ مگر سہولیات کی بات کی جائے تو پینے کا پانی تک موجود نہیں، ریسٹ ہاؤس کے نہ ہونے کے علاوہ آمد و رفت کے لیے ٹرانسپورٹ کے مسائل الگ سے موجود ہیں۔ ایمرجنسی سینٹر نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ایک کالج کے ساٹھ طالبعلم سیر کے لیے نیلم گئے تو واپسی پر پندرہ لوگوں کو ہیپاٹائٹس اے کے مشکل وقت سے گزرنا پڑا۔ موسمی شدت اور حدت سے نبٹنے کے لیے اسلام آباد اور مظفرآباد کی حکمرانوں کی ترجیحات کئی سالوں سے سوالیہ نشان رہی ہیں۔ بات رہی گوادر کی سیاحت کی تو وہاں ایک مشہور ہوٹل کے علاوہ قیام کے لیے اور کون سی جگہ موجود ہے۔

مری جو کہ سیاحت اور برفباری کے خوبصورت مناظر کے حوالے سے عالمی سطح پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں شدید برفباری، طوفان اور بد انتظامی نے جو حالات پیدا کیے ہیں ان سے ہر پاکستانی رنجیدہ ہے۔ مری کا قومی سانحہ کیوں ہوا کیسے ہوا، بے شمار سوالات حکومتی کوتاہیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے ذمہ داروں تک تو شاید ہم نہیں پہنچ سکیں گے کیونکہ “ذمہ داروں” تک پہنچنا ہمارے مزاج اور قوانین سے کوسوں دور ہے۔

دو درجن کے قریب اموات کے بعد ایمرجنسی کا اعلان کرنا ذمہ داروں کے رویے اور ان کی عوام کے جان و مال کے تخفظ سے جڑی ہوئی ترجیحات کا بھانڈا پوری دنیا میں پھوڑ رہا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاحت اور اس سے جڑے ہوئے تمام معاملات کو فروغ دے کر برتر معاشی حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جس کی اس ملک کو اشد ضرورت ہے۔ قیمتی جانوں کے نقصان کے علاوہ ایک چیز ملک کا وقار اور شہریوں کو دیا گیا تخفظ ہوتا ہے، اس کو بھی عالمی سطح پر شدید زچ پہنچی ہے۔ ابھی دو چار سال ہی گزرے ہیں جب ذمہ داروں سے استعفے طلب کرنے کی بازگشت رہتی تھی۔ اب ہنوز خاموشی ہے اور سانحے کے بعد کیا جانے والا افسوس ہے۔ جو ہماری روایت ہے۔ عملی اقدامات کیے بغیر اس قومی افسوس کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور
Latest posts by ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments