جلدی جلدی مذمت کیجئے، اس سے پہلے کو ئی نیا سانحہ رونما ہو


مری ہر سال میں سردیوں کا خاص موضوع بن جاتا ہے۔ مگر ہر سال کا رونا یہ ہوتا کہ ”مری کے ہوٹلز سیاحوں کو آزادی کے ساتھ لوٹتے ہیں اور ادارے کوئی ایکشن نہیں لیتے، اپنی مرضی کے ریٹ سے کھانا دیتے ہیں اور اپنی مرضی سے کمرے کا کرایہ طے کرتے ہیں۔ ”یعنی مجبور لوگوں کو مری میں بلیک میل کیا جاتا تھا۔ بلیک میلنگ کے ساتھ ساتھ بد معاشی کا سلسلہ بھی چلتا تھا۔ ویڈیوز آتی تھیں، شور ہوتا تھا، بائیکاٹ مری کا ٹرینڈ چلتا تھا اور پھر چند دنوں بعد کھڑکی توڑ رش مری میں دوبارہ دکھائی دیتا تھا۔

حکومت ہر سال نوٹس لیتی تھی اور پھر نوٹس کسی فائل میں لوٹ پوٹ ہو کر غائب ہوجاتی تھی۔ سوشل میڈیا پر دوبارہ سے مری سے متعلق ٹرینڈنگ چل رہی ہے لیکن اس بار کی ٹرینڈنگ مہنگائی اور لوٹ مار کے ساتھ ساتھ اموات کی بھی ہے۔ مصروف زندگی سے فرار حاصل کر کے اور فیملی اور دوستوں کے ساتھ سکون حاصل کرنے کے لئے لاکھوں لوگ مری پہنچے تھے کے برف باری انجوائے کریں گے، لیکن کیا ہوا؟ اداروں کی سنگین اور روایتی غفلت، مری کے کاروباری حضرات کی ہوس نے دو درجن کے قریب پاکستانیوں موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ان اموات کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں، اور سب سے بڑی وجہ اداروں کی غفلت ہے۔ سوال قائم ہے کہ جب مری میں 40 ہزار گاڑیوں کی گنجائش تھی تو لاکھ کے قریب گاڑیاں کیسے پہنچی؟ درخت گرنے پر روڈ کلیئر کرنے والی مشینیں کیوں نہیں پہنچی؟ اگر محکمہ موسمیات کی جانب سے شدید برف باری کی پیشن گوئی تھی تو اداروں نے پیشگی تیاریاں کیوں نہ کی؟ یا پھر لوگوں کو کیوں نہیں روکا مری جانے سے؟ شہریوں کو گزرنا تو روڈ سے تھا آپ کنٹینرز لگاتے اور روک دیتے، ویسے بھی اس کام میں تو آپ لوگ پرفیکٹ ہیں۔

پھر ہمارے عزت ماب ہینڈسم وزیر اعظم کہتے ہیں کہ شہریوں کو چاہیے تھا کہ موسم کی صورتحال دیکھ کر جاتے، ارے حضرت وہ موسم انجوائے کرنے ہی گئے تھے، یہ اداروں کا کام تھا کہ شہریوں کو روکا جاتا کے وہ آگے نہ جائیں یا موسم خراب ہے ہم راستے بند کر رہے ہیں۔ ویسے بھی آپ جیسا باشعور ہر پاکستانی نہیں ہوتا، ان کو اس بارے میں معلوم نہیں تھا، ان تک یہ خبر پہنچائی جانی تھی اور خبر پہنچانے کا کام اداروں کا تھا۔

ایک جانب اداروں کی کمال کارکردگی، اور دوسری جانب بے حس اور بے دل مری کے کاروباری حضرات، جو لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے رہیں اور جس سیاح کے پاس کوئی راستہ نہ نکلا وہ گاڑی میں ہی ہیٹر چلا کر سو گیا اور پھر یہ کربناک واقعات ہو گئے۔ ہوا یہ کہ مری کے ہوٹلز میں کمروں کا کرایہ 40 ہزار تک پہنچ گیا جس کا کرایہ 3 ہزار تھا، اسی طرح ٹائر میں چین لگانے کے پانچ ہزار، ہیٹر کا ایک گھنٹے کا کرایہ ایک ہزار، پارکنگ فیس بھی ہزاروں میں، الغرض مری کے ہر کاروبار نے مافیا کی صورت اختیار کرلی تھی اور پھر مافیا گردی کا نتیجے اس بار 22 اموات کی شکل میں سامنے آیا۔

آپ کو کیا لگتا ہے، اس لوٹ مار کی خبر حکومت کو یا اداروں کو نہیں ہوگی؟ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے تو آپ کی معصومیت پر واہ واہ میری جانب سے۔ خبر سب کو ہوتی ہے، مگر مافیا مافیا ہوتا ہے۔ اس لوٹم ماری کی رقم کا حصہ شکریہ کی صورت میں سب کو وصول ہوتے ہیں، جی جی سب کو ، اب آپ سب کرتا دھرتا کو اپنے ذہن میں لے آئے۔

ہر تھوڑے دن بعد کوئی نہ کوئی حادثہ ہوجاتا ہے اور ہم پاکستانی ریوائنڈ موڈ میں سوشل میڈیا پر سوگ و تعزیت کا سلسلہ چلاتے ہیں اور پھر اپنے کاروبار زندگی میں غرق ہو جاتے ہیں۔ غلطی ہم پاکستانیوں کی بھی نہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کے یہ سب ایسے ہی چلتے رہنا ہے کیا فائدہ ایسے سانحات میں ہلکان ہونے کا ، بیسٹ پالیسی یہ ہی ہے کہ ”ڈھیٹ ہو جایا جائے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments