حادثے سے بڑا سانحہ


مورخہ آٹھ جنوری کو مری میں شدید برف باری کے باعث راستے بند ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے بائیس یا پچیس ہلاکتوں کی اطلاعات ملی تھیں اور اس میں سب سے دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں دس کے قریب بچے بھی شامل تھے۔ ہلاکتوں کی بنیادی وجہ گاڑیوں کے پھنس جانے اور دروازے بند ہونے کے باعث کاربن مونو آکسائیڈ کے پھیلنے اور سانس گھٹ جانا بتائی جا رہی ہے۔

اسی طرح پنجاب پولیس کے ذرائع کے مطابق راستے میں بیس سے پچیس عمارتی درخت گرے جس وجہ سے راستہ بلاک ہو گیا۔

اس ضمن میں بہت سی آراء قائم ہو چکی ہیں، مختلف ادبی اور سماجی حلقوں کی طرف سے مختلف رد عمل سامنے آ رہا ہے جو سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے، اسی طرح حکومت کی طرف سے مختلف جواز پیش کیا جا رہا ہے اور حکومتی عہدیداران میں سے اکثر نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ محکمہ موسمیات نے قبل از وقت ہی اس گھناؤنی صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا اس لئے عوام کا احتیاط کرنا بنتا تھا۔ حادثے کے بعد حکومت کے بدلتے ہوئے موقف کو دیکھ کر عوام تنقید کے نشتر چلا رہی ہے، چوں کہ فواد چوہدری صاحب نے واقعے سے سے پہلے ایک ٹویٹ میں اس بات کو خوش آئند قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ لوگ اب جوق در جوق سیاحتی مقامات کی طرف سفر کر رہے ہیں جو کہ خوش حالی کی علامت ہے۔

محکمہ موسمیات جو کہ سرکاری ادارہ ہے وہ تنبیہ کرچکا تھا کہ چھ اور سات تاریخ کو شدید برف باری ہوگی۔ یہ تنبیہ سن کر سیاح جھوم اٹھے۔ سب نے طے فرما لیا کہ ”برف دیکھنی ہے“ گویا تنبیہ کو دعوت نامے کا درجہ دے دیا گیا۔ اب ان میں سے جو پھنس گئے ہیں ان کا فرمانا ہے کہ یہ سب حکومت کی نا اہلی ہے۔ مگر مری کے واقعے میں حکومت کے قصور کا اندازہ ان ہزاروں سیاحوں کی ضد سے لگایا جاسکتا ہے جو مری پہنچ نہ سکے۔ وہ اب بھی مری کے داخلی راستوں پر کھڑے ضد فرما رہے ہیں کہ انہیں مری میں داخل ہونے دیا جائے۔

یعنی نصف سیاح وہ ہیں جو کہہ رہے ہیں ہمیں بچایا جائے، اور نصف وہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہیں بھی برف میں قلفی بننے کا موقع دیا جائے۔ ایسے سیاحوں کو کس طرح سے سمجھایا جاسکتا ہے جو سب جاننے کے باوجود بھی مصیبت کے منہ میں جا گریں۔ لیکن اس کے تقابل میں یہ رائے پیش کی جاتی ہے کہ سیاحتی مقامات پر ظاہر ہے کہ سیاحوں کا رش ہونا ہے اس لئے بجائے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے حکومت کو مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔

کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ سانحہ مری، صرف اور صرف ہوٹل والوں کی بے حسی کے باعث پیش آیا، ورنہ وہاں پر جگہ جگہ ہوٹل ہیں، مگر رش اور خراب موسم دیکھ کر ہوٹل والوں نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس کمرے کا کرایہ 5000 تھا اس کا کرایہ 50000 مانگا تو لوگوں نے گاڑیوں میں ہی بیٹھے رہنے کو ترجیح دی، جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اور جب لوگ مر گئے، دن کو خبریں ملنا شروع ہوئیں تو نمبر بنانے کے لئے امداد، فری کمرے اور فری کھانے کا ڈھونگ رچانا شروع کر دیا۔

تصور کرنا ہی مشکل ہے جب گھر سے دس ہزار لے کر جانے والے کو معلوم ہو کہ وہاں تو ایک رات کے لئے پچاس ہزار لئے جا رہے ہیں۔

کچھ کیسز تو یہ بھی سننے میں آئے ہیں کہ خاندان کے سربراہ نے اپنی بیوی کے زیور جمع کرا کے ایک دن رہنے کا بندوبست کیا اور کئی حضرات تو ایسے بھی تھے جنہوں نے بے سرو سامانی اور پیسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کمرے کرائے پر لینے کی بجائے گاڑیوں کے شیشے بند کر کے اندر رہنے کو ترجیح دی اور اس طرح کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے دم گھٹنے کے کیسز ہوئے۔

اس واقعے سے بہت سے اثرات بھی واضح ہوئے اور پروپیگنڈا کرنے والے وہ چہرے بھی بے نقاب ہوئے جو ہر واقعے میں لسانی، علاقائی یا قومیتی بنیادوں پر نفاق ڈال کر ملک کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ اس سرگرمی کا سب سے فعال پلیٹ فارم سوشل میڈیا تھا جس میں لوگوں نے مختلف انداز سے دوسروں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی ہوئی تھی۔ مثال کے طور پر ایک صارف نے پوسٹ کی ہوئی تھی کہ اگر یہی واقعہ مری کی بجائے کراچی میں وقوع پذیر ہوتا تو کراچی والے مہاجر اپنا سب کچھ لٹا دیتے۔ اس سے عمومی تاثر تو یہ لیا جاسکتا ہے کہ کراچی والوں کی تعریف و توصیف کی جا رہی ہے لیکن بنیادی طور پر ایسی باتوں کا کا سہارا لے کر علاقائی اور قومیتی تعصب کو ہوا دینے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔

ایک اور صارف نے ایک واقعہ بیان کیا ہوا تھا کہ کالام میں اس طرح کے واقعات پیش آنے کی نوبت نہیں آتی کیوں کہ وہاں کے لوگ ایثار کے جذبے سے بھرپور ہیں۔ ایک واقعہ انہوں نے بیان کیا ہوا تھا جس میں ایک گروہ کو جب برف باری کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا اور ان میں سے ایک ضعیف عورت اس چلنے پھرنے کی استطاعت کھو بیٹھی تو کالام کے دس نوجوانوں نے ہمت کر کے اسے اسٹریچر پر ڈال کر تیس کلو میٹرز کا فاصلہ باری باری اسٹریچر اٹھا کر طے کرا آئے، اس واقعہ کی حد تک تو بات قابل تحسین ہے لیکن جب اس واقعے کے بعد ”شیم آن مری“ کا ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی گئی تو وہ واقعی مذمت کے قابل ہے۔

اختتامی سطور میں اتنا کہا جاسکتا ہے کہ قدرتی آفات میں عموماً کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے اور دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور اس دل سوز واقعہ پر الم ناک لہجے کے ساتھ پروفیسر عنایت علی خان کی آواز میں اتنا ہی پڑھا جاسکتا ہے کہ

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments