ہم قوم بنی اسرائیل کے اصلی وارث


مری میں گزشتہ دنوں ہونے والے افسوسناک سانحہ کے بعد سوشل میڈیا پر وہاں کے کئی ہوٹلز کے اشتہارات اور اعلانات پڑھنے کو ملے۔ جس میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو بمع خاندان مفت رہائش، کھانا اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے اعلانات اور رابطہ نمبر دیے گئے تھے۔ اب ایسی پوسٹوں کو میرے جیسے کئی جذباتیوں نے تعریف و توصیف کے قلابے ملا کر ”یہ بھی مری ہے“ جنتی لوگ ”نیک لوگ“ وغیرہ وغیرہ لکھ کر ری ٹویٹ، شیئر کیا ہوا تھا۔ اب کسی نے ان پوسٹس پر یہ سوال کرنے کی جسارت کی کہ یہ صاحب، یہ ہوٹل جس وقت یہ سیاح مرر رہے تھے، منتیں کر رہے تھے، گڑگڑا رہے تھے، تب کہاں تھے؟ تو اس کی اس گستاخی پر جتھے کے جتھے اسے تنگ نظر، تنقید کرنے والا وغیرہ وغیرہ کے القابات سے نواز رہے تھے۔

2010 میں جنوبی پنجاب میں سیلاب آیا تو اس سیلاب کا متاثرہ ہوتے ہوئے میں خود عینی شاہد ہوں کہ جب پورے شہر میں سیلابی پانی کھڑا تھا تو صاف پانی کی بیس سے پچیس روپے والی بوتل 50 روپے سے کم نہیں ملتی تھی۔ جو لوگ اس کساد بازاری میں ملوث تھے، وہی شام میں فری راشن اور لنگر بانٹ رہے ہوتے تھے۔ من حیث القوم ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خودنمائی اور نرگسیت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہمارے اس شوق کو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے زیادہ جلا بخشی ہے۔

ہم نے شخصیتوں کی پرتیں بنا رکھی ہیں اور ان پرتوں کو اپنی سہولت اگلے بندے کی حیثیت اور مفاد کے تحت وا کرتے ہیں۔ یہاں شرفاء کی (افسر، مولوی، استاد، صحافی، سیاستدان، ایکٹوسٹ، فلانا فلانا ) ایک ایسی قسم ہے کہ جن کی شخصیات، ظاہری اور سوشل میڈیا افعال ایسے ہیں کہ نوبل انعام کے اصلی حقدار یہ نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقی زندگی میں ان سے زیادہ بدبودار، غلیظ، دوغلی شخصیت آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ اسی چکر میں کئی سادہ لوح مارے جاتے ہیں۔

مری میں سانحہ کی انتظامی غفلت تو اپنی جگہ مگر یہ سانحہ پیش آنے کے پیچھے وہ بے حسی، حرص، منافقت کارفرما تھی جس کا نشانہ یہ 20، 21 یا 60 سے زائد لوگ بنے (ظلم تو یہ ہے کہ سرکاری سطح پر مرنے والوں کی اصل تعداد تک کو چھپایا جا رہا ہے ) ۔ اگر چار پیسوں کا لالچ کیے بغیر وہاں کے رہائشی انسانیت، مسلمان ہونے اور مہمان نوازی کے اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ہوٹلز، سرائے، گھروں کو ان سیاحوں کے لئے کھول دیتے تو کیا یہ سب دم گھنٹے، سردی میں ٹھٹھرنے سے مرتے؟

کیا ایسا سانحہ پیش آتا؟ کیا کس کسی معروف، کسی نوید اقبال اور اس کے معصوم بچے بے حسی لاچاری کی موت مرتے؟ کیا یہ تڑپ تڑپ کرنے والے لوگوں کی روحیں سوال نہیں کریں گی؟ تم جو ہماری قبریں پر پھول لئے کھڑے ہو، اب جو کدال لئے تصویریں بنوا رہے ہو، اس وقت کہاں مر گئے تھے جب برف میں دھنسے، پھنسے مدد کو سر کی چھت کو چیخ رہے تھے۔ یہ جو کدال اب نکلے، جو گیسٹ ہاؤس اب کھلے کیا انہیں پہلے ان حالات کی خبر نہیں تھی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے گھر میرے علاقے میں ہزاروں گاڑیاں پھنسی ہوں، ہزاروں لوگ تڑپ رہے ہوں اور مجھے خبر ہی نہ ہو؟

میری بات بہتوں کو بری لگے گی مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم اس وقت قوم بنی اسرائیل کے اصل وارث بنے ہوئے ہیں۔ میں بار بار دہرا رہا ہوں کہ منافقت، دوغلا پن، خودنمائی، حرص، لالچ، بے حسی ہی آپ میں اور ہماری پوری قوم میں سرایت کرچکی ہے۔ مجھے آن لائن بائیک سروس چلانے والا آزاد کشمیر کا ایک نوجوان ملا تو باتوں باتوں میں تعارف پر پتہ چلا کہ وہ فاسٹ باؤلر ہے۔ لاہور میں ہاسٹل رہتا ہے اور دن میں ماڈل ٹاؤن کے کرکٹ گراؤنڈ میں پریکٹس کرتا ہے جو وقت بچتا ہے، اس دوران بائیک چلا کر اپنا گزر بسر چلاتا ہے۔ میں نے اشتیاق سے پوچھا کہ سلیکشن ہوئی تو کہنے لگا بھائی ٹرائلز تو دینے کے لئے جاتا ہوں مگر آپ کو پتہ تو ہے کہ سفارش چاہیے ہوتی ہے اب میں تو دو ہزار روپے کلب فیس، کھانے پینے اور ہاسٹل کے اخراجات کو تنگ ہوں۔ بھلا میرے پاس کہاں سے سفارش آئی؟ کون میرے جیسے کی سفارش کرے گا؟

منافقت کے معیار تو یہ دیکھیں کہ یہ نوجوان بتا رہا تھا کہ جب پچھلی دفعہ ٹرائلز ہوئے تو ان ٹرائلز میں تین نوجوان جو کہ مہنگی گاڑیوں میں آئے کو تاخیر سے آنے کے باوجود نہ صرف ٹرائلز میں جگہ دی گئی بلکہ سلیکٹ بھی کر لیا گیا۔ جب کہ اس کو اوور ایج قرار دے کر فائنل سلیکشن لسٹ سے نکال دیا گیا۔ مگر اس نے حوصلہ نہ ہارا اور قذافی سٹیڈیم پہنچ گیا جہاں موجودہ سلیکشن کمیٹی کے ایک صاحب (نام اس نوجوان کی درخواست پر نہیں لکھا) کو جب اس نے روئیداد سنائی تو انہوں نے کہا کہ وہ میٹنگ کر کے آتے ہیں اور پھر اس مسئلے کو دیکھتے ہیں۔

یہ نوجوان بتاتا ہے کہ وہ سارا دن قذافی سٹیڈیم کے دروازے پر اپنے اصلی کاغذات لئے بیٹھا رہا جب یہ صاحب (اول الذکر) نکلنے لگے تو گارڈ نے بتایا کہ جس کا تم صبح سے انتظار کر رہے تھے وہ جانے لگے ہیں تو کہتا بھاگم بھاگ ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کاغذات دیکھنے کے بعد کہا کہ کس پاگل نے اوور ایج قرار دے دیا، کسی کی غلطی ہوئی ہوگی وہ راست اقدام کریں گے۔

ان صاحب نے اس نوجوان کو اپنا وٹس ایپ نمبر دے کر آخر میں یہ پوچھا کہ کیا اس کا کوئی جاننے والا ہے تو یہ نوجوان بتاتا ہے کہ وہ خاموش ہو گیا۔ جس کے بعد ان اعلی عہدیدار نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ پریشان نہ ہو میں تمہارا نام ڈلوا دوں گا۔ مگر وہی ہوا کہ جو اس ملک میں ہوتا آیا ہے، لسٹ لگی، جو بائیس بائیس سال کے دکھتے تھے ان کا نام تو آ گیا مگر اس غریب کا نام نہ آیا۔ رابطہ کرنے پر ان صاحب نے کہا کہ ان کے ہاتھ میں یہ چیز نہیں تھی اور وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے (حالانکہ یہ صاحب با اختیار ہیں اور قومی ٹیم تک کی سلیکشن ان کی ذمہ داری ہے )

یہ نوجوان بتانے لگا کہ اگر وہ دو وقت کی روٹی کو مجبور نہ ہوتا اور کسی امیر گھر سے ہوتا یا کسی کا جاننے والا ہوتا تو یہ صاحب نہ صرف دل و جان سے کاوش کرتے بلکہ نام بھی آ جاتا۔ ہماری کسی شاعر نے کیا خوب عکاسی کی ہے

آ ساتھ میرے اور دیکھ ذرا
جس دنیا میں تو رہتا ہے
یہ دنیا ایک تماشا ہے اور ہر انسان مداری ہے
کیا کہتے ہیں کیا کرتے ہیں اور کیا کیا رنگ دکھاتے ہیں
یہ لیڈر، ووٹر، پیر، مرید، استاد، شاگرد مداری ہیں
آ دیکھ میری آنکھوں سے انہیں
ان سب کے ہاتھ میں جھرلو ہے
یہ چور افسر، دانشور، فنکار، وزیر مداری ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments