نمکین وادی کا میٹھا سفر


لاہور سے موٹروے کا سفر للۃ انٹرچینج پر اختتام پذیر ہوا تو کھیوڑہ کی طرف جانے کے لیے ہم نے پنڈ دادن خان کی راہ پکڑی۔ ہمارے بائیں طرف کوہستان نمک کا وسیع سلسلہ پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی نومبر کی شروعات کا مژدہ سنا رہی تھی۔ سڑک کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی اور کئی جگہوں پر ”آگے پلی ٹوٹی ہوئی ہے“ کے سائن بورڈ سیاحوں کا منہ چڑانے کو موجود تھے۔ موٹروے سے دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان کو ملانے والا 30 کلومیٹر کا سفر کم و بیش پون گھنٹے میں طے ہوا۔

انہی پتھروں پہ چل کر بالآخر ہم کھیوڑہ پہنچ گئے۔ دن کا آغاز ہونے کے باوجود سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ ان میں اکثریت سکولوں کے بچوں کی تھی جو خاص طور پر اس موسم میں تفریحی اور مطالعاتی دوروں پر نکلتے ہیں۔ کان کے اندر جانے کے لیے 220 روپے فی کس مقرر کیے گئے تھے، ٹرین کے چارجز 100 روپے اس کے علاوہ تھے۔ بجلی سے چلنے والی ٹرین سیاحوں کو لے کر روانہ ہوئی تو کئی جگہ پر راستے کی تنگی کے باعث پیدل چلنے والے سیاحوں کو اپنی جگہ رک کر ٹرین کے گزرنے کا انتظار کرنا پڑا۔

کان کے اندر روشنی کا خاطر خواہ انتظام تھا۔ سیاحوں کی اکثریت کی توجہ دلکش مناظر کے حسن کو آنکھوں سے زیادہ موبائل کیمروں میں سمونے کی طرف تھی۔ ٹرین کے مسافروں کے لیے انتظامیہ کی طرف سے ایک گائیڈ کی خدمات بھی مہیا کی گئی تھیں جس نے نمک کی کان کی تاریخ اور وہاں پہ جاری منصوبوں کے بارے میں مفید معلومات فراہم کیں۔ نمک سے بنائے گئے مختلف اشیاء کے ماڈل سیاحوں کی سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث بنے رہے۔

کھیوڑہ سے نکلے تو ہماری اگلی منزل کٹاس راج مندر تھی جسے قلعہ کٹاس راج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کھیوڑہ سے کلر کہار روڈ پر چوا سیدن شاہ کے قریب سطح سمندر سے 2000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ چوا سیدن شاہ پہنچ کر راستہ پوچھنے کی غرض سے ایک رکشہ ڈرائیور سے سوال کیا جس نے راستہ بتانے کے ساتھ بہت محبت سے ہمیں چائے کی دعوت بھی دی۔ ہندو عقیدے کے مطابق کٹاس راج میں واقع پانی کا تالاب (امرت کنڈ) شو جی مہاراج کے آنسوؤں سے وجود میں آیا جو انہوں نے اپنی پتنی ستی کی موت پر بہائے۔

وہاں پر موجود معلوماتی بورڈ کے مطابق اس تالاب کی گہرائی 30 فٹ ہے تاہم تالاب میں موجود گہرائی ناپنے کا پیمانہ اس وقت 11 فٹ پانی کی موجودگی کا پتہ دے رہا تھا۔ کٹاس راج کے حالات پاکستان میں واقع آثار قدیمہ کے دیگر مراکز سے بالکل مختلف نہیں ہیں۔ دیواریں کئی جگہوں سے شکستہ ہیں۔ رہنمائی کرنے والے بورڈز اپنی جگہ موجود ہیں البتہ ان پر الفاظ خرچ کر ان کی اہمیت بہت حد تک ختم کر دی گئی ہے۔ سیاحوں کو گائیڈ کرنے اور معلومات دینے کا بھی کوئی ذریعہ ہمیں ان بورڈز کے علاوہ نہیں ملا۔ پارکنگ کا انتظام سرے سے موجود ہی نہیں اور گاڑی اپنی ذمہ داری پہ کھڑی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ واش روم کی سہولت موجود تھی البتہ اس کے لیے قلعے کی حدود سے باہر جانا پڑا۔

سفر کا اگلا اور آخری پڑاؤ کلر کہار تھا۔ کٹاس راج سے کلر کہار جانے والی سڑک کافی بہتر حالت میں تھی۔ کلر کہار پہنچ کر دیگر سیاحوں کی طرح ہم نے بھی پہاڑی پر موجود ”ہو بہ ہو کے مزار“ پر حاضری دی۔ مزار پر اس وقت اکا دکا لوگ موجود تھے۔ مزار سے ملحقہ ایک چھوٹا سا بازار ہے جہاں پر مختلف سجاوٹی اشیاء سیاحوں کی توجہ کھینچتی ہیں۔ بازار کے ایک طرف پہاڑ کی دوسری چوٹی پر موجود مزار تک جانے اور سیروتفریح کے لیے کیبل کار کی سہولت موجود ہے۔

مزار سے نیچے اتریں تو جھیل کی طرف جاتے ہوئے تخت بابری موجود ہے۔ اس پر لگی ہوئی تختی پر کندہ تحریر کے مطابق مغل بادشاہ بابر کی فوج نے پہاڑوں پر چٹان تراش کر اس کے لیے ایک تخت بنایا جس پر کھڑے ہو کر بابر نے اپنی فوج سے خطاب کیا۔ تخت سے ملحقہ باغ میں مور کھلی فضا میں گھوم رہے تھے۔ باغ میں موجود میٹھے پانی کا چشمہ بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔

تخت سے نیچے اتریں تو ساتھ ہی عجائب گھر واقع ہے جو اس وقت بالکل ویران پڑا ہوا تھا۔ عجائب گھر کے دروازے پر گول گپوں کی ریڑھی البتہ موجود تھی لیکن وہ بھی عجائب گھر کی طرح تقریباً ویران تھی۔ محمد بوٹا جو اس ریڑھی پر گول گپے لگاتے ہیں ان کا تعلق اوکاڑہ سے ہے۔ ان کے بقول وہ دس سال قبل رزق کی تلاش میں یہاں آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہے گئے۔ نام پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ان کا نام ”محمد بوٹا، رب سچا تے میں جھوٹا“ ہے۔ ان کی سادگی اور خلوص نے گول گپوں میں خستگی کی کمی کو بہت حد تک پورا کر دیا۔

عجائب گھر سے تھوڑا آگے جائیں تو پارک واقع ہے۔ یہاں بھی سیاحوں کی اکثریت سکولوں کے بچوں پر مشتمل تھی جو خوشگوار موسم میں جھولوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ بچے پارک میں موجود گھوڑوں پر سواری کر کے تصاویر بنانے میں بھی مصروف تھے۔ پارک سے نکل کر جھیل کی طرف جائیں تو لوہے کا جنگلہ نما دروازہ ہے جس پر واضح لکھا ہے کہ اس سے آگے صرف بوٹنگ والے افراد جا سکتے ہیں۔ جھیل میں اس وقت سیاح موٹر بوٹ کے سفر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

ایک طرف پیڈل بوٹس موجود تھیں البتہ کوئی بھی استعمال نہیں کر رہا تھا۔ وہاں موجود آدمی سے اس کا سبب دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ رش کی وجہ سے پیڈل بوٹ بند کی ہوئی ہے۔ پیڈل بوٹ کا لطف اٹھانے کا موقع ہمیں میسر نہیں آ سکا جس کا افسوس رہے گا۔ جھیل کنارے کھڑے ہو کر ڈوبتے سورج کا سحر البتہ اگلی منزل تک ہمارے ساتھ رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments