عمران خان کی ڈھاکہ سے واپسی کے بعد


وزیراعظم عمران خان نے ایک دفعہ حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے، مارچ 1971کے دوران، ڈھاکہ میں کھیلے گئے کرکٹ میچ کا تذکرہ کیا تھا۔ چند دن پہلے بنگلہ دیش کی ٹیم نے نیوزی لینڈ کی سرزمین پر پہلا ٹیسٹ میچ جیتا تو پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔

19سال سے کم عمر کھلاڑیوں کے ٹورنامنٹ کا فائنل، شاید آخری میچ تھا جو مغربی پاکستان کی کسی ٹیم نے ڈھاکہ میں کھیلا۔ مجھے یہ میچ اس لیے بھی یاد ہے کہ لاہور ڈویژن کی ٹیم کے کپتان وسیم حسن راجہ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے ہم عصر تھے۔

اُن دنوں باقی شعبوں کی طرح مشرقی پاکستان میں کرکٹ کا معیار بھی پست تھا۔

لاہور ڈویژن کی ٹیم نے مشرقی پاکستان کی ٹیم کو باآسانی ہرا دیا۔ اِس جیت سے کسی کو حیرت نہیں ہوئی حالانکہ کرکٹ پاکستان کے دونوں حصوں میں یکساں مقبول تھی مگر کرکٹ کا ہیڈ کوارٹر اور انتظامیہ کی باگ ڈور ہمیشہ مغربی پاکستان کے پاس رہی۔

ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں کرکٹ اسٹیڈیم بھی موجود تھے مگر حیرت انگیز طور پر صرف ایک دفعہ، فاسٹ بائولر نیاز احمد نے 1967کی قومی ٹیم میں مشرقی پاکستان کی نمائندگی کی۔

اِس کھلاڑی کا تعلق بھی آبائی طور پر صوبہ بہار سے تھا اور علیحدگی کے بعد وہ کراچی میں بس گئے اور یہیں اُن کا انتقال ہوا۔ بنگلہ دیش کی جیت سے یاد آیا کہ گزشتہ 11برس میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیتا۔

گزشتہ برس بھی ہم سیریز کے دونوں ٹیسٹ میچ ہار گئے تھے۔ 1971میں علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کی کرکٹ کے علاوہ سماجی اور معاشی میدانوں میں ترقی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

جب تک مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ رہا ہم بنگالیوں کو کسی قابل نہیں سمجھتے تھے۔ 1967-68کے دوران (Friends not Masters) نظر سے گُزری تو علم ہوا کہ ایوب خان 1948میں مشرقی پاکستان میں فوج کی سربراہ تھے۔ اپنی آپ بیتی میں ذکر کرتے ہیں کہ بنگالیوں کی تعداد فوج میں بہت کم ہے مگر اِس تفاوت کو دُور کرنے کے لیے بنگالیوں کو مطلوبہ اہلیت کا حامل بنانا پڑے گا۔

ایوب خان ٰآرمی چیف رہے پھر مارشل لا نافذ کرنے کے بعد دس سال پاکستان پر حکمرانی کی مگر شاید اِس دوران بھی وہ بنگالیوں کی مناسب تعداد کو فوج میں شمولیت کا اہل نہ بنا سکے۔ جب 1965کی جنگ ہوئی تو میں کیڈٹ کالج حسن ابدال کا طالب علم تھا۔

جنگ کے دوران مجھے انگریز پرنسپل کرنل (ریٹائرڈ) جے ڈی ایچ چیپ مین اور ایک دُوسرے اُستاد کے مابین گفتگو سننے کا موقع ملا۔ دونوں اِس بات پر غور کر رہے تھے کہ اگر ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو کیا اُس خطے کا دفاع ممکن ہوگا؟ 17روزہ جنگ ختم ہو گئی۔

مشرقی پاکستان محفوظ رہا مگر میرے ذہن میں یہ سوال کلبلاتا رہا۔ بہت دیر بعد پتا چلا کہ پاکستان کی فوجی حکمتِ عملی میں مشرقی پاکستان کا دفاع، مغربی پاکستان میں تعینات فوج کی صلاحیت سے منسلک کر دیا گیا تھا۔ خیال آتا ہے کہ شاید یہ عسکری حکمتِ عملی ہماری فہم کے لیے قابلِ قبول ہو مگر مشرقی پاکستان کے باشندے قائل نہ ہوئے ہوں۔

آزادی کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی اور جمہوری نظام میں حکومت اُن کے ہاتھ رہتی۔  اِس ناپسندیدہ امکان کو روکنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے گئے۔ کار سرکار کا انتظام بھی اِس طرح ہوا کہ 1947سے 1971تک مشرقی پاکستان کے تمام چیف سیکرٹری مغربی پاکستان سے بھیجے گئے اور وفاقی حکومت میں بنگالی افسر سیکرٹری کے عہدے کے لیے نااہل سمجھے جاتے۔

سیاسی میدان میں بھی جب ناانصافیوں کا سلسلہ دراز ہوا تو مشرقی پاکستان نے 1954کے صوبائی الیکشن میں مسلم لیگ کو مکمل طور پر رد کر دیا۔ ہمیں یہ تبدیلی گوارا نہ ہوئی۔ شیرِ بنگال مولوی فضل حق جنہوں نے لاہور کے جلسۂ عام میں 23مارچ 1940کی قرار داد پیش کی تھی، عہدے سے علیحدہ ہو گئے۔ مشرقی پاکستان ایک دفعہ پھر گورنر جنرل کی قابلِ اعتماد قیادت کے سپرد کر دیا گیا۔

الطاف گوہر سابقہ بیوروکریٹ، ایوب خان کے دورِ حکومت میں مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان، نواب آف کالا باغ کے اسٹاف میں شامل تھے۔ 1990کی دہائی میں اُنہوں نے ایک اخبار کے کالم میں ذکر کیا کہ گورنر پنجاب، مشرقی پاکستان تشریف لے گئے تو اپنے ہمراہ گوشت، سبزی حتٰی کہ پینے کا پانی بھی لاہور سے لائے۔

علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش نے مذہبی انتہا پسندی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی پر بھی قابو پالیا۔ 1947میں مشرقی پاکستان کی آبادی 54فیصد اور ہماری 46فیصد تھی۔ اب یہ تناسب اُلٹا ہو چکا ہے۔ بنگلہ دیش نے جس حکمتِ عملی سے یہ کامیابی حاصل کی وہ ہمارے پالیسی سازوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ معاشی میدان میں بھی بنگلہ دیش ہمیں بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اُن کے فارن کرنسی کے ذخائر اور برآمدات ہم سے دو گنا ہیں۔

شرح خواندگی اور تعلیم کے معیار کا بھی کوئی مقابلہ نہیں رہا۔ اور کیا کہوں بنگلہ دیش میں کپاس کاشت نہیں ہوتی مگر پھر بھی تیار لباس کی برآمد ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت اور کپڑے کی صنعت سے منسلک تنظیموں نے باہمی تعاون سے گھریلو عورت کو ہُنر سکھانے پر سرمایہ کاری کی۔ بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری میں خواتین ورکرز کی تعداد 90فیصد سے زائد ہے۔ وہ محنت سے کمائی ہوئی رقم اپنے خاندان کی بہتری کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے اور معاشرتی رواداری کو فروغ دینے کے لیے اِس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں مگر ہمیں بنگلہ دیش سے کچھ نہیں سیکھنا کیونکہ ہم اُن سے زیادہ عقلمند ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ اِن میں میجر جنرل خادم حسین راجہ کی مختصر کتاب A Stranger In My Own Countryاِس لحاظ سے منفرد ہے کہ آرمی ایکشن کے دوران وہ ڈھاکہ میں جی او سی تعینات تھے۔ اُنہوں نے فوجی ہائی کمان کے بارے جو کچھ لکھا مُجھے اُس سے سروکار نہیں۔

البتہ کتاب میں اُن کا ایک تجزیہ قابلِ توجہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بنگالی اپنے ’’سنہرے دیس‘‘ کے بارے میں خوش فہم ہیں کہ علیحدگی کے بعد اُن کا وطن، زندگی میں خوشگوار تبدیلی لائے گا۔ کیونکہ وہ جس خطے کے باسی ہیں، اُس میں بھوک، افلاس اور معاشی بدحالی کے علاوہ کسی اور چیز کی اُمید نہیں رکھی جا سکتی۔ آج بنگلہ دیش کی ترقی مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ ہم کب تک فرسودہ نظریات کے قیدی رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments