آتش کدہ


گھر، جو با الخصوص خونی رشتوں پر مشتمل محدود افراد کے رہنے کا وہ ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ہر مکین اپنے آپ کو شانت محسوس کرتا ہے۔ گھر کے تمام افراد اس ٹھکانے کو جنت نظیر بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ مشرقی معاشرے کے مرد بالعموم، محنت و مزدوری کر کے گھر کے بیرونی انتظام و انصرام کو چلاتے ہیں، جب کہ عورتیں گھر کی اندرون نوک پلک سنوارنے اور امور خانہ داری سے نمٹنے کے لیے تن دہی سے کوشاں رہتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بعض اوقات جذباتی فیصلوں، متضاد آراء اور باہمی نفاق کی وجہ سے جنت نظیر گھر آتش کدے بن کر مکینوں کے لیے جہنم بن جاتے ہیں۔

خان محمد کا تعلق ایک متوسط دیہاتی گھرانے سے تھا۔ دیگر اہل گاؤں کی نسبت وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ پر سکون زندگی گزارتا تھا۔ لیکن اولاد نرینہ نہ ہو نے کی وجہ سے وہ کبھی کبھی پریشان ہو جاتا، مگر اپنی عمر اور صحت مند جسم کو دیکھتے ہوئے امید کی دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور انھیں ذات باری پر کامل یقین تھا کہ بندہ ناچیز کا یہ خواب ایک دن ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس خواہش کی جلد از جلد تکمیل کے لیے خان محمد کے ہاں یکے بعد دیگرے پانچ بیٹیوں کی تولد ہوئی۔

لیکن آخر کار خان محمد کی دعا بارگاہ الٰہی میں مستجاب ہوئی۔ بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں اپنی تمام جمع پونجی کو پانی کی طرح بہا کر اپنے عزیز و اقارب اور دیگر دوستوں کے لیے پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا۔ سب حاضر ہوئے ؛ کھانے پر دشمن کی فوج کی طرح ٹوٹ پڑے ؛ خوب ہلہ گلہ کیا؛ ڈھول کی تھاپ پر خوب رقص ( اتن) کیا؛ آتش بازی کی گئی اور نشانہ بازی کرتے ہوئے گولیوں کی تھرتھراہٹ آکاش کی وسعتوں میں کافی دیر تک گونجتی رہی۔ آخر خان محمد کے ہاں اولاد نرینہ کی پیدائش جو ہوئی ہے!

سب حاضرین کی اتفاق رائے سے ننھے مہمان کا نام سلیم طے پا گیا۔ ان حاضرین میں خان محمد کا بڑا بھائی جان محمد بھی نشست فرما تھے۔ دونوں میں کچھ دیر تک کھسر پھسر جاری تھی، بالآخر خان محمد نے اعلان کیا کہ سلیم کی منگنی جان محمد کی بیٹی کے ساتھ طے پا گئی ہے۔ کیوں کہ ہم پہلے ہی ایک دوسرے سے یہ زبانی اقرار کر چکے تھے کہ اگر میرے ہاں بیٹا ہوا تو اس کی نسبت جان محمد کی بیٹی سے ہوگی۔ یہ اس لیے کہ سال ہا سال سے ہمارا دوسرے قبائل کے ساتھ چلنے والا اراضی تنازعہ اور اس کے تناظر میں ایک دوسرے کے قبیلے میں رشتے نہ کرنے کا حتمی فیصلہ ہے۔ یہ میری وصیت ہے، چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیاں اپنے ہی خاندان میں کرائیں گے اور بس! یوں یہ تقریب با سعادت اور اگلی نسل کے لیے باعث مصیبت اختتام پذیر ہوئی۔

اپنے ہم عصروں کے بر عکس، سلیم منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا اور والدین کا اکلوتا بیٹا بھی تھا۔ اس لیے والدین نے انھیں تعلیم دلانے کے لیے ولایت بھیج کر ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ ذہین و فطین ہونے کے ساتھ ساتھ نیک چلن بھی تھا۔ بی اے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ اپنے پس ماندہ علاقے کی تعلیمی ترقی اور سماجی فلاح و بہبود کے لیے گاؤں لوٹا۔ اپنی مثبت سوچ، نیک خصلت اور پاکیزہ کردار ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں کے دل میں گھر کر گئے تھے۔

انھوں نے گاؤں کے ایک سکول (جو موہن جوداڑو، ہڑپہ اور بابل کے کھنڈرات کا نظارہ پیش کر رہا تھا) میں بلا معاوضہ بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ تین سال بعد ، حسب وصیت سلیم کی شادی جان محمد کی بیٹی شبو کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے ہوئی، سلیم پہلے ہی سے جانتا تھا کہ شبو ناخواندہ ہونے کے ساتھ ساتھ پھوہڑ، زبان دراز، فاتر العقل اور امور خانہ داری سے یکسر ناواقف ہے۔ اپنے تایا جان کی وصیت اور دہشت کی وجہ سے سلیم نے اپنی زندگی کی ناؤ کو حالات کی موج کے سامنے شدید دل شکستگی کی حالت میں سب کچھ مشیت ایزدی سمجھ کر طوفان نوح کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

سلیم کی خوشیاں ماند پڑ گئیں، آنکھوں کی پرکاش مدھم ہوتی گئی اور زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارتا۔ اسی طرح زندگی وبال جان بن کر گزرتی رہی۔ میاں بیوی کے اٹھنے بیٹھنے، عادات و اطوار، رہن سہن اور غور و فکر میں بعد المشرقین پائے جانے کے باوجود سلیم ایک بیٹے اور ایک بیٹی کا باپ بن تو گیا، لیکن باہمی ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث اولاد کی وہ تربیت نہ کر سکا جس کے وہ صحیح معنوں میں حق دار تھے۔ یعنی سلیم کی اولاد شتر بے مہار کی طرح جوان ہوئی۔ وہ سلیم، جو علاقے سے ناخواندگی کے داغ دھونے کے مشتاق تھے، اب وہ اپنی اولاد کی ناخواندگی کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ جب ہم فاتر العقلیت اور سلیم العقلیت کو ایک ہی قالب میں سمونے کی جبری کوشش کرنے سے باز نہیں آتے تو نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پتے رہے گا۔

دریں اثناء، سلیم کے بیٹے اور بیٹی، دونوں کی شادیاں ہوئیں۔ سلیم کے بیٹے بدھو کی شادی بھی حسب روایت خاندان میں ہوئی۔ بدھو کی بیوی (جمیلہ) پڑھی لکھی، نیک، سگھڑ، سلیقہ مند اور امور خانہ داری سے خوب واقف تھی؛ یعنی بالکل ’اصغری‘ پر گئی تھی۔

سلیم کی بیٹی جو پھوہڑ پنی میں اپنے ماں سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ سسر، ساس اور شوہر سمیت سب کے دل جیتنے میں نامراد ہو کر واپس اپنے میکے لوٹ چکی تھی، اور بدھو کے حرکات و سکنات بھی مشکوک معلوم ہونے لگی تھی۔ بدھو نہ صرف منشیات فروشوں کے ہاتھوں لگ گیا تھا، بلکہ نشے کی لت میں بھی گرفتار ہو چکا تھا۔ سلیم کی بے چاری بہو (جمیلہ) یہ سب کچھ حتی المقدور سہتی ہوئی قبائلی روایات، رسم و رواج اور عورتوں کی راہ میں حائل سماجی بندشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خاندان یا سسر کے سامنے کبھی حرف شکایت تک نہیں کی، دل پر بھاری پتھر رکھ کر سب کچھ سہتی اور اندر ہی اندر سے کڑھتی رہی۔

جب بدھو کی حالت انتہائیں چھونے لگی؛ مہینوں مہینوں تک گھر آنا یاد نہیں آیا؛ والدین اور بیوی سمیت سب اجنبی معلوم ہونے لگے ؛ اور حتیٰ کہ حق زوجیت ادا کرنے سے بھی قاصر رہا، تو جمیلہ نے ایک دن زیر لب سلیم اور اپنے باپ کو بدھو سے گلو خلاصی کی شکایت کی تو دونوں نے انھیں خاموش رہنے اور سب کچھ رضائے الٰہی سمجھ کر نہ صرف صبر کرنے کا مشورہ دیا، بلکہ اس معاملے کو خاندان کی غیرت کا جنازہ قرار دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ٹال دیا۔

ایک دن شام کا وقت تھا۔ سلیم معمول کی بہ نسبت تقریباً دو گھنٹے پہلے گھر آیا تھا۔ وہ گہری سوچ میں محو تھا۔ گھر سنسان تھا۔ دشت کا سماں تھا۔ ہو کا عالم تھا اور ہر طرف سے جھینگروں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سلیم نے اس گھٹن زدہ ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لیے ٹی وی آن کیا کہ اچانک سکرین پر یہ خبر نمودار ہوئی کہ پولیس نے منشیات فروشوں کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف بھاری مقدار میں منشیات برآمد کر لی ہے، بلکہ فائرنگ کے تبادلے میں منشیات فروشوں کا سرغنہ بدھو کو بھی مارا ہے۔

یہ خبر سنتے ہی سلیم بے دھڑک چیخ کر اٹھنے والا ہی تھا کہ آنکھوں پر گہری سیاہی طاری ہو گئی اور غشی کی حالت میں زمین پر گر پڑا۔ برآمدے میں موجود بوڑھے خان محمد نے سلیم کی دہشت زدہ چیخ سن کر اللہ اکبر کا ورد کرتے ہوئے اندر آئے تو سلیم نہایت کسمپرسی کی حالت میں زمین پر اوندھا پڑا آخری ہچکیاں لے کر بڑبڑا رہا تھا: ”ہائے میرے بدھو! تجھے آخر کس کی نظر لگ گئی؟

اس شام جمیلہ اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں سسکیوں اور ہچکیوں کے ساتھ اپنی شادی کی آٹھویں سالگرہ منا رہی تھی۔ وہ آج بدھو کی بندھن سے نجات پانے کے لیے رب کے حضور بہت گڑگڑائی تھی۔ وہ اپنی سالگرہ کی پہلی موم جلائی نہ تھی کہ اچانک اپنے سسر کی عجیب و غریب چیخ پکار اور بڑبڑا ہٹ سن کر ان کے کمرے کی طرف دوڑی، اور سلیم کو بے حس و حرکت دیکھ کر ششدر رہ گئی۔

سلیم، جان بہ لب ہے۔ ان کے ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئی ہیں اور کانپتے ہاتھوں سے پانی کے مٹکے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ بہو نے بڑی چابک دستی سے چند قرآنی آیات ایک گلاس پانی پر چھو کرتے ہوئے سلیم کو پلانے والی تھی، کہ بوڑھا خان محمد طیش میں آ کر بہو کے ہاتھ کو زور دار جھٹکا دے کر کہا: ”ہٹ جا منحوس! میں تمہاری شکل دیکھنے کا بھی روادار نہیں۔ جب سے تم نے اس گھر میں قدم رکھا ہے تب سے ہم نے خیر نہیں دیکھی۔ آخر تم ہو کون؟ آسیب ہو یا حوا زاد؟“ خان محمد نے ایک قدم اور بڑھتے ہوئے اپنے ضعیف اور ناتواں ہاتھوں سے جمیلہ کا گلا دبوچتے ہوئے کہا: ”اگر تم واقعی تابع فرمان بیوی ہوتی، تو آج میرا اکلوتا پوتا اس طرح بدنامی کی موت نہ مرتا“ ۔ جمیلہ یہ سب سن کر حقارت آمیز نظروں سے خان محمد کو دیکھتی ہوئی ایک طرف خاموش کھڑی رہی۔ خان محمد نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے جب سلیم کی طرف دیکھا تو سلیم کی روح پانی پیے بغیر قفس عنصری سے پرواز کر گئی تھی۔ ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔

خان محمد نے سلیم کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا اور جمیلہ سے دوبارہ قہر آمیز لہجے میں مخاطب ہوا: ”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے“ اب جمیلہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور خان محمد پر گرج کر بولیں : ”یہ میری وجہ سے نہیں، بلکہ ماضی میں کیے گئے آپ کے غلط فیصلوں، جذباتی وصیتوں، آپ کے آبا و اجداد کی دقیانوسی روایات اور قبائلی لڑائیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔

اب مجھ پر چیخنے چلانے سے بہتر ہے کہ آپ سلیم اور بدھو کی تدفین کے ساتھ ساتھ اپنی آنا، ضد، ہٹ دھرمی، جہالت، روایت پرستی، دقیانوسیت، قبائلیت اور زن بیزاری کی تجہیز و تکفین کا بندوبست بھی کر لیں۔ تف ہو ایسے جینے پر! میں اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے اس آتش کدے سے ہمیشہ کے لیے بہت دور جا رہی ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments