کہاں جا رہے ہو؟


میں کل اپنی خالہ کے پاس جا رہا ہوں۔ میں نے انہیں کبھی دیکھا نہیں، بس اتنا سنا کہ ان کی ساری تصویریں جلا دی گئیں۔ پھر ان کا ذکر نہ ماں نے کیا نہ باپ نے۔ خدا جانے کیسا جرم کیا ہو گا۔ شادی ہوئی تھی، نئی نویلی دلہن چلی گئی، ارے بھئی کہاں چلی گئی۔ تم ابھی چھوٹے ہو ناں! کیا سمجھو گے، عاشق تھا اس کا بھگا کر لے گیا۔ میں نے پھر ماں سے پوچھا کہاں لے گیا، کبھی پھر ملی بھی نہیں ۔ خدا جانے کیا ہوا ماں جی نے رونا شروع کر دیا۔

پہلے بھی اکثر نانی خالہ بشریٰ کا ذکر کرتے رونے لگتی تھی۔ کیا عشق ایسا جرم ہے۔ اور مزے کی بات بقول بانو، لا حاصل کی جستجو انسان کی گھٹی میں شامل ہے۔ مگر ورغلایا کس نے؟ یہاں سے کہانی میں ٹوسٹ آتا ہے۔ جب دو دل آپس میں معاملات پکے کر لیں، پھر دنیا باتیں کرتی ہی رہ جاتی ہے۔ اور وہ پریم نگر کو اڑ جاتے ہیں۔ یہ دنیا ہے ہی ایسی کسی کو بسنے نہیں دیتی۔ کوئی خاموش ہے تو بولنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ بسا اوقات بھونکے پر بھی جان نہیں بخشتی۔

خاموشیوں کو سمجھنا کیا ہے، پھولوں سے باتیں کیوں کر ہوں، یہ ان کی ترجیحات ہی نہیں۔ یا صرف ناکام لوزر لوگ ہی یہ سب کرتے ہیں۔ ہے شاعر، ہے ادیب یہ سطروں کے بیچوں بیچ راز حیات کہ دینے والے خدا جانے کون ہیں۔ پر ایک چیز ان سب میں مشترک ہے، درد اور لا حاصل کی جستجو۔ مگر خالہ تو لوزر نہ تھی، وہ بہادر تھی، وہ کر گئی جو کوئی نہ کر سکا۔ کچے گھڑے سے کود گئی، پر منزل پا گئی۔ میں تو کبھی اس کی شکل بھی نہ دیکھ سکا۔ کہتے ہیں خوب رو تھی، چہکتی، الہڑ، من چلی زندگی سے بھرپور مگر وہ راز پا گئی جو بڑے بڑے پروفیسر، دانشور نہ پا سکے۔

ایک شاندار دو پہر بھیا کو ہسپتال سے ایمرجنسی بلایا گیا، ان کا ایک قدم چوکھٹ کے اندر، اس کا ایک ڈگ ہستی کے پار۔ ہم سب کو بھی سکھا دیا ہوتا، یہ راز، وعدے کیسے وفا کرتے ہیں۔ اسی خالہ کے پاس جسے سب بھولا گئے، اس کی دنیا بھی عجب ہوگی، ہم حیوانوں سر دور، اہل دل کی نگری۔ جاؤں گا ضرور اس کے پاس، تم جو مرضی کر لو۔ مجھے روک نہیں سکو گئے اور پھر رہ جائیں گی داستانیں! اجلی ٹھنڈی راتوں میں زندگی کے راز اگلتی، لوزر لوگوں کی داستانیں۔

عثمان ارشد
Latest posts by عثمان ارشد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments