تعلیمی نظام سے اٹھتا ہوا دھواں


ہمارے رقیب جس قدر شاطر ہیں اس سے ہزار گناہ ہم بے وقوف ہیں یہ بات طے ہے کہ دشمن نے جو چال چلی ہے وہ تیغ و تلوار سے کئی گناہ زیادہ خطرناک ہے عنقریب دشمن کی اس چال سے ہماری تعلیمی نظام سے اٹھتا ہوا دھواں اس قوم کو تباہی کی طرف لے جانے والی ہے اور سب سے بڑھ کر افسردگی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہم خود کر رہے ہیں ہمارا تعلیمی نظام ہمارے ہی ہاتھوں سے تباہ ہو رہا ہے اس وقت ہمارے تعلیمی اداروں کا جو حال ہے وہ انتہائی نازک صورتحال ہے لیکن سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس نازل صورتحال سے بالکل بے خبر ہیں، حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں تربت یونیورسٹی کے بارے میں جو دعوی کیا گیا وہ اس خطے میں رہنے والوں کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہے لیکن ہم سب خواب خرگوش میں سوئے ہوئے ہیں اس قوم کو بجلی کی فکر تو لائق ہے نوکری کے لیے سڑکوں پر دھرنا دے سکتا ہے تنخواہوں کے لیے حکومت کو جھکا سکتا ہے کسی فرد واحد کے قتل کے خلاف ریاست کی بنیادیں ہلا سکتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ احتجاج تو درکنار، تعلیمی اداروں کی بربادی میں وہ برابر کا شریک ہے اور اس کی ذرا برابر اسے پرواہ بھی نہیں۔ شاعر نے کہا ہے اور بہت خوب کہا ہے۔

اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔

یونیورسٹیاں کسی بھی قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اگر یونیورسٹیاں محض پیسے کمانے اور عیاشیاں اڑانے کے اڈے بن جائیں تو سر بازار رسوا ءہونا ہی اس قوم کا حق ہے ہمارا نظام تعلیم اس وقت جس تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اس پر صرف رویا جاسکتا ہے اس میں دشمن کا ہاتھ ضرور ہے لیکن دشمن سے بڑھ کر ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں بلوچستان میں رہنے والے سرداروں کے بارے میں تو خیر یہ طے ہے کہ وہ اس قوم کو بکاؤ کا مال سمجھتے ہیں اور ہر پانچ سال بعد اسے بیج کر نفع بخش کاروبار کرتے ہیں لیکن اس جرم میں ہمارے قوم پرستوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے بلوچستان یونیورسٹی ہمارے پٹھان قوم پرستوں نے ناکارہ بنا دیا، اور اوتھل، خضدار، سمیت تربت یونیورسٹی بلوچ قوم پرستوں نے، جب کسی یونیورسٹی میں ریکروٹمنٹ کی بنیاد سیاسی پارٹیاں ہوں اور ان کی سفارش کے بغیر کوئی شخص داخل نہ ہو سکتا ہو، بھلے وہ جتنا قابل کیوں نہ ہو، پھر اس یونیورسٹی میں تعلیمی معیار کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کا حال یہ ہے کہ ایک ایک شخص پر انگلی رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ڈاکٹر مالک کی سفارش سے آیا ہے یہ اختر مینگل کی سفارش سے آیا ہے اور یہ ظہور بلیدی صاحب کی سفارش سے آیا ہے اور احسان شاہ یا اسد بلوچ کی سفارش سے آیا ہے کیا یہ سب لوگ قومی پرستی کے دعویدار نہیں ہیں اور یہ کیسے قوم پرست ہیں کہ جو نظام تعلیم کو سفارش کی آڑ میں تباہ کر کے قومی پرستی کے دعویدار ہیں حقیقت یہ ہے کہ جو سیاستدان اتنی بڑی خرابی کو تصور تک بھی لائے تو اسے قوم پرست یا لیڈر کے بجائے مفاد پرست اور پیٹ پرست کہنا ہی مناسب رہے گا۔

تربت یونیورسٹی میں حالیہ تعیناتیوں کے بارے میں بھی شدید غصہ پایا جاتا ہے حالیہ تعیناتیوں میں بھی میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں جس سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں شدید مایوسی پایا جاتا ہے دھاندلی اور سفارشی ماحول کا یہ قصہ اس قدر بھیانک ہے کہ اندرونی ذرائع کے مطابق ایک شخص باقاعدہ طور پر بلوچی ڈپارٹمنٹ میں ریسرچ اسسٹنٹ کا پوسٹ کریٹ کرتا ہے جس کے لئے بلوچی میں ایم اے کی شرط رکھی جاتی ہے کیونکہ اس کی بیٹی ایم اے پاس ہے اور اس کو ہر صورت میں اس پوسٹ پر اپنی بیٹی کو تعینات کرنا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچی ڈپارٹمنٹ میں اس پوسٹ کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے اور اگر کوئی ریسرچ اسسٹنٹ رکھا بھی جاتا ہے اس میں سوشل سائنسز کی شرط رکھی جائے یا کم از کم بلوچی میں ایم فل کی شرط رکھی جائے ورنہ اس کے لیے پی، ایچ، ڈی کی شرط لازمی ہے لیکن ان تمام امور کو بالائے طاق رکھ کر محض اسی بناء پر کہ اس پوسٹ پر کسی خاص ہستی کو تعینات کرنا ہے سب قوانین کو نظر کر دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس قدر نا اہل ہے کہ اس کا ٹیسٹ بھی پاس نہیں کر سکی۔

خیر یہ تو ایک مثال تھی اس طرح کے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں میرٹ کی پامالی کا یہ قصہ اس قدر طویل اور بھیانک ہے کہ اگر تربت یونیورسٹی میں کسی لائق اور قابل شخصیت کی تعیناتی بغیر سفارش کے کیا جائے تو اسے حادثہ ہی کہا جاسکتا ہے ورنہ یونیورسٹی میں بیٹھے چند لوگوں کی لابی اس قدر طاقتور ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو نوازنے کے لیے جس شعبے میں ڈگری ان کے پاس ہو، تو وہی شعبہ کھولا جاتا ہے تاکہ اپنے من پسند افراد کو تعینات کیا جا سکے۔ جبکہ ضرورت کے تحت ابھی تک کسی بھی شعبے کا ابتداء نہیں کیا گیا ہے۔

اسی وجہ سے اس تعلیمی نظام سے  ہر برائی مبتلا لوگ پیدا ہو رہے ہیں لیکن کوئی اچھا انسان ان تعلیمی اداروں سے پیدا نہیں ہوا ہے ہم اس نظام تعلیم پر جو کچھ خرچ کر رہے ہیں یوں سمجھ لو کہ اسے دریا میں بہا رہے ہیں مزید یہ کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ظالم ہی اس تعلیمی نظام سے پیدا کر رہے ہیں یقین جانیں یہ وسائل کے ضیاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اگر معاشرتی علوم کا طالب علم اخلاقی اقدار سے عاری ہو تو اس کی تعلیم کا فائدہ، اگر کیمسٹری کا ایک طالب کیمیا میں پی، ایچ، ڈی کے باوجود ایک صابن نہیں بن سکتا تو یہ وسائل کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر فزکس میں پی، ایچ، ڈی کرنے والے جدید علوم کا طالب علم نیوٹن کے قوانین پر تنقیدی نوٹ نہیں لکھ سکتا تو فزکس میں وہ کیا کارنامہ دکھائے گا۔

بہرکیف صرف تربت یونیورسٹی میں ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے تمام یونیورسٹیوں کا حال یہی ہے بات صرف غیر قانونی تعیناتیوں تک محدود نہیں ہے، جب سفارش کی بنیاد پر بھرتیاں کی جاتی ہیں تو یہ یونیورسٹیاں درس گاہ کے بجائے کسی بڑے پارک کا نظارہ پیش کرتی ہیں اس لیے ہمارے یونیورسٹیوں میں بچیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں مختلف طریقوں سے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی تو اس طرح کے رذیل حرکتوں کا گڑھ ہے کہ جہاں بچیوں کے واش تک کیمرے لگائے جاتے ہیں لیکن تربت اور اوتھل جیسے جگہوں میں کہ جہاں عورت کی اپنی ایک قدر ہے وہاں بھی بچیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے ایسے بیسویں کیسز کی رپورٹ تو مجھ ناچیز تک پہنچی ہے کہ جس میں ہمارے پروفیسرز صاحبان نے بچیوں کو جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا ہے۔

یہ قصہ اس قدر بھیانک ہے کہ اسے بیان کر نے کو ہی میں اس خطے کی روایات کی پامالی سمجھتا ہوں۔ بلوچ جسے اپنی حیا و غیرت پر ناز ہے اسی قوم کا وہ سپوت جو سوشل سائنسز میں پی، ایچ، ڈی کر کے پروفیسر بن جاتا ہے لیکن اخلاقی پستی کا حال یہ ہے کہ اٹھارہ سالہ لڑکی کو محض چند نمبروں کی خاطر اپنی بستر پر سونے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ معاشرتی علوم کا وہ طالب علم جس نے معاشرتی علوم میں پی، ایچ، ڈی کی ہے اس کا یہ حال ہے تو حضرت سوچیے کہ آپ کی قوم اخلاقی پستی کے کس نہج پر آ کر کھڑی ہے۔

ہمیں حالات کا صحیح ادراک کر کے تمام رشتہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر ہمیں قومی سطح پر بہتری لانے کے لیے عدل کا دامن تھامنا ہو گا ورنہ اس تعلیمی نظام سے اٹھتا ہوا دھواں عنقریب ہمیں تباہ کردے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments