قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے


واہگہ بارڈر لاہور کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں بھیسین آباد ہے۔ ستائیس برس سے پہلے کی بات ہے کہ وہاں ایک سمگلر، زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والا بدمعاش رہتا تھا۔ ہماری سیاست کے سنہری اصولوں کے مطابق اس بدمعاش کے ٹیلنٹ کا تقاضا تھا کہ وہ سیاست میں آتا۔ لہٰذا وہ پنجاب اسمبلی کا معزز رکن بھی تھا۔ اس کے ہاتھوں آبائی زمینوں اور مکانوں سے بے آباد ہونے اور نکالے جانے والے لوگ زیادہ تر غریب اور چھوٹے کسان ہوتے جو اس کی تنی ہوئی مونچھوں، شراب سے زیادہ سرخ آنکھوں اور ظلم سے بڑے ظالم کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔

ان بیچاروں کے پاس تو اس وقت کی عدالتوں میں جانے کے لیے وکیل کو دینے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ اگر کوئی اپنے باقی مویشی بیچ کر وکیل کر لیتا تو وہ خود باقی نہ رہتا۔ پورے گاؤں میں وہی کتابی ماحول تھا جس میں لکھا ہوتا ہے کہ بستی کے لوگ سب طرف سے مایوس ہو کر نیلے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ انہی دنوں پاکستان کی سیاست میں ایک نیا نعرہ لگایا گیا۔ بیشک اس نعرے کا مختلف انداز سے مذاق بھی بنایا گیا مگر اس نعرے نے اور اس کے لگانے والے نے واہگہ بارڈر کے قریب بھیسین گاؤں کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

”ظالمو قاضی آ رہا ہے“ کے موجد قاضی حسین احمد کو جب اس گاؤں کے لوگوں کی کسمپرسی کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھیسین گاؤں جانے کا فیصلہ کیا۔ بھیسین گاؤں کے مظلوم لوگ گاؤں سے باہر قاضی حسین احمد کا استقبال کرنے کے لیے ایک رات پہلے ہی اکٹھے ہو گئے۔ دوسری طرف اس بدمعاش رکن پنجاب اسمبلی نے نہ صرف سینکڑوں مسلح افراد گاؤں میں جمع کر لیے بلکہ حکومت کی مدد لے کر پولیس کی بھاری نفری بھی منگوا لی۔

سین کچھ یوں ہوا کہ سرکاری اسلحے سے لیس پولیس، بدمعاش رکن پنجاب اسمبلی کے مسلح افراد ایک طرف جبکہ دوسری طرف گاؤں کے نہتے مظلوم لوگ اور قاضی حسین احمد کے ساتھی موجود تھے۔ رات بھر بدمعاش مسلح افراد اور سرکاری پولیس ہوائی فائرنگ کرتی رہی اور گالیاں دیتی رہی۔ مقصد قاضی حسین احمد کو اس گاؤں کی طرف آنے سے روکنا تھا لیکن چلنے کا ارادہ کرنے والے نہیں رکتے۔ قاضی حسین احمد کچھ ساتھیوں کے ساتھ گاؤں کے کنارے تک پہنچ گئے۔

سرکاری اہلکار چالاک بھی ہوتے ہیں اور سمجھدار بھی۔ ان کا طریقہ ہوتا ہے کہ پہلے ڈراؤ، اگر دوسرا ڈر جائے تو بات بن گئی اور اگر نہ ڈرے تو خود ڈر جاؤ اور معاملے کو صلح صفائی کی طرف لے جاؤ۔ بالکل ایسا ہی ہوا۔ سرکاری مشینری حرکت میں آئی اور انہوں نے قاضی حسین احمد کو معاملے کا آسان اور فوری حل پیش کر دیا کہ بدمعاش رکن پنجاب اسمبلی اور مظلوم لوگوں کے درمیان تمام معاملات جلد طے کروا دیے جائیں گے جس کے لیے ضامن بھی مقرر ہو گئے۔

یوں یہ معاملہ بغیر کسی خون خرابے کے طے ہوا، حقداروں کو ان کا حق ملا اور ظالم کو لگام۔ ایسی اور بھی بہت سے مثالیں ہیں۔ ان سب کا اور قاضی حسین احمد کے نعرے ”ظالمو قاضی آ رہا ہے“ کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس نعرے کی فلاسفی کی بنیاد جرات کے ساتھ نا انصافی کو چیلنج کرنا تھی لیکن یہ جرات 6 جنوری 2013 ء کو خاموش ہو گئی۔ قاضی حسین احمد نے اس وقت پش اور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں MSc کی ڈگری حاصل کی جب لوگ آٹھ جماعتوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سمجھتے تھے۔

وہ تین برس تک سیدو کالج سوات میں گریجویشن کی سطح کے طلباء کو پڑھاتے رہے لیکن مزاج میں نوکری نہ تھی۔ لہٰذا مستعفی ہو کر ذاتی کاروبار شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد ہی ان کی شخصیت یہاں بھی نمایاں ہو گئی اور وہ خیبرپختونخوا کے اس وقت کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہو گئے۔ طبیعت کو پھر بھی قرار نہ آیا تو 1970 ء میں جماعت اسلامی کے ساتھ چلنے لگے۔ ان کی یہ مسافت آخری سانس تک جاری رہی۔ ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ۔

وہ آئے، انہوں نے دیکھا اور فتح کیا۔ ٹھیک 8 برس بعد 1978 ء میں وہ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ عموماً سنجیدہ سیاسی جماعتوں میں سربراہ بزرگ شخصیت ہوتی ہے جبکہ سیکرٹری جنرل نسبتاً جوان اور ایکٹو ہوتا ہے۔ شاید اس لیے کہ پارٹی میں بھاگ دوڑ اور تھکا دینے والے کام سیکرٹری جنرل کو ہی کرنے ہوتے ہیں۔ یہی بات قاضی حسین احمد پر بھی فٹ آتی تھی۔ 1978 ء سے 1987 ء تک ان کی سیکرٹری شپ کا عہد پاکستان کی تاریخ میں بھی اہم ترین دور تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ شروع ہونے والی تھی جس کے لیے افرادی قوت پاکستان کو مہیا کرنی تھی۔ جماعت اسلامی افغان جہاد کے نظریے کے بہت قریب تھی جبکہ افغان مجاہدین قاضی حسین احمد کے بہت قریب تھے۔ لہٰذا قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی میں سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے تقرری اس حوالے سے سونے پر سہاگہ تھی۔ نہ جانے یہ بات واضح طور پر کیوں نہیں لکھی جاتی کہ اگر قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل نہ ہوتے تو شاید جماعت اسلامی کو افغان جہاد میں بہت مشکلات پیش آتیں، اگر جماعت اسلامی کو افغان جہاد میں مشکلات پیش آتیں تو پاکستان کو افغان جہاد میں مشکلات پیش آتیں، اگر پاکستان کو افغان جہاد میں مشکلات پیش آتیں تو امریکہ و مغرب کو افغان جہاد میں مشکلات پیش آتیں، اگر امریکہ و مغرب کو افغان جہاد میں مشکلات پیش آتیں تو سوویت یونین کو افغان جہاد میں مشکلات پیش نہ آتیں اور اگر سوویت یونین کو افغان جہاد میں مشکلات پیش نہ آتیں تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔

قاضی حسین احمد نے امیر جماعت اسلامی بننے کے بعد بھی پرو ایکٹو پالیسی ترک نہیں کی۔ انہوں نے جماعت اسلامی میں Openness کے نظریے کو متعارف کرایا، تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ تقریباً 5 ملین نئے افراد کی کارکن سازی بھی کی۔ آج کل ہماری سیاست میں احتجاج کا موثر انداز دھرنا ہے جسے سب پارٹیاں ذوق و شوق سے اپناتی ہیں۔ اس احتجاجی دھرنے کی پاکستان میں روایت ڈالنے والے بھی قاضی حسین احمد ہی تھے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ہوڑ مت اور بدمست دور میں بھی دھرنے دیے جب سیانے سیاستدان ”ایسا مت کرو“ کی تلقین کر رہے تھے۔

یونیفارم والے مارشل لائی جرنیل کو سڑکوں پر چیلنج کرنے کی پہلی دلیرانہ مثال بھی قاضی حسین احمد نے ہی قائم کی۔ وہ امریکہ کی Counter Terrorism Policy کی مخالفت کرنے والے اولین رہنما تھے۔ قاضی حسین احمد نے ڈیموکریٹک سوچ کے ساتھ سیاسی عہدوں پر تاحیات قابض رہنے کی مثال کی بھی نفی کی۔ اسی لیے انہوں نے 2008 ء میں امیر جماعت اسلامی کے مجوزہ ناموں میں سے اپنا نام نکلوا دیا۔ وہ جماعت اسلامی کے سربراہ نہیں رہے لیکن سیاست، تجزیہ نگاروں، مبصروں، قومی و بین الاقوامی رہنماؤں میں ان کی شخصیت پہلے کی طرح ہی محترم اور صاحب رائے رہی۔

2013 ء کے انتخابات کے حوالے سے نگران وزیراعظم کے لیے بحث چلی تو سب سے پہلے میں نے اپنے کالم میں غیر متنازع اور باصلاحیت سیاسی شخصیت قاضی حسین احمد کا نام نگران وزیراعظم کے لیے تجویز کیا جس کی بازگشت بعد میں بہت اعلیٰ سطح تک سنی گئی۔ یہاں تک کہ چوہدری نثار نے میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ مسلم لیگ نون نے قاضی حسین احمد کا نام نگران وزیراعظم کے طور پر ڈالنا چاہا مگر خود قاضی صاحب نے یہ عہدہ قبول کرنے سے معذرت کرلی۔

اگر ایسا ہو جاتا تو 2013 ء کے انتخابات کے بعد کے پاکستان کا سیاسی نقشہ متنازع نہ ہوتا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا 2013 ء کے عام انتخابات پر زیادہ سے زیادہ اعتماد ہوتا۔ قاضی حسین احمد کے سیاسی و مذہبی نظریات سے انکار کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قاضی حسین احمد جیسی شخصیت کا احترام ان کے مخالفوں کے دلوں میں بھی تھا۔ بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے ان کا نام یادگار نام ہے۔

جماعت اسلامی کے سیاسی و مذہبی اصولوں میں ان کے رہنماؤں کی برسی یا برتھ ڈے منانے کا رواج نہیں ہے لیکن قاضی حسین احمد کو یاد کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو کسی مظلوم بیوہ یا غریب کسان کی آواز پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے سے پہلے ہی قاضی حسین احمد ظالموں کے گریبان تک پہنچ چکے ہوتے اور ان کو یاد کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو پاکستان کی سیاست میں جرات اور دلیل کی ایک بھرپور آواز زندہ ہوتی۔

قاضی حسین احمد کو گزرے آٹھ برس بیت گئے لیکن ان کے حوالے سے دو تاثر پوری طرح موجود ہیں۔ پہلا تاثر یہ کہ قاضی حسین احمد کو گئے صدیاں بیت گئی ہیں اور دوسرا تاثر یہ کہ قاضی حسین احمد ابھی یہیں کہیں ہیں۔ پہلے تاثر کی دلیل یہ ہے کہ قاضی حسین احمد کے جانے کے بعد ظلم کی اندھیر نگری اتنی بڑھی کہ لگتا ہے روشنی صدیوں پہلے ختم ہو گئی تھی اور دوسرے تاثر کی دلیل یہ ہے کہ قاضی حسین احمد کے نام سے ظالم اب بھی خوف کھاتے ہیں۔ قاضی حسین احمد کے بارے میں یہ کہنا درست ہو گا کہ ”وہ آئے، انہوں نے دیکھا اور انہوں نے لوگوں کے دل فتح کیے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments