سدھا بھردواج: ’چھوٹی جیل کے بعد اب میں ایک بڑی جیل میں رہ رہی ہوں، جو کہ ممبئی ہے‘

سوتک بسواس - نامہ نگار، انڈیا


تین سال جیل میں گزارنے کے بعد انڈیا کی مشہور سرگرم کارکنوں میں سے ایک سدھا بھردواج اب ایک نئے شہر میں گھر بسانے اور کام تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ان کی رہائی کے وقت دی گئی ضمانت کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سدھا بھردواج مقدمے کی سماعت کے اختتام تک ممبئی نہیں چھوڑ سکتیں۔ ان پر الزام ہے کہ سنہ 2018 میں ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے ایک واقعے میں اُن کا بھی کردار تھا اور ماؤ نواز باغیوں کے ساتھ ان کے مبینہ روابط ہیں۔ انھیں اس مقدمے پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

جون 2018 سے لے کر اب تک وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی حکومت ریاست مہاراشٹر کے بھیما کوری گاؤں میں ہونے والے تشدد کے ایک کیس میں 16 لوگوں کو جیل بھیج چکی ہے۔ ان میں انڈیا کے قابل احترام سکالرز، وکلا، ماہر تعلیم، کارکن اور ایک عمر رسیدہ شاعر بھی شامل ہیں۔ (یاد رہے کہ قبائلیوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے کارکن، سٹان سوامی، جو اس کیس میں نامزد تھے، گذشتہ سال 84 سال کی عمر میں ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔)

انسداد دہشت گردی کے ایک قانون کے تحت ان افراد کی ضمانت سے بار بار انکار کیا جاتا رہا ہے، جس کے بارے میں بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اس قانون کو اب بنیادی طور پر اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

سدھا بھردواج دارالحکومت دہلی کی ایک معروف یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر ہیں لیکن اب وہ عدالتی حکم کی وجہ سے اپنے کام پر واپس نہیں جا سکتیں، بلکہ وہ دہلی کے مضافات میں اپنے فرید آباد میں واقع گھر بھی نہیں جا سکتیں۔ وہ اپنی بیٹی سے بھی نہیں مل سکتیں جو ایک ہزار کلومیٹر سے کچھ دور بِھلائی شہر میں نفسیات کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ 10 دسمبر کو جب سدھا کو ضمانت پر رہائی ملی تھی تو دونوں مختصر دورانیہ کے لیے مل پائی تھیں۔

60 سالہ سدھا بھردواج نے مجھے سوموار کو رہائی کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں بتایا کہ ’چھوٹی جیل کے بعد اب میں ایک بڑی جیل میں رہ رہی ہوں، جو کہ ممبئی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے کام اور ایسی جگہ (رہنے کے لیے) تلاش کرنی ہے جس کی میں استطاعت رکھتی ہوں۔‘ تب تک وہ ایک دوست کے پاس رہ رہی ہیں۔

میساچوسٹس، امریکہ میں پیدا ہونے والی بھردواج نے اپنے والدین کے انڈیا واپس آنے کے بعد اپنا امریکی پاسپورٹ واپس کر دیا تھا، یعنی امریکی شہریت ترک کر دی تھی۔ ریاضی دان سے وکیل بننے کے بعد وہ بالآخر ایک ٹریڈ یونینسٹ بن گئیں اور معدنیات سے مالا مال ریاست چھتیس گڑھ میں بے سہارہ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنے لگیں۔ یاد رہے کہ یہ ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں انڈیا کے سب سے زیادہ غریب اور سب سے زیادہ استحصال زدہ افراد رہتے ہیں۔

Police escort activist and lawyer Sudha Bharadwaj (R) towards a van as she leaves jail to appear in a special court ahead of her release on bail on the 2018 Bhima Koregaon case in Mumbai on December 8, 2021.

تین سال جیل میں رہنے کے بعد سدھا بھردواج کو دسمبر میں رہا کیا گیا تھا

تین دہائیوں تک غریبوں کو قانونی مدد فراہم کرنے کی وجہ سے وہ اب بہت سے لوگوں کے لیے انصاف کے حصول کی لڑائی میں امید کی ایک کرن بن چکی ہیں۔

لیکن پھر بھی وہ کہتی ہیں کہ جیل میں کاٹے گئے ان کے وقت نے، خاص طور پر وبائی مرض کے دوران، ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اندر جاتے ہی جب آپ کی عزت دغدار ہوتی ہے وہ ایک صدمے کی طرح ہوتا ہے۔‘

بھردواج کو 28 اکتوبر 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کا فون، لیپ ٹاپ اور کچھ سی ڈیز بھی ان سے لے لی گئی تھیں۔ ان کی ضمانت تین مواقع پر نامنظور کی گئی اور رہائی سے قبل انھوں نے دو جیلوں میں وقت گزارا۔

ان نے اپنا قید کا آدھا وقت پونے کی اعلیٰ حفاظتی یرواڈا سینٹرل جیل میں گزارا، جہاں عادی مجرموں کو ان کمروں میں رکھا جاتا ہے جو کبھی سزائے موت کے قیدیوں کے لیے مخصوص ہوا کرتے تھے۔

سیلز (کمروں) کے ساتھ ساتھ ایک لمبی راہداری ہے، جہاں وہ صبح شام چہل قدمی کر سکتی تھیں۔ لیکن قیدیوں کو اجازت تھی کہ وہ سیلز کے سامنے کھلے صحن میں ہر روز صرف آدھے گھنٹے کے لیے آ سکتے ہیں۔ متواتر پانی کی قلت کی وجہ سے قیدیوں کو نہانے اور پینے کے لیے پانی کی بالٹیاں سیلز تک خود لے کر جانا پڑتی تھیں۔

کھانے میں دال، روٹی کے دو ٹکڑے اور سبزی ہوتی تھی۔ جو قیدی اس کی استطاعت رکھتے تھے وہ جیل کی کینٹین سے اضافی کھانا خرید سکتے تھے۔ ان کے اہلخانہ کو ہر ماہ زیادہ سے زیادہ ساڑھے چار ہزار روپے ان کے جیل کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی اجازت تھی۔ انھوں نے پیسے کمانے کے لیے جیل میں اگربتیاں اور چٹائیاں بنائیں اور جیل کے فارم میں سبزیاں اور دھان اگایا۔

: Citizens stage a protest against the police raids and illegal arrest of human right activists, at Maharashtra Sadan, on August 29, 2018 in New Delhi, India

انسانی حقوق کے کارکنان کی گرفتاریوں کے خلاف انڈیا میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں

ممبئی کی بائیکولا جیل، جہاں انھیں بعد میں منتقل کیا گیا تھا، زیادہ مصروف اور زیادہ افراتفری کا شکار تھی، کیونکہ یہاں ان قیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو اپنے اپنے مقدمات کی سماعت کے منتظر تھے۔ ایک موقع پر خواتین ونگ کے ان کے یونٹ میں 75 قیدی خواتین رہ رہی تھیں، جبکہ اصل میں وہاں 35 کو رکھنے کی گنجائش تھی، اور وہ فرش پر چٹائی بچھا کر ایک دوسرے کے ساتھ سوتی تھیں۔ بھردواج نے کہا کہ ہر کسی کو ’تابوت کے برابر‘ جگہ دی گئی تھی۔

’زیادہ ہجوم لڑائی جھگڑوں اور تناؤ کا باعث بن جاتا ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک قطار ہے، کھانے اور بیت الخلا (کے لیے)۔‘

یہ بھی پڑھیئے

ملک گیر چھاپے، حقوق انسانی کے کارکن گرفتار

شہلا رشید کون ہیں اور کیوں ٹرینڈ کر رہی ہیں؟

انڈیا: انسانی حقوق کے اقدام پر مایوسی

انڈیا کا 84 سالہ ’دہشت گرد‘ جس کی جیل میں موت بڑی خبر بن گئی

گذشتہ موسم گرما میں وبائی بیماری کی دوسری لہر کے دوران ان کے یونٹ میں 55 میں سے 13 خواتین کووڈ 19 سے متاثر ہوئی تھیں۔ بھردواج کہتی ہیں کہ بخار اور اسہال ہونے کے بعد انھیں پہلے جیل کے ہسپتال اور پھر ایک پرہجوم ’قرنطینہ بیرک‘ میں رکھا گیا۔

عدلیہ کو ہماری جیلوں کی بھیڑ کم کرنے پر زیادہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ وبائی مرض کے دوران بھی زیادہ تر لوگوں کو اپنے اہلخانہ کے پاس واپس جانے کے لیے عبوری ضمانت نہیں دی گئی تھی۔

انڈیا کی 1306 جیلوں میں تقریباً چار لاکھ 90 ہزار قیدی رہتے ہیں، جن میں سے 69 فیصد اپنے مقدمات شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیلوں میں رہنے کی اوسطاً شرح 118 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ سنہ 2020 میں سپریم کورٹ نے ریاستوں سے کہا تھا کہ وہ کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے زیادہ بھیڑ والی جیلوں میں سے قیدیوں کو رہا کریں۔

بائیکولا جیل میں بھی بھردواج اپنی ساتھی خواتین قیدیوں کی عبوری ضمانتوں کے لیے درخواستیں لکھنے میں مصروف رہیں۔ ان میں سے بہت سے ٹی بی، ایچ آئی وی، دمہ کا شکار تھیں اور کچھ حاملہ بھی تھیں۔ ’ان میں سے کسی کو بھی (ضمانت) نہیں ملی، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عدالتوں میں ضمانت کے لیے بحث کرنے والا کوئی نہیں تھا۔‘

زیادہ تر قیدی سیکس ورکر تھیں یا انھیں انسانوں اور منشیات کی سمگلنگ کے کیسز میں حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ دیگر مفرور گینگسٹرز کی ’بیویاں، گرل فرینڈ اور مائیں‘ تھیں۔

’(دوسری لہر) قیدیوں کے لیے واقعی ایک مشکل وقت تھا۔ عدالتوں نے کام روک دیا تھا، قیدیوں کو خاندان والوں سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، مقدمات کی سماعت رک گئی تھی۔ یہ ایک برا وقت تھا۔‘

’بوڑھے اور بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو ذاتی مچلکوں پر ضمانت دی جانی چاہیئے۔ جو جیلیں پہلے ہی زیادہ بھیڑ والی ہیں وہاں قرنطینہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘

Sudha Bharadwaj after her arrest on Tuesday

Press Trust of India
بھردواج کو 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا

بھردواج کہتی ہیں کہ وہ غریب قیدیوں کے لیے، جو جیل کی آبادی کا بڑا حصہ ہیں، قانونی امداد کی شرمناک حالت پر بہت پریشان ہیں۔

’بہت سے قیدیوں کو اپنے قانونی وکیلوں کے نام یا فون نمبر اس وقت تک پتہ نہیں ہوتے جب تک وہ عدالت میں ان سے خود نہیں ملتے۔ جن وکیلوں کو کم پیسے دیے جاتے ہیں وہ اپنے مؤکلوں سے ملنے جیل بھی نہیں آتے۔ قیدیوں کو لگتا ہے کہ قانونی مدد کے لیے وکیل رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور بہت کم ہی نجی وکیل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے جیل میں ایک میٹنگ میں شرکت کے دوران تجویز پیش کی تھی کہ قانونی امداد دینے والے وکلا کو چاہیئے کہ وہ کم از کم تین ماہ میں ایک بار جیل آئیں، اپنے مؤکلوں سے ملیں اور انھیں مناسب ادائیگی بھی کی جانی چاہیئے۔

’جب آپ جیل جاتے ہیں تو آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جو آپ سے زیادہ بری حالت میں ہوتے ہیں۔ میرے پاس دکھی ہونے کا وقت نہیں تھا۔ مجھے بنیادی طور پر اپنی بیٹی سے علیحدگی کی وجہ سے برا لگا تھا۔‘

بھردواج کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنا وقت خواتین قیدیوں کے بچوں کے لیے گانے گاتے ہوئے، جیل کا کام کرتے ہوئے، اور ایڈورڈ سنوڈن، ولیم ڈیل ریمپل اور نومی کلین کی کتابوں سمیت ’بہت کچھ‘ پڑھتے ہوئے گذارا۔ وبائی مرض کے عروج پر انھیں جیل کی لائبریری میں البرٹ کامیو کی ’دی پلیگ‘ کی ایک کاپی بھی مل گئی تھی۔

لیکن ایک تجربہ جو وہ کبھی نہیں بھولیں گی وہ جیل میں یہ خبر سننا تھا کہ انڈیا مارچ 2020 میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے لاک ڈاؤن لگا رہا ہے۔

’اچانک جیل میں انتشار پھیل گیا۔ قیدیوں نے بھوک ہڑتال کر دی، ناشتہ اور دوپہر کا کھانا چھوڑ دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم یہاں مرنا نہیں چاہتے۔ چلو گھر چلیں اور وہیں مریں۔‘

انھیں اس وقت سکون آیا جب جیل سپرنٹنڈنٹ نے انھیں بتایا کہ جیل کے باہر بھی کوئی بھی وائرس سے محفوظ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی زندگیاں اور وجود کس قدر غیر یقینی یا نازک صورتِ حال میں تھے۔ ’میں نے قیدیوں کو اس سے زیادہ خوفزدہ اور رہائی کے خواہشمند کبھی نہیں دیکھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments