مری آفت زدہ یا نااہل زدہ


جنوری کو سانحہ مری میں 23 افراد کی موت نے پوری قوم کو ایک بار پھر دکھ میں مبتلا کر دیا۔ 23 معصوم لوگوں کی موت نے حکومت کے طرز حکمرانی اور اداروں کی کارگردگی کے پیمانے بھی کھل کر سامنے آ گئے۔ 5 جنوری کو محکمہ موسمیات کی جانب سے 6 اور 7 جنوری مری، گلیات، کاغان سوات دیگر پہاڑی علاقوں میں برفباری کی پیشین گوئی کردی گئی تھی افسوسناک واقعے سے 2 روز قبل ہی ہمارے وزیر اطلاعات فواد چوہدری مری میں ایک لاکھ گاڑیوں کی آمد پر خوشی اور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اور سیاحت کے فروغ کا یقین دلاتے ہوئے نظر آئے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا رونے والی عوام کو پیغام دیا۔ کہ کہاں ہے مہنگائی؟ اتنی تعداد میں سیروتفریح کے لیے آنے والے سیاحوں کی آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

نام نہاد سیاحت کی ترقی اور ملکی معیشت کی مضبوطی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہمارے بھولے بھالے وزرا کو شاید یہ نہیں معلوم کہ سیاحت کی ترقی صرف سوشل میڈیا پر خوبصورت قدرتی تصاویر ڈالنے یا ٹویٹر پر تعریفی لفظوں سے منسوب نہیں۔ اس کے لیے سیاحوں کی جان و مال کا تحفظ، انفراسٹرکچر اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی بھی ضروری ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کے پہنچنے پر اداروں اور ضلعی انتظامیہ کی تیاریاں تو بہت دور کی بات تھی۔

یہاں تو سیاحوں کی آمد کے حوالے سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں میں رابطے تک نہیں تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ مری کو 7 جنوری کی شام کو ہی بند کر دیا تھا۔ کاش مری کو پہلے ہی بند کر دیتے اس کے ساتھ ساتھ کے پی والا راستہ بند نہ کرنے کی کوتاہی کو بھی تسلیم کیا، مری میں اتنی بڑی تباہی ہونے پر ملک کے وزیر سوشل میڈیا پر برف کتنے فٹ ہے اور لوگوں کا قد کتنا ہے، پر بحث کرتے نظر آئے۔

اتنے بڑے سانحہ پر ملک کے وزیراعظم نے بھی عوام کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا۔ بے حسی، لاعلمی اور نا اہلی کے باعث پیش آنے والے سانحہ پر اتنی جانوں کے جانے کے بعد حکومتی وزرا کے خالی خولی ہمدردی کے بیانات اور امدادی کارروائیوں کی تفصیلات کی کیا اہمیت رہے جاتی ہے۔ جب برفانی طوفان میں پھنسے معصوم شہری ریسکیو، ضلعی انتظامیہ، حکومتی نمایندوں کو پکار رہے تھے۔ اس وقت لاکھوں کروڑوں روپے کے فنڈز لینے والے محکموں کے اہل کار اور ضلعی انتظامیہ غفلت کی نیند سور ہی تھی۔ وزیر اعلی پنجاب تو خیر پارٹی اجلاس میں مصروف تھے۔

فواد چوہدری نے فرمایا کہ سیاحت میں فروغ سے مراد یہ نہیں تھی کہ لوگ 48 گھنٹوں میں مری پہنچ جائیں۔ جناب فواد چوہدری صاحب آخر اتنی گاڑیاں مری میں داخل کیسے ہوئیں۔ کیوں ان کو مری انٹری پوائنٹ پر روکا نہیں گیا۔ مری سے ایم این اے صداقت علی عباسی قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ پرانی گاڑیوں میں لوگوں نے ہیٹر چلائے جس کے باعث اموات ہوئیں۔ آخر ان پرانی گاڑیوں کو جانے ہی کیوں دیا گیا۔ کیا عوام کے سامنے حکومت، ادارے، قانون سب بے بس تھے۔

ریلوے کی نا اہلی پر ریلوے کے حادثات، پولیس گردی واقعات میں بے گناہ نوجوان کی ہلاکت، یقیناً ان سب میں بھی عوام ہی ذمے دار ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ذمے داری بھی عوام پر ڈال دیں۔ ملک میں کتنی ہی مہنگائی کر دیں۔ تو بھی ہم عوام نے بھلا کیا کرنا ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو جتنے سبز باغ دکھا دیں۔ کتنے ہی وعدے کر لیں۔ بھلا عوام کو پوچھنے کا حق کس نے دیا ہے۔ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد پھر کون عوام اور کون سے وعدے۔ جب ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی ترجیحات عوام نہیں کرسی ہوتو تب اس کا خمیازہ یقیناً صرف عوام کو ہی بھگتنا ہوتا ہے۔

موجودہ حکومت اور آنے والی ہر حکومت سے عوام بس یہی مطالبہ کرتی ہے۔ کہ خدارا اس ملک کو صرف ایسی ریاست ہی بنا دیں۔ جہاں عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت یقینی ہو۔ غریب کو دو وقت کی روٹی میسر ہو۔ ہر قانون پر عملدرآمد ہو۔ اداروں کی نا اہلی پر مزید عوام کو اپنے پیاروں کو نہ کھونا پڑے۔ مزید کسی نا اہل لوگوں کی بے حسی کی بدولت ملک کے کسی بھی شہر کو آفت زدہ قرار نہ دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments