چھوٹے سے بڑے آدمی


دنیا ایک چلتی سرائے کہلاتی ہے اور اس چلتی سرائے میں کامیاب زندگی گزارنے والے محدود افراد ہی کامیابی کے خوشہ چیں ہیں۔ اس کامیابی کے لئے اہلیت یعنی میرٹ کی نہیں پیرٹ (طوطے ) بننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیرٹ بننے کے لئے ایک آدمی کے ضمیر کی نہیں کئی کئی نسلوں کی عزت نفس قربان کرنا پڑتی ہے اور ضمیر کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی ایسی ہی بہتیری کوششوں سے پیرٹ بنا جاتا ہے۔ ہر دور میں ہر طرح کے مفادات حاصل کرنے والے اس گروہ کو کامیاب گروپ کہا جاتا ہے۔ اس دائمی کامرانی کے لئے اس سدا بہار سرخرو جماعت کو بس ایک خاص قسم کی مشق سخن اور کچھ اسی قسم کی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ کچھ سیاست دان بھی کر کے بہت آگے پہنچ چکے ہیں!

یہ کامیاب گروپ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ یہ ہر چھوٹے سے بڑے آدمی سے لے کر بہت بڑے آدمی کے گرد پایا جاتا ہے۔ اس گروپ کا مقصد اس چھوٹے سے بڑے آدمی کے اندر غیر پوشیدہ صلاحیتوں اور کبھی نہ پائی جانے والی خوبیوں کا کچھ اس طرح سے ادراک کرانا ہوتا ہے کہ وہ آدمی بھی مان جائے کہ اس میں ناپید صلاحیتیں بھی اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں! انہی فضائل سے پھر اس بھولی بھالی عوام کو اس طرح روشناس کرانا کہ بیچاری عوام متحیر آنکھوں کے ساتھ ان اوصاف غائبانہ پر اندھا یقین کر لے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ موجودہ حکومت کے خصائص بتانے والے اینکر ہواؤں کا رخ بدلتا دیکھ کر وہ کچھ عرصہ پہلے کی نجات دہندہ جماعت کو اب جنات دہندہ اور تبدیلی کو آفت جاں قرار دے رہے ہیں!

یہ کامیاب گروپ کے لوگ کچھ ایسے مستقل مزاج لوگ ہوتے ہیں جنہیں آپ ڈھیٹ بھی کہہ لیں تو یہ فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ایسا کہا گیا۔ ان کا شکار (لیڈر) اگر جھوٹ بھی بولے اور اس کی بات عالمی سطح پر ثابت ہو جائے کہ واقعی جھوٹ ہی تھا تو یہ اس کا بھی دفاع بڑی شان اور دھڑلے سے کرتے ہیں اور جواب میں مونچھ کو تاؤ دے کر کہتے ہیں کہ ہمارے صاحب کا دروغ کوئی عام نہیں تھا بلکہ تاریخ تک کو جھٹلا گیا اور اس پہ مصداق کہ عالمی سطح پر ثابت بھی ہو گیا اسی سے ان کے سچا ہونے کا ثبوت ملتا ہے کہ ان کے جھوٹ کا پتہ ہر ایرے غیرے کو بھی چل جاتا ہے۔

جس شخص کے ساتھ لفظ لیڈر لگ جائے اس کے گرد یہ گروپ ایسے جمع ہوتا ہے جیسے آندھی میں شاپر یا بازار میں لگی لائٹ پر اڑنے والے کیڑے۔ ہر بڑے چھوٹے اور چھوٹے بڑے لیڈر کے گرد انہی کا گرداب ہوتا ہے۔ ایسا کب سے ہو رہا ہے اس کی تاریخ نہیں ملتی۔ اگر کوئی تاریخی لحاظ سے ثابت ہوتا ہے تو وہ یہ کہ جب سے انسان میں درجہ بندی شروع ہوئی یہ وجود میں آ گیا۔

پاکستان کی تاریخ پر ہی نظر ڈال لیں تو ہمیں یہی گروپ ہمیشہ سے کامیاب ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ اپنے شکار کے گرد ایسا حصار قائم کرتے ہیں کہ رابطہ نہ تو عوام سے ہو پاتا ہے اور نہ ہی عوام کا اس سے۔ حقیقت چھپانا اور جھوٹ پھیلانا اس کا پہلا اور آخری اصول ہوتا ہے۔ یہ کوے کو سفید اور رات کو دن ثابت کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ آج کل لیڈر بھی انہی کو عہدے دیتے ہیں جو حد سے بڑھ کر چاپلوس ہوتے ہیں۔ لیڈر ننگا ہو تو یہ اسے تھری پیس میں ملبوس دکھاتے ہیں۔

لیڈر شرابی کبابی ہو تو یہ اس کی مکہ مدینہ کی تصاویر میڈیا پر دکھاتے ہیں۔ یہ ہر اس حکمران کو بھی نجات دہندہ قرار دے رہے ہوتے ہیں اور اس کی حکومت کے گن گا رہے ہیں جس نے عوام کا کچومر نکال دیا ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ نہ گھبرانے کا مشورہ دیتے ہیں حالانکہ عوام بہت گھبرا چکی ہوتی ہے۔ یہ کسی کو چھوڑتے نہیں بلکہ پارٹی بدل لیتے ہیں۔ یہ ایک ہی پارٹی سے کئی بار نکلتے ہیں اور جونہی اس کی حکومت بننا ہوتی ہے اس میں شامل کر دیے جاتے ہیں۔

اور یوں اسے اس کے انجام تک پہنچا کر دوسرے کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ 1947 سے یہ لوگ وزارتوں سے اور حکمرانی سے محظوظ ہوتے آ رہے ہیں۔ شاید اس سے بھی پہلے انگریز کے دور میں انہیں ان کی ایسی ہی خوبیوں اور فضائل کی بنیاد پر زمینیں جائیدادیں اور مراعات ملی تھیں۔ اب جو بھی حکومت کرنا چاہتا ہے وہ ان کے ساتھ مل کے ہی پانچ سال پورے کر سکتا ہے اور جو یہ گھمنڈ کر بیٹھے کہ وہ تو خود بڑا لیڈر ہے تو یہ گروپ اس کی ایسی کی ایسی تیسی کرتا ہے کہ کبھی وہ جیل میں اور کبھی ملک سے فرار کا راستہ ڈھونڈتا ہے۔

یہ کامیاب گروپ بھی کبھی کبھی ملک سے باہر چلا جاتا ہے مگر صرف اچھا وقت گزارنے کے لئے اور اپنے دوسرے ہم پیالہ و ہم نوالہ کو باری دینے کے لئے۔

یہ گروہ در اصل بہت بڑا نجومی گروپ ہوتا ہے اسے حکومت کے بدلنے کی جیسے بو آ جاتی ہے اور یہ اس وقت تک سب اچھا کہتا رہتا ہے جب تک اس کا داؤ چلتا رہے اور جیسے ہی اس حکومت کے تبدیل ہونے کے آثار نمودار ہوں یا اسے ہٹانے کا عندیہ ملے تو یہ اسی اپنی حکومت کو بد ترین ثابت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہی باتیں جو وہ اپنے شکار کے اوصاف بنا کر بیان کرتے تھے اب انہی کو ضد اور انا اور غلطی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس پر غیر سمجھدار ہونے کا لیبل لگا کر خود پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں جس کے دوسرے کنارے پر دوسرا شکار ان کے انتظار میں کھڑا کیا جاتا ہے کہ یہ اس سے مل کر پھر عوام کو پھر بے وقوف بنانے میں لگ جائیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments