ایڈیٹ کلاس اور مری سانحہ


قدیم یونان میں انتظامی افسران، وزراء، سرکاری لوگوں کی تین کیٹیگری ہوا کرتی تھی۔ پہلا طبقہ idiots ایڈیٹ تھا، دوسرا ٹرائبل tribals، تیسرا سول سٹیزن civil citizens عام طبقہ کہلاتا تھا۔ قدیم یونان میں ایڈیٹ اس شخص کو کہا جاتا تھا جو سماجی اور معاشرتی بہتری میں اپنا حصہ نہیں ڈالتا تھا۔ ایڈیٹ idiots بغیر سفارش اور رشوت کے کام کرنے کو اپنی توہین سمجھتا تھا۔ دوسرا ٹرائبل tribals وہ طبقہ تھا جو اپنے قوم قبیلے جان پہچان والے افراد کا کام کرتے تھے باقی لوگوں کو دیکھتے تک نہیں تھے۔

تیسرا عام طبقہ سول سٹیزن تھا جو برابری کی بنیاد پر شہریوں کے کام کرتے تھے اور بغیر کسی سفارش رشوت کے لوگوں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ مری واقعہ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ مری واقعہ کے بعد اب پتا چلا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ ہے وہ ہے ایڈیٹ! جو بغیر سفارش، رشوت کے اپنا کوئی کام نہیں کرتا۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے، سفارش ہے تو آپ کا کام ہو جائے گا۔ یہاں آپ کو تمام اداروں میں بڑے سے بڑے افسران، چھوٹے سے چھوٹے ملازم، کسی بھی محکمہ کے انچارج سمیت چپڑاسی تک آپ کو ایڈیٹ ملیں گے۔ جو کام کرنے کے پیسے لیتے ہیں اور اگر پیسا نکل جائے تو یہ آپ کو آفس میں دیکھتے ہوئے بھی نہیں نظر آئیں گے۔ پاکستان میں ایڈیٹ کی کلاس سب پر حاوی ہو چکی ہے۔ اس ایڈیٹ کلاس نے ملک کی جڑیں مضبوط کرنے کے بجائے دیمک کی طرح کھا کر کھوکھلا کردی ہیں۔ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ تمام مسائل صرف سندھ میں ہیں۔ اور سندھ حکومت کو ہی برا بھلا کہتے تھے۔ مگر اب تو یہاں ملک کا پورا سسٹم ہی تباہ ہو گیا ہے۔ تمام ادارے بیٹھ گئے ہیں۔

ہمارے سسٹم میں قدیم یونان کی فرسٹ کلاس ایڈیٹ نے اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ مری میں برفباری کیا ہوئی! ہر چیز کمرشلائیز ہو گئی 23 انسان معصوم بچوں خواتین سمیت برفباری میں بے یارو مددگار موت کے منہ میں چلے گئے۔ مری جہاں پورا سال ملک بھر کے لوگ گھومنے جاتے ہیں۔ خاص طور پر سردیوں کی موسم میں اور جب برفباری ہوتی ہے تو اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں سے لاکھوں افراد نکل جاتے ہیں۔ اسلام آباد سے پونے گھنٹے کی گاڑی کی ڈرائیو کے باوجود مری کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ مری کے لوگ اتنے بدتمیز اور پتھر دل ہیں کہ وہ صرف پیسے کو دیکھتے ہیں اور فیملی تک کہ ساتھ بدتمیزی کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا جہاں سیاحت کو فروغ دینے کا نعرہ لگایا تھا وہیں پر سیاحوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ تاریخ کا اب حصہ بن چکا ہے۔ جہاں موسم خراب ہونے کی وجہ سے ایک رات کا کمرے کا کرایہ 5 ہزار روپے سے 50 ہزار تک وصول کیا گیا۔ 20 روپے والا انڈا 500 روپے تک بیچا گیا۔

ہیٹر کے ایک گھنٹے کا ایک ہزار روپیہ لیا گیا۔ کیا مہذب معاشرے میں اس طرح ہوتا ہے۔ کیا کلمہ گو مسلمان اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کر سکتے ہیں۔ مری میں جہاں ہوٹلز مالکان نے لوٹ بازار قائم کی ہوئی تھی وہیں پر سرکار نے بھی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو گاڑیوں میں ہی مرنے پر مجبور کر دیا۔ مری سمیت ملک بھر میں ہر چیز کمرشلائیز ہو گئی ہے۔ ہمارے جذبات، احساسات، ہمدردی انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کمرشلائیز ہو چکی ہے۔

مری میں جو کچھ ہوا اس پر مزید بحث کرنے کی ضرورت نہیں البتہ اتنا ہوا ہے کہ 74 سا گزرنے کے باوجود ہم ایک قوم پاکستانی بن نہ سکے ہیں۔ ہمارے ہاں عصبیت، قومیت، ٹرائبل ازم، لسانیت، فرقہ واریت کی نفرت نے جگہ لے لی ہے۔ مری میں جہاں انتظامیہ سرکار کی نا اہلی ظاہر ہوئی ہے، وہیں پر ریاست کا اصل چہرہ بھی سامنے آ چکا ہے۔

اب پاکستان کے تین ستون کہاں کھڑے ہیں؟ ان کی کیا حیثیت ہے؟ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون و آئیں کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کی جڑیں مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہو رہی ہیں۔ اور ہم اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے تسلی دے رہے ہیں کہ ہم عظیم قوم ہیں! پاکستان اس وقت قدرت کی مہربانی معجزہ پر قائم و دائم ہے۔ ہم نے اس وطن عزیز کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا محکمہ ہو یا صحت کا، انجنیئرنگ کا شعبہ ہو یا زراعت کا۔

معیشت ہوں یا کوئی بھی محکمہ آپ کو صرف نام کا نظر آئے گا۔ عدالتی سسٹم دفن کرنے کے لائق ہے۔ عدالت میں جانے سے بہتر ہے کہ آپ نقصان اٹھا کر صبر برداشت کریں لیکن عدالت نہی جائیں ورنہ آپ کی رہی سہی کسر پوری ہو جائے گی۔ قانون و آئین کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے پورا سسٹم تباہ ہو گیا ہے۔ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی مثال ہے۔ جو طاقتور ہے وہ سب پر حاوی ہے۔ جو شریف انسان ہے کمزور ہے، قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہ رہا ہے اسے کوئی پوچھتا تک نہیں ہے۔

بلکہ وہ عذاب میں مبتلا ہے۔ لوگ مری برفباری واقعہ میں 23 انسانی جانوں کے ضیاع پر ماتم کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں سسٹم کی بگاڑ کی وجہ سے ہر جگہ پر مری جیسے بے رحم مردہ دل پتھر دل لوگ موجود ہیں۔ جو اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آج کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں تک معصوم بچے بھی غیر محفوظ ہیں۔ یہاں پر جہاں خواتین جنسی زیادتی تشدد کے شکار ہو رہی ہیں وہیں پر معصوم بچے بھی جنسی زیادتی تشدد قتل و غارت گری کا شکار ہو رہے ہیں۔

یہاں کوئی بھی حکمران ہوں۔ جج صاحبان ہوں یا جرنیل، سیاستدان ہوں یا کوئی بڑا ٹائیکون رٹائرڈ ہونے کے بعد یا پیسا بنانے کے بعد اپنے بچوں تک کو باہر منتقل کر دیتے ہیں اور خود بھی چلے جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک ان کے بچوں کے لئے محفوظ نہی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے ہم ایڈیٹ idiot کلاس سے نکل کر وطن عزیز کی ترقی خوشحالی کے لئے کام کریں۔ آئین و قانون کی بالادستی قائم ہونی چاہیے۔ رشوت، سفارش کلچر کو جوتی کی نوک سے روندتے ہوئے آگے بڑھیں۔

سب کے لئے برابر کی بنیاد پر احتساب ہونا چاہیے۔ قانون سے بالاتر کوئی نہی ہونا چاہیے۔ جو کوئی بھی ملک و قوم کے مفاد کے خلاف کام کرے اسے سزا ملنی چاہیے۔ مجھے امید ہے اگر ہم ابھی اپنے آپ کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو دنیا ہمارے قدموں میں ہوگی ورنہ ہماری قوم ملک دنیا کے قدموں میں ہو گا اور ساری زندگی ہم دنیا کے پیچھے چلتے ہوئے وقار، عزت، کھودیں گے۔ آج دنیا بھر میں جو ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ امید ہے کہ آنے والے مستقبل میں پاکستان میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہوگی ہم ایڈیٹ idiots کلاس سے نکل کر آگے کی طرف بڑھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments