کتاب دوستاں—حساب دوستاں


دوستوں اور دوستیوں کے بھی بڑے حساب اور اُدھار ہوتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں زندگی کے سفر میں ان ادھاروں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح نمٹنا ہی پڑتا ہے۔
شمیم عالم صدیقی سابق ڈائیر یکٹر آرٹس کونسل کراچی بھی میرے ایسے ہی دوستوں میں سے ایک ہیں۔ میری ان کی دوستی چار دہائیوں سےزیادہ کے سفر پر مشتمل ہے۔ جس کا آغاز تو زمانہ صحافت کے دور بے روز گزاری میں ہوا تھا یہ الگ بات ہے کہ دوستی کا یہ سفر براستہ شمیم بیوی، بیٹوں، بہوؤں سے ہوتا ہوا اب پوتے پوتیوں تک آ پہنچا ہے۔
جب شمیم عالم مقیم کراچی تھے تو روزانہ کی بنیاد پر ان سے خیر خیریت کا تبادلہ ہوتا تھا۔ جب سے بدیسی ہوۓ ہیں دورانیہ تھوڑا بڑھ گیا ہے لیکن دنیا کے کسی کونے میں ہوں ہفتہ دس دن میں ایک دوسرے کی خیر خبر ضرور لیتے ہیں۔ بقول صو فیہ اگر دس بارہ دن گزر جائیں اور تمہارا کوئی تزکرہ نہ ہوتو میں شمیم سے کہتی ہوں “ ارے شہناز کی خبر تو لو کیسی ہے؟”
وقت کی چال اور رفتار دیکھتے ہوۓ میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں کہ میرے پاس دوستوں کا ایسا خزانہ ہے جس کی میں گنتی تو نہیں بتا سکتی لیکن احساس تشکر سے ہمیشہ لبریز رہتی ہوں۔
چند سال قبل شمیم کو بھی بوجہ خاندانی دباؤ اور ضروریات کے پاکستان کو خیر باد کہنا پڑا۔ وقت کی سنگینی کو دیکھتے ہوۓ وہ چلے تو گۓ لیکن ذہنی طور پر پاکستان ہی میں جیتے رہے ویسے بھی ذرا سوچیں سات دہائیوں سے زیادہ کی عمر کسی جگہ گزارنے کے بعد نقل مکانی کتنا بھاری پڑتا ہے۔
ہم سب انھیں اس ہجرت وطن کے اچھے اچھے پھل پھول دکھاتے رہے ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے اور مختلف مشوروں سے نوازتے رہے۔ ان روتے بلبلاتے سالوں میں انھوں نے جو چند اچھی باتیں کریں۔ ان میں سے قرآن کی تفسیر پڑھنا اور پھر شاعری کرنے سے لے کر کتاب لکھنے تک آجانا ہے۔
شاعری کے بارے میں میں کوئی بات نہیں کروں گی کیوں کہ میں شاعری کے اسرار اور رموز سے واقف نہیں۔ البتہ اچھے شعراور شاعری کا ذوق رکھتی ہوں لیکن اپنی پسند کی بنیاد پر کسی کے بھی کہے شعروں کا قد نہیں ناپ سکتی۔
بات حساب دوستاں سے شروع ہوئی تھی جس میں کتاب دوستاں کا ذکر کرنا تھا لیکن بڑھتے بڑھتے کہاں تک پہنچ گئی۔
یوں تو کسی بھی مہذہب ملک میں کتاب لکھنا پڑھنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں کتب فروشی کی دکانوں میں جوتے، کپڑے اور برگر بکنے لگیں کتاب لکھنے کی جسارت کرنا بہت بڑی بات ہے۔
شمیم کی کتاب “قصہ نصف صدی کا” دراصل ان کی عملی زندگی کے مختلف ادوار کی ادھیڑ بن کا قصہ ہے۔ جس میں انھوں نے اپنے بچپن، نوعمری، نوجوانی، جوانی، ادھیڑ عمری اور موجودہ عمر کے واقعات، حادثات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں تو کسی بھی فرد کے لئے گزری زندگی کو لفظوں میں سمیٹنا اور بیان کرنا آسان کام نہیں خاص طور پر شمیم جیسے فرد کے لئے جو بنیادی طور پر ایک شریف النفس اور منکسر المزاج انسان ہیں جو غصے کی شدت سے کانپ تو سکتے ہیں لیکن گالی نہیں دے سکتے۔ فی زمانہ کسی کا بہت زیادہ شریف ہونا بھی اس کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ لوگ اس کی شرافت کو اس کی کمزوری سمجھنے لگتے ہیں۔ گزرے برسوں میں شمیم بہت بار اس پل صراط سے گزرے ہیں۔
اپنی زندگی کی کہانی لکھتے ہوۓ انھوں نے بیشتر مقامات پر بہت سچائی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ واقعات کو بیان کیا ہے۔ جیسے بچپن کے دنوں میں اپنے جیب اخراجات کے لئے “قلفیاں بیچنا” اور اس کو انجواۓ کرنا گو کہ یہ۔ قیام پاکستان کے بعد آنے والے مڈل کلاس گھر گھر کی کہانی ہے۔ جس میں بچوں نے چھوٹے چھوٹے کام کرکے اپنےاخراجات پورے کئے یا گھروں کو سپورٹ کیا۔
اسی طرح ایک ایس پی کے تبادلے کی صورت میں اسکول اور کلاس میں آنے والی اس کی بیٹی کے سبب جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس کو بھی من و عن بیان کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ اس عمر کا خاصہ اور تقاضہ ہے۔ آمد پاکستان کے بعد ان کے والد کو ایک ایسے محکمے میں ملازمت ملی تھی جس کا عمل دخل اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں تھا۔ اس سبب ان کی نوجوانی کا خاصہ وقت سندھ کے مختلف علاقوں میں گزرا۔ البتہ بی اے کا کاغذ پکڑنے کے بعد انھوں نےبھی شہر کراچی کا رخ کیا اور محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گۓ۔ چند سالوں بعد صحافت میں قدم رنجہ فرمایا لیکن زیادہ دن مسند صحافت پر براجمان نہ رہ سکے۔ حکمران بدلے، طرز حکومت بدلا اور بہت کچھ بدلتا چلا گیا۔ اخبارات و رسائیل کی سانسیں بند ہوئیں اس دور میں صحافت نے اپنی بقا کی بہت طویل جدوجہد کی۔ بے روزگاری کے اس طویل دورانیہ میں لوگوں نے ادھر ادھرُ نقل مکانی کی اور کچھ نے پیشے بدلے، بدلا بدلی کے اس موسم میں شمیم کو زندگی کاایک بہت ہی شاندار ساتھی بنام صوفیہ مل گیا۔

بےروزگاری شانہ با شانہ چلتی رہی ،زندگی میں آمدورفت کا سلسلہ چلتا رہا اور اسی چلم چلا میں شمیم آرٹس کونسل پہنچ گۓ۔ یہاں انھوں نے کئی مناصب پے کام کیا اور ایک طویل عرصے تک ڈائیر یکٹر رہنے کے بعد رئٹائیرڈ ہوگۓ۔ مجموعی طور پر انھوں نے زندگی کے 34 سال آرٹس کونسل کے کمروں، برآمدوں، چھتوں تلے گزارے لیکن عجیب بات ہے کہ 34 سالوں کے قصے کہانیوں، کرداروں کو انھوں نے اپنی حیات کی کہانی لکھتے ہوۓ صرف اٹھارہ صحفوں میں سمیٹ دیا۔ جب کہ اگر وہ لکھنے لگتے تو ان 34 سالوں کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں اور سینکڑوں نہیں تو کم از کم34 قصے لکھے سکتے تھے۔ چھوٹے قدوں کے بڑے ساۓ اور بڑے قدوں کے چھوٹے ساۓ، لوگوں کے ظاہر اور باطن اور کی کہانیاں، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
پھر بھی نہ جانے کیوں گزشتہ ہفتے جب ان کی کتاب “ نصف صدی کا قصہ “ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی تو اہل آرٹس کونسل نے اتنا سیف کھیلا کہ پانچ ہزار سے زائد ممبران اور درجنوں کمیٹیوں پر مشتمل گورننگ باڈی کا کوئی فرد نظر نہ آیا۔ پتہ نہیں لوگ اتنے کمزور کیوں ہوتے ہیں۔
جمی انجنیئر کا بنایا ہوا کتاب کا سر ورق اور کتاب کا کاغذ دونوں بہت عمدہ ہیں۔ کتابت کی غلطیاں ہیں جن سے اچھی پروف ریڈ نگ کی صورت میں بچا جا سکتا تھا۔ صاحب کتاب کی اس کوتاہی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ اب ان کی حثیت اس شہر میں مہمان کی سی ہے۔
شمیم کے نصف صدی کے قصے کو پڑھنے کے بعد میں نے سوچا ہے کہ ہم سب کو اپنی زندگیوں کی کہانی ضرور لکھنی چاہئے خاص طور پر ان سب کو جنھوں نے عوامی معاملات والی ملازمتیں کی ہوں اور طرح طرح کے لوگوں کو برتا ہو۔
ہم میں سے اکثریت قیام پاکستان کے بعد آنے والے ان خاندانوں کی پہلی نسل ہیں جو لٹ پٹ کر آۓ تھے۔ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اس نسل نے بھی بہت کچھ برداشت کیا ہے۔اپنی معصوم خواہشات کی قربانی دے کر والدین کی جدوجہد کا حصہ بنے ہیں۔ بسوں ،ٹراموں میں سفر کیا ہے، میلوں پیدل چلے ہیں، پیلی دیواروں والے اسکولوں میں نیلی فراک اور خاکی پینٹ پہنی ہے۔ ان کے بچپن گاڑیوں ا نگلش میڈم اسکولوں اوربرانڈڈ کپڑوں کھانوں والے نہیں تھے۔ نسلوں کی خود آگاہی کے لئے اپنی زندگیوں کی کہانی لکھنا اور بتانا ایک اچھا اقدام ہے۔
شمیم کے نصف صدی کا یہ قصہ بلا شبہ ادب اور علمیت کا شاہکار نہیں ہے یہ ان کی زندگی کے حقائق کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر آنے جانے والا اپنا عکس دیکھ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments