زبانوں کے خاندان اور نام : توروالی زبان و لوگ


جس طرح حیاتیات میں حیوانات اور نباتات کو چند مشترک خصوصیات میں یکسانیت کی بنا پر مختلف خاندانوں مثلاً فقاریہ، غیر فقاریہ، پھلدار، غیر پھلدار وغیرہ میں تقسیم کیا گیا ہے اسی طرح اب تک دنیا کے 7139 معلوم زبانوں کو 13 یا 14 بڑے خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تاہم حیاتیات کے برعکس زبانوں کی تقسیم متنازعہ رہی ہے۔ اسی طرح کئی زبانیں ایسی ہیں جن کو کسی خاندان میں شامل نہیں کیا جا سکا۔ ایسی بالکل منفرد زبانوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ پاکستان میں ایسی منفرد و یکتا واحد زبان ہنزہ میں بولی جانے والی زبان ”بروشسکی“ ہے۔ اس تقسیم کے بعد ان بڑے خاندانوں کو ذیلی شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی تعداد سینکڑوں میں بنتی ہے۔

زبانوں کی اس طرح تقسیم زبانوں کے جنیاتی، ساختی، لغوی اور عمومی خصوصیات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ماہرین لسانیات زبانوں کی اس گروہ بندی میں ہمیشہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔ کسی نے ایک زبان کو ایک گروہ میں ڈالا ہے تو کسی اور نے اس کو کسی اور گروہ میں ڈالا ہے۔ جنوبی ایشیا کی زبانوں میں اس کی بڑی مثال سابق ”کافری“ زبانیں ہیں جن کو متحدہ ہندوستان/انڈیا کی زبانوں پر کام کرنے والے پہلے عالم جارج گرئیرسن  نے ہند آریائی زبانوں کے ذیلی شاخ ”داردی“ میں ڈالا۔ تاہم دوسرے عالموں جیسے مورگن سٹئیرن اور رچرڈ سٹرینڈ نے ان کافری زبانوں کو الگ گروہ میں شمار کیا اور ان کو نوردستانی نام دیا جسے ہندآریائی اور ایرانی زبانوں کے بیچ دوسرا گروہ خیال کیا گیا۔

زبانوں کے ان بڑے خاندانوں میں ایک اہم خاندان ہندیورپی  زبانوں کا ہے۔ جس کی کئی ذیلی شاخیں بنی ہیں۔ اس کی ایک اہم شاخ ہندایرانی زبانیں ہیں۔ جس کا ایک ذیلی گروہ ہندآریائی زبانوں پر مشتمل ہے۔ یہی وہ گروہ ہے جس سے برصغیر کی زیادہ تر زبانیں تعلق رکھتی ہیں۔ اسی گروہ کی ذیلی شاخ ”داردی“ زبانوں کا ہے۔ کئی ماہرین اگرچہ ”داردی“ کو زبانوں کی شاخ ماننے میں ہچکچاتے ہیں اور اس کی جگہ ”ہندوکش قراقرم کی زبانیں“ جیسے اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تاہم اس خطے کی زبانوں کے ماہرین داردی کا لفظ ان زبانوں کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔

داردی اصل میں لسانی کے ساتھ نسلی و ثقافتی نسبت بھی ہے اس لئے ان ماہرین کو اسے لسانی گروہ کہنے میں تردد ہوتا ہے۔ زبانوں کے حساب سے پھر ان ماہرین نے داردی گروہ کو ذیلی گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان گروہوں کے نام انہوں نے پشائی، کشمیری، شینا، چترال، کونڑ اور کوہستانی رکھ دیے۔ ان داردی زبانوں میں بڑے گروپ کشمیری، شینا اور پشائی ہیں۔ جبکہ چترال گروہ میں کھوار اور کلاشہ زبانیں شامل ہیں۔ کونڑ گروہ میں دمیلی، گوارباتی وغیرہ شامل ہیں جبکہ کوہستانی گروہ میں گاؤری، توروالی، مایو (انڈس کوہستانی) اور بٹیڑی رہ جاتی ہیں۔ کوہستانی گروہ کی دوسری زبانیں تقریباً معدوم ہو چکی ہیں۔

اسی سال ایک نئی لسانی موازناتی تحقیق کے مطابق یہ گروہ بندی کافی حد تک تہس نہس ہو چکی ہے کیوں کہ اس تحقیق کی رو سے توروالی اور گاؤری لغوی لحاظ سے شینا زبان سے زیادہ قربت رکھتی ہیں۔ البتہ یہاں لسانیات کے کچھ کارکن اس پر مصر ہیں کہ ان سب زبانوں کو ”کوہستانی“ کہا جائے۔ ایک ادھ بار تو اس سے بھی اگے بڑھ کر یہ بھی کہا گیا کہ خطہ ہندوکش میں بولی جانی والی ان زبانوں کے بولنے والے سب اپنے لئے ”ہندکوان“ کا نام استعمال کرے۔ اسی طرح کی کوششیں شاید اس صوبے میں دو زبانوں کے بیچ سیاسی مسابقت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے!

توروال، توروالی کیوں؟

ہمارے ہاں چند لوگوں کا اصرار ہے کہ ہماری زبان ”توروالی“ کو توروالی کوہستانی لکھا جائے۔ اس دلیل کی بنیاد دو باتوں پر رکھی جاتی ہے۔ ایک لسانی اور دوسرا علاقائی۔ لسانی گروہ بندی کی بدولت وہ چاہتے ہیں کہ زبان کا نام اس کے ذیلی لسانی خاندان ”کوہستانی“ کے ساتھ ہو۔ یعنی توروالی کوہستانی۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو یہاں کیوں روکا جائے کیوں نا اپنی زبان کا نام ”توروالی۔ کوہستانی۔ داردی۔ ہندآریائی۔ ہند ایرانی۔ ہندیورپی“ لکھا اور کہا جائے! کیا اس طرح مناسب لگے گا؟

یا پھر یوں لکھا جائے : توروالی بنت کوہستانی بنت داردی بنت ہندآریائی بنت ہند ایرانی بنت ہند یورپی ”! دوسری دلیل یہ ہے کہ چونکہ یہ لوگ خود کو بھی، اور ان کے بڑے پڑوسی پشتون ان کو“ کوہستانی ”کہتے ہیں اس لئے اس زبان کا نام“ توروالی کوہستانی ”ہونا چاہے! اگر صرف لوگوں کو خود کو کوہستانی کہنے کی وجہ سے ایسا ہونا چاہے تو پھر صرف“ کوہستانی ”ہی کیوں نہیں ہو؟ پہلی دلیل کو اگر مان لیا جائے تو پھر اردو کا نام“ اردو ہندآریائی ”ہونا چاہے، سندھی کا نام“ سندھی آریائی ”ہونا چاہے، پشتو کا نام“ پشتو ایرانی ”ہونا چاہے!

دوسری دلیل کہ یہ لوگ اب خود کو کوہستانی کہتے ہیں لہذا یہ لفظ کوہستانی بھی لازمی ہے۔ پہلے تو یہ سوچنا ہے کہ لوگ خود کو کوہستانی کیوں کہتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ لوگ کسی زبان کو اپنے نام کے ساتھ نہ لکھیں۔ پھر دوسری سانس میں کہا جاتا ہے کہ لوگ کوہستانی لکھیں جو کہ زبان کا نام بھی ہے اور علاقے کا نام بھی۔ زبردست! مگر کبھی سوچا ہے کہ ”توروال“ بھی ایک پورے علاقے کا نام تھا اور ہے اور توروالی لوگوں کا نام تھا!

لفظ ”توروالی“ توروال سے ایسا ہی بنتا ہے جیسے کہ پنجاب سے پنجابی اور پاکستان سے پاکستانی۔ ایک جانب یہ لوگوں کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری جانب زبان کو نام دیتا ہے۔ توروالی لفظ ”توآلوش“ اور ”توالی“ دونوں الفاظ کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہے۔ توآلوش مطلب توآل کا رہنے والا (توروالی) اور توآلی کا مطلب ہے توروالی۔ یوں توروالی لوگوں کی اجتماعی شناخت بھی ہے اور ان کی زبان کا نام بھی۔ توروال جو تیرات اور پیا سے اوپر کا پورا علاقہ ہوتا تھا اب سکڑ کر ایک گاؤں کا نام رہ چکا ہے۔

شکر ہے کہ اس گاؤں کا نام اب بھی ”توال/توروال“ موجود ہے جبکہ دوسری جانب ”کوہستان“ نام کی کوئی ایسی مقامی نشانی نہیں ملتی۔ توروالی زبان میں کوہ/پہاڑ کو ”کھان“ کہتے ہیں اور لفظ ”کوہستان“ سرے سے توروالی کا ہے ہی نہیں۔ توال کے نام سے ایک گاؤں اب بھی تو موجود ہے۔ ان تاریخی شواہد اور موجودہ اثار کے باوجود یہ اصرار کہ توروالی لفظ غیر لوگوں نے دیا ہے جبکہ کوہستانی اپنا لفظ ہے حیران کن لگتا ہے۔ غیر سے اگر ان کی مراد ”گؤ/گاؤری“ بھائی ہیں تو یہ حیرت اور زیادہ ہوجاتی ہے کہ گاؤری اور توروالی دارادی اقوام میں ایک دوسرے سے زیادہ قربت رکھتے ہیں اور لگتا ہے کہ سوات اور دیر میں ماضی قریب میں ایک جد امجد سے ان کا تعلق ہے۔ جبکہ انڈس کوہستان میں سیؤ وادی میں جن ”توروالیوں“ کی نشاندہی فریڈیریک بارتھ  نے کی ہے وہ توروالی وہاں دہقان ہوا کرتے تھے اور ان کا جنگلات میں یا شاملات میں کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا۔ مطلب ان کو مقامی نہیں مانا جاتا!

پشتو زبان اور پشتونوں پر تحقیق کرنے والے بڑے عالم میجر ریورٹی  نے اپنی ایک کتاب (Notes on Afghanistan and Baluchistan) میں لکھا ہے کہ توروال ان سیاہ پوش کافروں کا پشتو نام ہے یعنی ”سیاہ لوگوں کی اولاد“ ۔ پورا داردستان (ہندوکش، قراقرم اور مغربی ہمالیہ کی ساری وادیاں ) سولہویں صدی سے پہلے غیر مسلم تھا اور یہاں کے لوگ دنیا کے کسی بڑے مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کے اپنے مذہبی عقائد تھے جن کے اثرات موجودہ کالاش لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔

ان عقائد میں پریوں، دیوتاؤں، بد پریوں، چڑیلوں، دیویوں، (بعد میں یہی دیویاں چڑیل (ڙوئیں اوربیلا بن گئیں ) پہاڑی جانوروں، وادیوں، جھیلوں، پہاڑی چوٹیوں اور چراگاہوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ ہر وادی، پہاڑ، جھیل اور چراگاہ کی اپنی دیوی یا دیوتا ہوتا تھا۔ اب بھی ہماری کوئی لوک کہانی ان چڑیلوں اور پریوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ چونکہ یہ عقائد بڑے الہامی مذاہب سے مختلف تھے اسی وجہ سے داردستان کے لوگوں کو وسطی ایشیائی مسلمان محققین اور حملہ آوروں نے ”کافر“ کہا اور اس خطے کو ”کافرستان“ کا نام بھی دیا۔

یہاں کے رہنے والے جہاں سفید لباس پہنتے تو ان کو ”سفید پوش کافر“ کہا اور جہاں سیاہ لباس پہنا تو ان کو ”سیاہ پوش کافر“ کہا۔ میجر ریورٹی کی دلیل درست نہیں کہ لفظ توروالی سیاہ پوش کا پشتو ترجمہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو دریائے پنجکوڑہ (موجودہ دیر کوہستان) کے لوگوں کو بھی توروال کہنا چاہے تھا کیوں کہ وہ بھی سیاہ پوش کافر ہی تھے۔ دوسری بات یہ کہ میجر ریورٹی اپنی کتاب میں سیفد پوش اور سیاہ پوش دونوں کا ذکر کرتا ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیاہ پوش توروال ہو گئے تو ان سفیدپوش کافروں کا کیا ہوا؟

دوسری اہم بات یہ ہے کہ توآل /توروال کے طرز پر اس علاقے میں کئی نام اب بھی موجود ہیں۔ جیسے اولال، ساتال، ترال، درال، گورنال، شینال، مینکھال، بڈال، ڙال، زارینال، پشمال، گبرال یا پھر دیریل، کمل، ݜنیل وغیرہ۔ اگر توآل پشتو کے ”توروال“ (یعنی سیاہ لوگوں کی اولاد) سے ہے تو یہ دوسرے نام اس طرح کیوں پڑے! اریل سٹئین  اور ڈاکٹر ذوئیسپی توچی بدھ مت ”پیشوا پدماسمباوا“ کی جائے پیدائش کے حوالے سے جھیلوں میں ایک جھیل ”ڈھاناکوشا“ کا ذکر کرتے ہیں اور سے درال دریا کے آخر میں (درال ڈھان/ڈنڈ) بتاتے ہیں۔

اسی طرح ایک داردی دیوی ”دارا“ کا ذکر کیا جاتا ہے اور جس کو بحرین میں مغرب کی جانب سے اترتے ہوئے ”درال“ دریا کی دیوی کہا گیا ہے۔ سوات میں چھٹی صدی میں آنے والے چینی زائرین ایک عام کہانی کا ذکرتے ہے۔ اس کہانی کی رو سے کہا جاتا ہے کہ سواستو/دریائے سوات کے آخر گبرال میں کوئی دیوی ہوتی ہے۔ جب وہ لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے ناراض ہوجاتی ہے تو الٹی کر دیتی ہے جس سے دریائے سوات میں سیلاب آ جاتا ہے جو سب کچھ برباد کرجاتا ہے۔ ان شواہد اور اس داردی ”چراگاہی عقیدے“ (pastoral ideology) کی بنا پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہاں ہر وادی کی کوئی دیوی یا دیوتا ہوتا تھا اور ان کے اوپر بڑی دیوی یا دیوتا ”توال“ ہوا کرتا تھا جبکہ ساتھ قہاری دیوی گبرال ہوتی تھی!

ہمارے ماضی کے اجتماعی حافظے کے خاتمے کی وجہ سے ہمیں صرف وہ یاد رہتا ہے جو حالیہ ہو اور جسے بالادست لوگوں نے دیا ہو۔ ورنہ توآل/توروال تو ہماری روایات میں اب بھی زندہ ہے۔ مثلاً اس 80 سال سے زیادہ پرانے توروالی لوک اشعار ملاحظہ ہو:

دو زر توال ہوئی شید ایگی سیدو سی باچا
تھامو جان چھی دھیرینا وا نی ہیئی پناہ

ایک دوسرے شعر میں توروال کا ذکر اس طرح کیا گیا:
توال بوڑ ہو شید، ماشو آ کھا بوئی انگولا
مھیرے ݜائے تھیلی، ہے مھی شیرین لوپٹا

ان دونوں اشعار میں توال سے مراد موجودہ توال (توروال) گاؤں نہیں ہے۔ ان سے مراد یہ پورا علاقہ اور اس کے لوگ ہے۔ واضح کردوں کہ ان اشعار کی شعراء کا تعلق موجودہ توروال گاؤں سے نہیں تھا۔

نو آبادیت اور آبائی لوگ

ہمیں تھوڑا سا تفکر کر کے یہ سوچنا ہے کہ دنیا میں آبائی لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس تاریخی نو آبادیت کو سمجھے بغیر مقامی/آبائی لوگوں کو نو آبادیت کے چنگل سے آزاد کرانا اور ان کی حقوق کی بات کرنا بہت سطحی کام ہو گا جو اکثر الٹا اس نو آبادیت کو ہی مضبوط کرتا ہے۔ یہ دیکھنا ہے کس طرح ان آبائی لوگوں سے ان کی زمینوں کو چھین لیا گیا، ان کو مارا گیا یا بھگایا گیا اور کس طرح ان کی پہلی نسلوں کے بعد اگلی نسلوں نے اپنا ماضی، اپنی تاریخ، اپنی روایات اور اپنی زبانیں چھوڑ دیں۔

تسلط کوئی معمولی شے نہیں اور نہ ہی یہ صرف ایک رخی اور سطحی ہوتا ہے۔ جس پر کسی اور کا تسلط ہوتا ہے وہ نفسیاتی، معاشی، فکری، سیاسی، ثقافتی، سماجی اور سماجی ہر لحاظ سے بالادست کا محتاج بن جاتا ہے۔ اس کی شخصیت بھی اپنی نہیں رہتی۔ یہ نفسیاتی عمل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی پر جنات اور بھوتوں کا سایہ پڑ جاتا ہے اور نتیجے میں وہ اپنی شخصیت اور شناخت کھو دیتا ہے۔ اسے شناختی بحران کا سامنا ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت منقسم رہتی ہے۔

کسی برادری یا قوم کی مجموعی شخصیت بھی تسلط کی وجہ سے اسی طرح مسخ ہوجاتی ہے اور تسلط شدہ فرد وہی چیزیں اپناتا ہے جسے بالادست اس کو دانستہ یا غیر دانستہ دیتا ہے۔ اسی شناختی بحران کی وجہ سے داردستان کے کئی لوگ خود کو کسی اور غیر آریائی قوم سے بھی منسوب کرتے رہے ہیں۔ کئی لوگ پھر اس بحران کا شکار ہو کر اپنے معلوم نسلی شجروں یعنی قبیلوں میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ شناخت کا بنیادی سوال اس وقت اٹھتا ہے جب کسی کو غیر سلامتی کا سامنا ہو۔

یہی وجہ ہوتی ہے کہ مقامی طور پر اگر کسی کو کمتر سمجھا جائے تو وہ اپنے لئے کہیں دیگر لوگوں کے ساتھ شناخت کرتا ہے۔ انسانی زندگی میں سب سے عزیز شے یہی انفرادیت اور تشخص ہے جس کے لئے سقراط نے زہر پینا پسند کیا لیکن اسے کھونے نہ دیا۔ اسی کی وجہ سے دنیا میں قومیں ابھرتی ہیں۔ خودارادیت کا بنیادی تصور ہی اس تشخص کی آزادی ہے۔

کوہستان اور کوہستانی

جس طرح باہر کے لوگوں نے پشتونوں کو ”پٹھان“ کہا اسی طرح پشتونوں اور وسطی ایشیا و ایران کے لوگوں نے ان جنوبی داردی علاقوں کو زیر کر کے ان کو اپنے مغل دربار کی سرکاری زبان فارسی میں ”کوہستان“ کہا۔ یہ لوگ چونکہ خود بھی ایک سرکاری زبان کے زیر اثر تھے اور ان کی تعلیم و تدریس اپنی زبان کی بجائے فارسی میں ہوتی تھی اس لئے کوہستان نام دیا گیا۔ کوہ مطلب پہاڑ اور ستان مطلب سرزمین یا علاقہ۔ کوہستان کا مطلب ہوا پہاڑی علاقہ۔ مانا کہ سوات کا، آباسین کا، دیر کا اور افغانستان کا کوہستان پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ مگر سوال یہی بنتا ہے کہ ان علاقوں سے زیادہ اونچے اور کثیر تعداد میں پہاڑوں پر مشتمل علاقوں چترال اور گلگت بلتستان کو کوہستان نہیں کہا گیا! کیوں؟

سوات کے داردی لوگوں پر پہلا حملہ گیارہویں صدی میں محمود غزنوی کی افواج نے کیا۔ وہ حملہ کر کے واپس چل دیے۔ حملوں کا دوسرا مرحلہ سولہویں صدی میں شروع ہوا اور یہ بتدریج جاری رہا۔ اسی سلسلے کی وجہ سے یہاں کے داردی لوگوں (توروالی اور گاؤری) کو زیر کیا گیا اور ان کی آخری نسل سوات کے بالائی علاقے توروال (پیا /تیرات سے اوپر کا کل علاقہ) اور پنجکوڑہ (بالائی دیر میں شرینگل سے اوپر کی وادی جسے دیر کوہستان بھی کہا جاتا ہے ) تک محدود ہو گئی۔

سوات اور دیر کے ان بالائی علاقوں پر قبضہ دو وجوہ کی بنا پر نہیں کیا جا سکا: پہلی بڑی وجہ ان علاقہ کی دشواری تھی کہ یہاں راستے نہیں تھے اور مقامی لوگ اوپر رہتے تھے اس لئے ان سے جنگ کرنا ممکن نہیں تھا۔ آخری جنگیں تیرات کے علاقے میں ہوئیں اور اس کے بعد تبلیغ کے ذریعے اس وقت کی مقامی کافر آبادی کو مسلمان کیا گیا۔ دوسری وجہ یہی تھی کہ ان علاقوں میں کسی حد تک مزاحمت موجود تھی جس کی وجہ سے براہ راست جنگ کرنا مشکل تھا۔

تاہم یہ علاقے کسی مرکزی سیاسی انتظامی طاقت سے محروم تھے، اغستانی تھے، اس لئے متحد ہو کر حملہ اوروں کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس چترال اور گلگت میں مقامی طور پر دسویں صدی اور اس سے بھی پہلے کی چھوٹی مگر منظم ریاستیں موجود تھیں لہذا انہوں نے مزاحمت کی اور حملہ اوروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ دوسری جانب بعد میں جب انگریز برصغیر میں حکمران تھے تو انہوں نے گلگت اور چترال کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہاں جنوب کی جانب سے حملوں کو اگے بڑھنے نہ دیا کیوں کہ یہ علاقے برطانیہ اور روس کے بیچ طویل جنگی و سیاسی کشمکش جسے ”گریٹ گیم“ کہا جاتا ہے، کی وجہ سے بہت اہم تھے۔

اس لئے برطانیہ نے ان علاقوں میں جنوب کی جانب سے حملوں کو پسپا کر دیا۔ اس کے برعکس سوات، دیر اور کوہستان میں ان حملہ اوروں کی پہلے پشت پناہی مغل دربار نے کی اور بعد میں انگریز نے بھی ان حملوں پر خاموشی اختیار کی۔ اس کی بڑی مثال درہ نور ہے جہاں کی آبائی اقوام پر افغانستان کے امیر عبدالرحمان نے جب 1895 کے آس پاس حملہ کیا تو برطانوی حکومت نے اس پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کی پشت پناہی کی کیوں کہ ان کو شک تھا کہ یہ علاقہ وسطی ایشیا کے قریب ہونے کی وجہ سے روس میں شامل ہو جائے گا اور یوں برصغیر میں روس کو راستہ مل جائے گا۔

جب یہ امیر چترال کی طرف بڑھنے لگا تو انگریزوں نے ان کو روکا۔ اس لئے ہمیں آج بھی کالاش لوگوں کی صورت میں اس قدیم ثقافت کی باقیات چترال میں بمبوریت، رمبور اور بریر میں ملتی ہیں۔ روس سے خوف کی بنا پر انگریز نے گلگت کو کشمیر کی جانب سے راستے بنائے کیوں کہ یہ راستے پنجاب میں گرتے تھے اور پنجاب پر انگریز مکمل طور پر قابض تھے۔ اس لئے ان راستوں سے روس برصغیر میں نہیں آ سکتا تھا۔ ان کو سب سے بڑا خوف بدخشان سے چترال اور گلگت کی طرف راستے سے تھا۔

یہی وجہ ہے کہ گلگت اور چترال کی اس گریٹ گیم میں بہت اہمیت رہی ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ گلگت اور چترال کے داردی قوموں نے بڑی حد تک اپنی شناخت برقرار رکھی جبکہ جنوبی ہندوکش میں دوسری داردی اقوام ایسا نہ کرسکیں۔ داردی اقوام کشمیری، شین، کھو اور پشائی بڑی اقوام ہیں۔ ان کے بغیر دیگر داردی اقوام جن کو مسلسل ایک ”کوہستانی“ شناخت کے تحت ہانکا جانے کی کوشش کی جا رہی ہے کوئی خاص عددی، معاشی، سماجی، علمی اور سیاسی مقام نہیں رکھ سکتیں۔

ان داردی اقوام کی زبانیں ایک دوسرے سے الگ الگ بن چکی ہیں۔ ان کو اب کسی ایک زبان میں نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ ڈالنے کی کوشش کرنی چاہے۔ جہاں یہ لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کے لئے کسی تیسری زبان کا سہارا لیتے ہیں تو سمجھ لینا چاہے کہ ان کی زبانیں الگ اور مکمل زبانیں ہیں۔ ان زبانوں کے اپس کے اشتراک پر کام لازمی ہے تاکہ باہمی تفہیم بڑھ جائے۔ اسی طرح ان کی مشترک ثقافت اور تاریخ پر کام کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے آپس میں میں ہم آہنگی اپنے لسانی و کلتوری اختلاف کے ساتھ مضبوط ہو جائے۔

اس لئے ہمیں اگر کسی اجتماعی شناخت یا اتحاد کی طرف جانا ہے تو ”کوہستان“ کی بجائے وسیع اور زیادہ تاریخی خطے ”داردستان“ کی طرف جانا چاہے۔ بعض لوگوں کو شاید کچھ مسلکی تعصبات کی وجہ سے چترال اور گلگت کے لوگوں سے اپنی شناخت جوڑنے میں تردد ہو تاہم یہ سارے لوگ ثقافتی، لسانی اور تاریخی لحاظ سے ایک ہی قوم داردی اور علاقے داردستان سے تعلق رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments