دس سالہ خود ساختہ قید کے بعد سماجی کارکن بننے والے خصوصی نوجوان کی کہانی


محمد احسان ملک کا تعلق سناواں، ضلع مظفر گڑھ سے ہے۔ حرام مغز کی چوٹ کا شکار ہیں۔ سماجی کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اپنے علاقے میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے مختلف دیہاتوں میں ستر ہینڈ پمپ لگوا چکے ہیں۔ جن سے ہزاروں افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ خصوصی افراد میں دو سو سے زائد ویل چیئرز اور مستحق خواتین میں سو کے لگ بھگ سلائی مشین بھی تقسیم کر چکے ہیں۔ کرونا وبا کے لاک ڈاؤن کے دوران سینکڑوں گھرانوں میں راشن بھی تقسیم کیا۔

والد صاحب کی وفات 2004 ء میں ہوئی، ویٹنری ڈاکٹر تھے۔ خاندان دو بھائی اور تین بہنوں پر مشتمل ہے۔ بھائی والد صاحب کے ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کر رہے ہیں۔ سب شادی شدہ اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔

احسان پیدائشی طور پر نارمل تھے۔ پانچویں جماعت تک گورنمنٹ پرائمری سکول سناواں سے تعلیم حاصل کی۔ پانچویں کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول سناواں میں داخلہ لیا۔ آٹھویں جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک میں اچھے نمبر لینے کے لئے پرائیویٹ سکول میں داخلہ لیا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ احسان اچھے نمبروں سے میٹرک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس زمانے میں گاؤں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مال مویشی ہوا کرتا تھا۔ کلینک سے آتے تو گاؤں کے لوگ اپنے بیمار مویشی لے آتے۔ مویشیوں کا چیک اپ اور لوگوں کو رائے دیتے دیتے رات ہو جایا کرتی۔ گاؤں والے والد صاحب کا نہایت احترام کرتے تھے۔ احسان والد صاحب کی عزت اور مقام سے بہت متاثر تھے۔ بچپن سے ویٹنری ڈاکٹر بننے کی خواہش دل میں لیے گھوم رہے تھے۔

میٹرک کے بعد ایف۔ ایس۔ سی کرنا چاہتے تھے تاکہ ڈاکٹر بننے کی راہ ہموار ہو سکے۔ سب کچھ احسان کی مرضی کے مطابق ہو رہا تھا۔ ایک دن دوست کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں موٹر سائیکل پھسل گیا۔ دونوں دوستوں کو بری طرح چوٹیں آئیں۔ گرتے وقت احسان کی کمر پتھر سے جا ٹکرائی۔

احسان نے فوری طور پر اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی اور گھر چلے گئے۔ والد صاحب کے ڈر سے واقعے کا کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ درد آہستہ آہستہ بڑھتا چلتا گیا۔ کمر سے ہوتا ہوا ٹانگوں تک جا پہنچا۔ احسان اسے معمولی درد سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے۔ پھر جب درد کی وجہ سے ٹانگوں کی حرکت کم ہونا شروع ہوئی تو گھر والوں سے ذکر کیا۔ کچھ عرصہ مقامی ڈاکٹروں سے علاج چلتا رہا۔ پھر کسی نے ملتان جانے کا مشورہ دیا۔ نشتر ہاسپٹل کے ایک ڈاکٹر شاہد رفیق بٹ صاحب نے احسان کا علاج شروع کیا۔

اس وقت تک احسان اپنے پیروں پر چل کر ہاسپٹل جاتے تھے۔ علاج تین ماہ تک چلتا رہا۔ احسان کی حالت میں مزید بگاڑ آتا چلا گیا۔ تین ماہ میں دونوں ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ جوان بیٹے کی بگڑتی حالت نے والد کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ پھر ایک مشہور نیورو سرجن سے رائے لی گئی۔ جنھوں نے ایم۔ آر۔ آئی کا مشورہ دیا۔ جس کے بعد حرام مغز کی چوٹ کی تصدیق ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے احسان کو آپریشن کا مشورہ دیا۔ آپریشن 2002 ء میں ملتان کے سیال ہاسپٹل میں ہوا۔

حادثے کے بعد احسان شدید مایوسی کا شکار تھے۔ گھر سے باہر نہ نکلتے، لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے تھے۔ مایوسی کا سلسلہ دس سالوں تک اسی طرح چلتا رہا۔ محلے والے بھی بھول گئے کہ ان کے علاقے میں کوئی احسان نام کا بندہ رہتا ہے۔ احسان انٹرنیٹ پر اپنی معذوری سے متعلق پڑھتے رہتے تھے۔ ایک دن اچانک ان کی نظر پشاور کے پیراپلیجک سینٹر پر پڑی۔ معلومات حاصل کرنے کے بعد احسان پشاور چلے گئے۔ پیراپلیجک سینٹر میں احسان کا تین ماہ علاج ہوا جس میں انھیں معذوری کے ساتھ جینے کے گر سکھائے گئے۔ تین ماہ بعد احسان جب گھر لوٹے تو اس وقت تک ان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔

احسان نے آبائی زمینیں سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی شروع کر دیا۔ اپنے علاقے کی پسماندگی دیکھ کر احسان کا دل خون کے آنسو روتا۔ خدا سے مانگتے کہ انھیں اتنی ہمت عطا کر کہ یہ اپنے علاقے کے تمام مسائل حل کر دیں۔ اس طرح سوشل ورک کا آغاز ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے احسان مشہور سماجی کارکن کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

2018 ء میں احسان نے ماہین سے شادی کی۔ ماہین اسلام آباد سے تعلق رکھتی ہیں۔ پٹھوں کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ایم۔ اے اردو ہیں۔ شاعری اور ادب سے گہرا لگاؤ رکھتی ہیں۔ شادی سے پہلے احسان اور ماہین سوشل میڈیا کی مشہور شخصیات تھیں۔ اس لیے ان کی شادی کے چرچے دور دور تک ہوئے۔ دونوں نے شادی کے بعد افراد باہم معذوری کو آپس میں شادی کرنے کا مشورہ دیا۔ جوڑی کی کامیاب ازدواجی زندگی سے لوگ بے حد متاثر ہوئے۔ ان کی شادی کے بعد بہت سے خصوصی افراد نے ایک دوسرے سے شادیاں بھی کیں۔ ماہین سویٹ ہومز میں جاب کرتی ہیں، احسان کو بہترین انتخاب قرار دیتی ہیں۔

احسان این۔ جی۔ او بنا کر رجسٹرڈ کرانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن غیر ضروری جھنجھٹوں کو دیکھتے ہوئے این۔ جی۔ او رجسٹرڈ کروانے کا فیصلہ ترک کر دیا۔ احسان سماجی کارکن کی حیثیت سے اپنے علاقے کے غریب اور پسماندہ افراد کی خدمت کر رہے ہیں اور مستقبل میں اپنے سفر کو اسی طرح جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

احسان مایوسی کو گناہ قرار دیتے ہیں۔ خصوصی افراد کو احسان کا یہی پیغام ہے کہ مایوسی ہماری صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ خدا پر بھروسا رکھیں۔ گھر سے باہر نکلنے کی کوشش کریں۔ گھر سے باہر نکلتے ہی مواقعے ملنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments