ذکر وزیر آغا، میری نظر میں


اچھے ادیب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے کچھ پہلو (خاص طور پر سماجی) ایسے ہوتے ہیں جو پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔ جنہیں دریافت کرنے کے لیے اچھی خاصی تلاش و بسیار کرنا پڑتی ہے۔ یہ کام انتہائی مشکل اور محنت طلب ہوتا ہے۔ اگر ادبی شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا جیسی متنوع جہات اور ہمہ گیر ہو تو کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی شخصیت کا سماجی پہلو اس کے ادبی پہلو کی دبیز تہ میں دب جاتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے اس کی سماجی شخصیت کے نقوش مٹتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح اس کا سماجی روپ مسخ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے حاسدین اور مخالفین نے ان کی شخصیت کو مسخ کر کے پیش کیا۔ ان کی سماجی شخصیت پر طرح طرح کے الزام لگائے۔

ڈاکٹر عابد خورشید نے ”ذکر وزیر آغا“ میں وزیر آغا کی سماجی یافت کرتے ہوئے ان پر کیے جانے والے بیشتر اعتراضات کو پیش نظر رکھا اور ان کا جواب موثر پیرائے میں دیا۔ جس سے تحریر میں شگفتگی کا عنصر در آیا ہے۔ ”ذکر وزیر آغا“ وزیر آغا کی تخلیقی جہت کی تفہیم میں بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ وزیر آغا پر نئے لکھنے والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اسے آغا شناسی کا ایک معتبر حوالہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔

عابد خورشید بہت اصول پسند ہیں۔ وہ کسی کی بے جا تعریف نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے عہدے اور معاشی حیثیت سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کو جو چیز متاثر کرتی ہے وہ تخلیقی جوہر ہے۔ وہ تخلیقی جوہر کے صحیح شناس اور قدر دان ہیں۔ انہیں تخلیقی جوہر کو کریدنا اور اسے ازسر نو دریافت کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ”ذکر وزیر آغا“ کے مضامین ان کی اسی سعی کا نتیجہ ہیں۔ یہ مضامین تخلیقی، تجزیاتی، اور تحقیقی نوعیت کے ہیں۔ تخلیقی مضامین کا اسلوب بہت شگفتہ اور پرتاثیر ہے۔

ان مضامین میں عابد خورشید نے اپنی یادوں کی زنبیل کو کھولا ہے اور بے تکلف انداز میں وزیر آغا کے ساتھ مختلف موقعوں پر ہونے والی گفتگو کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے وزیر آغا کا خاکہ پیش کرنے کے ساتھ ان کی خواہشات کو بھی کریدا ہے۔ ان کے بے تکلف انداز سے تحریر میں مزاح کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جس سے قاری بہت محظوظ ہوتا ہے۔

عابد خورشید نے فن کے متعلق وزیر آغا کے نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی رائے کو بھی پیش کیا ہے۔ انھوں نے وزیر آغا کو ان کی تحریروں سے دریافت کرنے کی بجائے ان محفلوں اور لمحوں سے دریافت کیا ہے جو انھوں نے ان کے ساتھ بتائے ہیں۔ انھوں نے اس دریافت کے دوران وزیر آغا کی سماجی شخصیت کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے مطالعے سے یہ ثابت کیا ہے کہ وزیر آغا کا سماجی روپ ان کے ادبی روپ کے ہم پلہ ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بڑی شخصیت دوسروں کو بونا یا کم حیثیت کا مالک سمجھتی ہے لیکن وزیر آغا کا معاملہ الگ ہے۔ وہ اپنی محفلوں میں آنے والوں کو بغیر کسی تفریق کے اہمیت دیتے ہیں۔ ان کو ان کی کم مائیگی کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔ اس سے بڑھ کر ان کی سماجی شخصیت کا جواز اور کیا ہو سکتا ہے۔

ذکر وزیر آغا ”عابد خورشید کو بطور تجزیہ کار بھی پیش کرتی ہے۔ انھوں نے وزیر آغا کی نظموں کے ساتھ ان کی کتاب“ کلچر کے خدوخال ”اور“ بحر ادب کے دو شناور ”(ڈاکٹر سکندر حیات میکن) کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔

عابد خورشید نظم کے اچھے شاعر ہیں۔ وہ ان کلیدوں سے واقف ہیں جن کے ذریعے نظم کے مرکزے کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے وزیر آغا کی منتخب نظموں کے مطالعہ کے دوران سب سے پہلے ان تلازمات، علامات اور استعارات کو تلاش کیا ہے جن کے ذریعے وزیر آغا نے اپنے احساسات کو نظم کی بنت میں بنا ہے۔ جب وہ ان کا مرکزہ کھولنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وزیر آغا کا شعری نظام متعارف کرواتے ہیں۔ ان کا یہ انداز بہت اچھوتا اور منفرد ہے۔

کلچر کے خد و خال ”وزیر آغا کی وہ کتاب ہے جس کو ترتیب عابد خورشید نے دیا۔ انھوں نے اس کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے وقت وزیر آغا کے نظریات کو پیش نظر رکھا ہے۔ انھوں نے کلچر کے داخلی اور خارجی پہلووں کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ ان کے نزدیک کلچر تحرک کا اعلامیہ ہے وہ اسے تجسیم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انھوں نے کلچر کے خد و خال میں وزیر آغا کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالوں کا خاطر خواہ جائزہ لیا ہے۔

”بحر ادب کے دو شناور“ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی کتاب ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ اس کا پہلا حصہ وزیر آغا، دوسرا ڈاکٹر انور سدید اور تیسرا ناول کے متعلق ہے۔ عابد خورشید نے اس کا تجزیہ کرتے وقت اپنے موضوع کی مناسبت سے پہلے حصے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ خاص طور پر ان مضامین پر جو وزیر آغا کی غزل کے متعلق ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر آغا کی شہرت ان کی نظموں اور تنقیدی تحریروں کی وجہ سے ہے۔ لیکن ان کی غزل بھی اچھی ہے۔ اس میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو غزل کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ عابد خورشید وزیر آغا کی غزل کے متعلق اپنی رائے ان الفاظ میں دیتے ہیں :

”اگر وزیر آغا کی تخلیقی شخصیت سے محض ان کی غزل زیر بحث لائی جائے تو اس کی کرنیں اتنی منور ہیں کہ انہیں روشن مقام دینے کے لیے کافی ہیں۔ ”

”ذکر وزیر آغا“ میں کچھ مضامین تحقیقی ہیں۔ جو عابد خورشید کی تحقیقی جہت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ لیکن ان کے مطالعہ کے دوران یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ تحقیق سندی نہیں ہے۔ اس سے سندی تحقیق کے اسلوب کا تقاضا نہیں کرنا چاہیے۔ عابد خورشید نے اس کا اسلوب پر مسرت رکھا ہے تاکہ قاری بوریت کا شکار نہ ہو۔ انھوں نے ان مضامین میں وزیر آغا کے جہان تخلیق، ان پر لکھی جانے والی تیرہ نئی کتب کے ساتھ وزیر آغا کے بعد آغا شناسی کے تشکیل پانے والے منظر نامے کو بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔

”ذکر وزیر آغا“ کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عابد خورشید نے اسے وزیر آغا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تخلیق کیا ہے۔ اس کا عنوان بھی اس بات کا غماز ہے۔ من پسند شخصیت پر لکھتے وقت انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

لیکن عابد خورشید نے وزیر آغا سے اپنی عقیدت مندی کو حقائق پر غالب نہیں آنے دیا۔ انھوں نے تحقیق کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے اسے دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ یہ ان کا بہت بڑا کمال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments