مزید سانحات کے لیے تیار رہنا چاہے


وفاقی دارالحکومت سے محض 30 سے 40 کلومیٹر دور سیاحتی مقام مری میں آنے والی قیامت صغری نے ہر باضمیر پاکستانی کو افسردہ کر دیا سوائے ان ارباب اختیار کے جو کسی طور اپنی کوتاہی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ ایک بار یہ حقیقت سچ ثابت ہوئی کہ ہمارے ”بڑوں“ کو عام پاکستانیوں کی جان و مال سے ہرگز کوئی سروکار نہیں، ادھر وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے سانحہ مری کی تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے یہ ”یقین دہانی“ کروائی کہ قصور وار قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے اب کیا کریں کہ ماضی کے تلخ تجربات گواہ ہیں کہ ہم کبھی بھی بڑے سے بڑے سانحہ کے بعد بھی بلند و بانگ دعووں سے آگے نہیں بڑھ سکے، ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمارے برسر اقتدار طبقات میں کوئی اور چیز مشترک ہو یا نہ ہو یہ ٹولہ ایک بات پر ضرور متفق و متحد ہے کہ اس نے اپنی آئینی اور قانونی ہی نہیں اخلاقی ذمہ داریاں کبھی پوری نہیں کرنی ہیں۔

اس پس منظر میں مقام شکر ہے کہ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسی آوازیں طاقتور ہو رہیں جو روایتی ہتھکنڈوں سے تائب ہونے کو تیار نہیں یعنی وہ مملکت خداداد کو ایسی ریاست بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں جہاں حقیقی معنوں میں قاعدے قانون سب کے لیے برابر ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کی بالادستی کا سفر کبھی آسان نہیں رہا، اس کھیل میں مخالف کو انواع و اقسام کے القابات سے نواز کر کے نشان عبرت بنانے کا سلسلہ بھی ہرگز انہونی بات نہیں چنانچہ یہ امید کرنا ہرگز خوش فہمی نہیں کہ پرنٹ اور الیکڑانک ہی نہیں سوشل میڈیا پر حصول انصاف کے لیے اٹھائی جانے والی آوازوں کو کوئی فائدہ نہیں۔

مری میں بعض ہوٹلز انتظامیہ کا سیاحوں سے سلوک حیران کن نہیں، سچ یہ ہے کہ رش والے مخصوص دنوں میں جو کوئی بھی مری کی سیر کو ہو گیا کم وبیش اس سے ایسا ہی برتاؤ رکھا گیا، ٹھیک کہا جاتا ہے کہ بیشتر انسانوں میں ان کے اندر کا حیوان مرا نہیں کرتا چنانچہ وہ اس وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ جاگ جایا کرتا ہے جب جب اسے جوابدہی کا خوف باقی نہ رہے۔

برطانیہ میں 2011 کے ماہ اگست میں ہونے والے فسادات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ وہ ملک جہاں کئی دہائیوں سے قانون خود کو منواتا رہا بدترین صورت حال کا منظر پیش کر گیا، شدید برف باری کا شکار ہونے والے سیاحوں کو اگر 500 روپے کا چائے کا کپ اور 50.000 روپے میں ایک کمرہ کرائے پر دیا گیا تو اس کی بنیادی وجہ جواب دہی کا خوف نہ ہونا ہے، اس پس منظر میں ہمیں کسی طور پر یہ خوش فہمی نہیں پالنی چاہے کہ مستقبل قریب میں اوجڑی کیمپ کا واقعہ، سانحہ آرمی پبلک سکول یا بے نظیر بھٹو کے قتل جیسے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہوں گے۔

کسی نے خوب کہا کہ غلطیاں بچے دیا کرتی ہیں، بحیثیت قوم ہم غلطی کے یوں مرتکب ہوچکے کہ اپنی کوتاہیوں سے سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں چنانچہ اگر مگر چونکہ چنانچہ کے باوجود ہمیں مزید سانحات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments