جنسی بھوک اور معاصر مصنف سے چھ سوال



سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند کا نقشہ یوں کھینچا، ایک لڑکی زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار ہسپتال میں موجود ہے۔ ڈاکٹر اس کا معائنہ کرتے ہوئے کہتا ہے ”کھول دو اور وہ اپنا ازار بند کھول کر شلوار کولہوں سے نیچے سرکا دیتی ہے“ وہی سعادت حسن منٹو جو لاوارث بچوں کے کچے جسم ”سرکنڈوں کے پیچھے“ دکھاتا ہے، جس کا ہم عصر نذر محمد راشد ”سپاہی“ کی صورت عالمی سیاسی منظرنامے کو ہنرمندی سے نظم بنا دیتا ہے یہ وہی ادبی روایت ہے جس میں ”ابن الوقت“ تصنیف کیا جاتا ہے۔ سعادت حسن نوزائیدہ، آزاد پاکستانی معاشرے کی نفسیات کا جو تاثر پیش کرتا ہے وہ آج بھی اس اسلامی ریاست میں بستے مرد کے چہرے پر واضح اور راست ثبت ہے۔

ہندوستان کی تقسیم اور اس خطے پر دو آزاد ریاستوں کا وجود پون صدی کی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طرف ہندوستانی اقوام بالخصوص ہندو مسلمان دو سو سالہ انگریز تسلط کے خلاف متحد ہو چکے تھے تو دوسری طرف برطانوی استعمار کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی تھیں کہ دو عظیم جنگوں نے اسے اس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ وہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض خطے پر کار حکومت چلا سکے۔ تقسیم ہند کے اسباب میں یہ پہلو بھی اہمیت کا حامل تھا کہ عالمی طاقتیں اس زمین پر برطانوی راج کو مزید وقت نہیں دینا چاہتی تھیں کہ ہندوستان ہی وہ سونے کی چڑیا تھی جس کے لاکھوں ایکڑ رقبے سے ہر چھ ماہ بعد زر مبادلہ کے روشن تر امکانات موجود تھے اور جو برطانوی حکومت کے لیے سہارے کی صورت بن سکتے تھے۔

یہ بھی سچ ہے کہ سولہویں صدی سے ہندوستان کی طرف بڑھتے وقت برطانوی جانتے تھے کہ اس کرہ ارض کی عالمی منڈی میں ہندوستان کی ساجھے داری 23 ٪ ہے جیسے وہ یہاں سے جاتے ہوئے پوری طرح آگاہ تھے کہ بیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کا حصہ عالمی معیشت میں محض 3 ٪ رہ گیا تھا۔ انگریزوں نے اس خطے پر حکومت کی توسیع اور استحکام کے لیے جن ذرائع کا استعمال کیا ان میں سے ایک ہم ترین ذریعہ متوسط طبقے کے دانشور کی ہمدردی حاصل کرنا تھا یہی وجہ ہے کہ 1857 کے فوری بعد اس خطے کے نامور مصنفین کی غالب اکثریت انگریز راج کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے ان کے ساتھ اتحاد کی صورت مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف دکھائی دیتی ہے زندگی کے مختلف شعب جات سے لوگ گروہ در گروہ اور ٹکڑی ٹکڑی ہو کر کسی نہ کسی صورت انگریز استعمار کے خلاف چھوٹے پیمانے پر ہی برسر پیکار تھے کہ انہیں انگریز دشمن سے اپنی سرزمین کو آزاد کرانا تھا مگر آزادی پرستی کا یہ رویہ اپنے عہد کے شعرا اور نثر نگاروں کے درمیان قدرت مختلف ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ انگریز کے خلاف بندوق اور لٹھ کے زور پر جنگ نہیں لڑی جا سکتی بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہندوستانی عوام کو علم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔

مرزا اسد اللہ غالب، سرسید احمد خان، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا محمد علی جوہر سمیت کتنے اہم ادیب و شاعر ہیں جو انگریز کے خلاف طاقت کے استعمال، روایتی اوزاروں سے جنگ کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے، عوامی شعور میں ترقی لانے اور سیاسی میدان میں جنگ اور جدوجہد کرنے کے خواہش مند رہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اس زمین کے ادیب شاعر نے اپنی قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کے علاوہ، اس کی ذہنی تربیت کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

ان ادیب شعرا نے غلام قوم کو انگریزی راج کے اندھیرے سے نکالنے کا عہد بھی کیا اور پھر تاریخ عالم گواہ ہے کہ یہ سب کے سب سرخرو ہوئے کہ ان کی سیاسی کوششوں اور انتھک محنت سے برطانوی حکومت کی بساط پلٹی اور یوں مسلمانان ہند الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 1947 ء کے بعد بھی ادیب شاعر نے اپنی سماجی ذمہ داری کا ادراک کیا اور معاشرتی تفاعل میں اپنی حصہ داری سے گریز کی کوئی صورت اختیار نہیں کی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا لالچ دولت و ثروت نہیں تھا یہ لفظ اور اس کی حرمت کے قائل، دل و جان سے الفاظ کے ساتھ اپنے رشتے کو نباہتے رہے۔

غالب، سرسید، آزاد، حسرت موہانی کے بعد کی نسل نے اپنی سماجی ذمہ داری کو کسی مجبوری کے پردے میں چھپے بنا ادا کیا۔ سعادت حسن منٹو، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، حسن عسکری، ناصر کاظمی، فیض احمد فیض، مجید امجد، اختر حسین جعفری سمیت ایسے کتنے تخلیق کار ہیں جو اپنی رائے میں واضح ہیں (گو ان کے ادبی قد کاٹھ کا تعین وقت خود ہی کرے گا) اگر وہ بنیاد پرست ہیں تو اس کا اظہار کھلے بندوں کرتے ہیں، اگر وہ روسی اشتراکیت کے پیروکار ہیں تو اس کے اعلان میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔

یہ لوگ اپنی رائے اور اپنے نکتہ نظر کے اظہار میں دھوکا دہی سے کام نہیں لیتے (ماسوائے استثنائی مثالوں کے ) ۔ یہ جو ہیں وہی دکھائی دیتے ہیں۔ اختر حسین رائے پوری، احمد بشیر، وارث میر سمیت کتنے صحافی ہیں جو ادیب بھی ہیں۔ یہ سب مثالیت پرست، عینیت پسند Idealistic ہیں جنہوں نے معاشرے کو سوچنے کا انداز دیا یہ مزدور کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں تو ترقی پسند اور ادب برائے زندگی کے نمائندگان کہلاتے ہیں یہ مذہب کی بنیاد پر ڈسکورس کرتے ہیں تو جماعت اسلامی کے نمائندہ کہلاتے ہیں، یہ تخلیق کار کی فکری آزادی کی حمایت کرتے ہیں تو حلقہ ارباب ذوق اور ادب برائے ادب کے داعی سمجھے جاتے ہیں، ان کا طرز فکر ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ان کی ایک کائنات ہے، جسے خریدا نہیں جا سکتا، جس کی بولی نہیں لگائی جا سکتی، جس کی قیمت طے نہیں کی جا سکتی اور یہی عینیت پرستی ان کی زندگی کا جوہر ہے جس کو سینے سے لگا کر یہ جیتے ہیں ان کا طرز فکر ان کی تحریروں کے ساتھ ان کی زندگی سے جھلکتا ہے کہ ان کا ہدف بڑی بڑی گاڑیاں اور ایکڑوں زمین پر پھیلے بنگلے نہیں، نہ ہی انہوں نے اپنی فکر کے بدلے گریڈ کی ترقی لینی ہے۔ مولوی باقر دہلوی کی طرح یہ اپنی زندگی کا کل سرمایہ داؤ پر لگا دیتے ہیں، توپ کے دہانے سے باندھ کر اڑا دیے جاتے ہیں مگر اپنی مثالیت پر قائم رہتے ہیں وہی مثالیت جس کی رو میں بہتے ہوئے حبیب جالب نے ”لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو“ لکھا، وہی جڑت جو فیض سے ”جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت“ جیسے مصرع تخلیق کراتی ہے، وہی ذہنی ساخت جو احمد فراز سے نظم ”محاصرہ“ تو منو بھائی سے ”احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر“ کی صورت معاشرتی صورت کی عکاسی کرتی ہے، تو مولانا مودودی ”خلافت و ملوکیت“ جیسی تصانیف کی صورت اپنی فکر کا جوہر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

پھر وقت نے پینترا بدلا، ایک ایک کر کے یہ ادیب، شاعر، صحافی کارخانہ روز و شب سے منہ موڑتے گئے، شاعر ادیب مصنف نقاد مضمون نگار دنیا سے اٹھتے چلے گئے اور کاروباری، لفظوں کے سودا گر، نظم و غزل، افسانہ و ناول کے کمیشن ایجنٹ منظر عام پر آ گئے۔ اوراق، فنون، صحیفہ کی جگہ ان تھوک فروشوں نے لے لی جن کی کاروباری صلاحیت سے مرعوب ہو کر ریاستی اداروں نے بھی محقق کا محنتانہ مقرر کرنے کی بجائے مدیر کا کمیشن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا، اردگرد نگاہ دوڑائیں آپ کو مضمون نگار ایک ہاتھ میں سال بھر کی محنت سے تیار شدہ مضامین جبکہ دوسرے ہاتھ میں پیسے پکڑے بھاگتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ اس ”علم پرور“ فضا میں پاکستان میں مصنفین کی نئی کھیپ سامنے آنے لگی وہی کھیپ جس کی فکری کھاد سے آج پورا معاشرہ تیار ہو چکا ہے۔

یہ کہانی گزرے چالیس برسوں کی ہے جس میں پاکستان میں ادب نے ایک منڈی کی شکل اختیار کی۔ نظریات کے نرخ طے ہونے لگے۔ فکریات کو گریڈوں کے ترازو میں تولا گیا اور رفتہ رفتہ یہ سب کام معاشرے کی اجتماعی نفسیات کا حصہ بن گئے ایسا حصہ جس کی سنگینی سے عام آدمی تو کجا خود مصنف برادری بھی صرف نظر کر چکی ہے ورنہ جس معاشرے کا متوسط طبقے کا دانشور کرپٹ اور بکاؤ ہو، جس معاشرے کا استاد کتاب دشمن ہو، جس سماج میں علمی مباحث کو ذہنی بے ترتیبی کہا جانے لگے، اس معاشرے میں تو بھونچال آ جانا چاہیے مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ متشاعرات اور متشاعروں کے اعزاز میں استقبالیہ ترتیب دیا جاتا ہے، سرقہ شدہ مضامین کو ریاستی اداروں کی سرپرستی میں موجود رسائل و جرائد میں شائع کیا جاتا ہے۔

اس سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج لیفٹ اور رائٹ کی تمیز ختم ہو گئی ہے گویا معاشرے سے مثالیت پسندی کا جڑ سے خاتمہ ہو چکا ہے اور اگر کوئی Idealistic ہونے کی غلطی کرتا ہے تو گروہوں میں موجود مفاد پرست عناصر اس کا ایسا ناطقہ بند کرتے ہیں کہ نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ آج ایسے ادیبوں کی ”واہ واہ“ ہے جو بذات خود ”چھڑی اور گاجر“ لے کر موجود ہیں اور اپنی عظمت کا اعلان کر رہے ہیں کوئی ان کے فکر و فن پر سچ لکھنے کی جرات نہیں کرتا اور اگر کوئی کرتا ہے تو یہ بھڑوں کا چھتہ اس پر حملہ اور ہو جاتا ہے۔

کون ہے جو آج ”کھول دو“ لکھ کر معاشرے میں موجود جنسی گھٹن کے منہ پر طمانچہ رسید کرے بلکہ آج تو منٹو کی کہانیوں کے خمیر کو سستے جنسی جذبات میں ڈھال کر داد و دہش وصول کی جاتی ہے وہی کہانیاں جن میں دیور بھابھی کا معاشقہ قلم بند کیا جاتا ہے تو سالی بہنوئی باہم بغلگیر ہو کر ایک دوسرے کے کانوں میں اپنی سرگوشیاں کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے کہ شاعر ہر چار دن کے بعد نئے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے وہی ڈرامہ جس میں خفیہ جنسی تعلقات کے بیان کے سوا کوئی کہانی ہی نہیں پائی جاتی، شادی، شادی کے بعد سالی، بھابھی، ساس کے ساتھ جنسی معاشقہ اور پھر طلاق آج کے اردو ڈرامے کا کل جہان ہو کر رہ گیا ہے جس کی بنیاد ایک ترک ڈرامے ہر استوار ہے اور یوں یہ مصنف اردو ڈرامے کی روایت سے ناواقف ہیں۔

شاعر ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ قومی ٹی وی پر بیٹھ کر عورت کو گالیاں بکتے ہیں، شعرا مختلف سیاسی جماعتوں کے کاسہ لیس بن چکے ہیں اور اس سب کھینچا تانی میں نقصان صرف اور صرف ادب اور تخلیقی جوہر کا ہوا ہے جو روز بروز اپنی شفافیت کھوتا چلا جا رہا ہے اور کثیف سے کثیف تر ہوتا چلا جا رہا ہے، شاعر خود کے مصرعوں کو خود ہی الہام قرار دے رہے ہیں۔ روایت ساز شاعروں سے پوری پوری نظمیں چرانے والے لوگ صف اول میں اردو ادب کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ سب ہوتا ہے ہوتا رہے گا مگر ابہام، دھند، پیچیدگی اور لایعنیت کی یہ صورت حال ہے کہ اردو ادب سے مثالیت پسندی کہیں غائب ہو گئی ہے، محمد حسن عسکری، محمد علی صدیقی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض جیسے صاحب رائے، صاحب ادراک کہیں غائب ہوتے جا رہے ہیں اور بقول شاعر اب کوئی بھی ہم جیسا نہیں ہے کہ مثالیت پسندی کی آڑ میں گریڈوں کے سودے کیے جاتے ہیں، بحریہ میں پلاٹ وصولے جاتے ہیں۔ آج کا صحافی حسرت موہانی نہیں بلکہ پراپرٹی ڈیلر ہے جس کی توجہ ”کمیشن“ پر مرکوز ہے اور پھر شکوہ کیا جاتا ہے کہ معاشرہ ادب نہیں پڑھتا۔

مرے عزیز مصنفوں معاشرہ آج بھی ادب پڑھے گا بشرطیکہ لکھنے والا ادب لکھے، وہی ادب جو انسانی شعور کو ترقی دے، وہی ادب جو ہماری زندگی کے حقیقی دھارے سے جڑا ہوا ہو، وہی ادب جو ہمارے سماجی معاملات کی عکاسی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہی ادب جس میں ادبی ترفع موجود ہو، وہی ادب جس کے اسلوب میں ادبی شکوہ موجود ہو، وہی ادب جس میں فرد کو اس کے محبوب کا چہرہ دکھائی دے، اس کے وجود کے نشیب و فراز کی تمثال کاری عاشقانہ والہانہ پن کے ساتھ ہو نہ کہ ہوس میں ڈوبی جنسی بھوک کے لعاب میں لتھڑی ہوئی، ادیب ممد بھائی کا فسوں سامنے لائے، زور کے جاڑے میں ”گرم کوٹ“ تحریر کرے، شور مچاتی سڑکوں پر ”اوور کوٹ“ میں چھپے بے بس کی کہانی بیان کرے، جذبات کی بھٹی میں سلگتے ”پرمیشر سنگھ“ کو منظر عام پر لائے، دیواروں پر سوتی اداسی کا تمثال تخلیق کرے بجائے محبوبہ کو جینز پہنانے کے۔

آج محفل مشاعرہ میں اگر 80 شعرا شامل ہوں تو 79 سامعین ہوتے ہیں کہ ایک سامع کچھ دیر کے لیے اپنی شاعری سنا رہا ہوتا ہے اور یوں سامعین کی تعداد شرکاء سے کم ہی رہتی ہے کہ ادیب شاعر اپنا وقار روز بروز کھو رہے ہیں اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب وقتی فائدے کے لیے ایک رسالہ ”نظم نمبر“ کی اشاعت میں فیض احمد فیض کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا کہ کاروباری منفعت اس سلسلے میں بنیادی رکاوٹ بن کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔

سوال بہت سادہ ہے۔ اول کیا بنا کسی نظریے کے کوئی ادیب معاشرے میں شعور سازی کا عمل بخوبی انجام دے سکتا ہے؟ دوئم کیا جدید سرمایہ دارانہ نظام میں ادب کی حیثیت بطور کارپوریٹ اکائی کے بدلتی جا رہی ہے؟ سوئم کیا انسانی معاشرے کے مختلف آئیڈیل میں سے تخلیق کار مائنس ہوتا جا رہا ہے؟ چہارم کیا عورت مرد کے درمیان شب بسری، عورت کے اعضائے پوشیدہ کی بے تکی تشہیر اور سستی جذباتیت ہی مکمل ادب ہے؟ پنجم تخلیق کار بھلے شعر سے متعلق ہو یا فکشن سے، روایت سے نابلد ہو کر اپنا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے؟

ششم تخلیق کار خواہ معلم ہو، صحافی ہو، افسر ہو یا ماتحت اپنے تخلیقی متن کے بدلے ترقی، روپیہ، مکان وصول کر کے اپنے ضمیر کی آواز پر لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا ان ہاتھوں کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے جو اس کی آواز اور الفاظ کو خرید لیتے ہیں؟

شاید کہ اس کرید سے ہم جان پائیں کہ اس عہد نے اپنے معروضی حقائق کے اظہار کو ابھی تک اپنے فیض و فراز، اپنا غلام عباس، سعادت حسن منٹو، اپنی سیاسی بصیرت کے بیان کو میر تقی میر کیونکر تلاش نہیں کیا؟ فیصلہ آپ کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments