130 فٹ قد کا خواب اور ہمارے منحنی وجود


ابھی چند روز پہلے کی بات ہے، ایک عالمِ بے بدل پنج ستارہ ہوٹل کے حال میں اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ ہم ایسے عامیوں کو بھی اس تقریب۔ سعید میں شرکت کا موقع ملا۔ ہم ان کی شہرت سے تو پہلے ہی متاثر تھے مگر اب ان کی تمکنت نے ہمیں حد سے زیادہ ہی مرعوب کر دیا۔ ہم ان کے ارشادات۔ عالیہ کو ہمیشہ ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں لیکن جب کچھ ناہنجار ان سے حور و غلماں کے عقل و فہم سے بالا قصے منسوب کرتے تو ہمیں ایسے لوگوں کی ذہنی صحت پر شک گزرتا۔ اور ہم ایسے کوتاہ فکروں کی قطعاً فکر نہ کرتے۔ اور اب تو ہم پنج ستارہ ہوٹل کے حال میں بہ نفس۔ نفیس موجود تھے اور ان کا بیان۔ عالی شان خود اپنے گناہ گار کانوں سے سن رہے تھے اس لیے شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ اور جو کچھ فرمایا جا رہا تھا ہم اس سب کے عینی، سمعی اور وجودی گواہ تھے۔

ان کے فرمان۔ عالی شان کے مطابق جب ہم ایسے ناتواں، مرگ۔ جانکاہ سے گزر کر معبود۔ حق کی بارگاہ سے پروانہ جاں بخشی لے کر ان کے فرمان۔ عالی شان میں مصور کی گئی جنت میں داخل ہوں گے تو سب مردو زن کے قد 130 فٹ ہو جائیں گے۔ لباس کی خواہش کرتے ہی آن کی آن میں سو جوڑے زیب۔ تن ہو جائیں گے۔ اور لوازمات۔ لذت۔ کام و دہن کا تو پوچھیے ہی مت۔ دوران۔ بیان مجھ سمیت سب بار بار اپنے پیروں کی سمت دیکھتے رہے کیوں کہ ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ ہم سب کے پاؤں گھستے چلے گئے تبھی تو ہمارے قد و قامت منحنی ہو گئے۔ حقیقت میں تو ہم 130 فٹے ہی تھے۔

سچ پوچھیے تو مجھے ان کے کہے پر پورا یقین ہے اور یقین کیوں نہ کروں کہ مجھے بھی تو جان کی امان درکار ہے۔ تبھی تو میں نے خود کو 130 فٹ کا تصور کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور 100 جوڑے کپڑوں کو بھی تن۔ خستہ پر سجا دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ تصور مجھے کچھ جچ نہیں رہا۔ میں جو اپنے اس منحنی وجود پر مطمئن، کپڑوں کے دو چار جوڑوں پر اکتفا کرنے والا، دو وقت کی سادہ غذا کھا کر شکر بجا لانے والا ایک عام سا شخص ہوں بھلا ایسی پر تعیش اور پر تکلف زندگی کو کیسے اپنا سکتا ہوں۔ ویسے بھی میں اور مجھ جیسے ڈھیروں لوگ تو صرف دو وقت کی روٹی کا سوال لیے کھڑے ہیں اور نہ جانے کب سے کھڑے ہیں۔ مگر جواب ندارد!

جناب۔ من! سنتے ہیں کہ خدا کے ساتھ ساتھ ملک کے مقتدر حلقوں سے بھی آپ کے قریبی مراسم ہیں۔ عالی جاہ! ہو سکے تو ہماری عرضی ان تک پہنچا دیجیے۔ زیادہ کچھ نہیں بس اتنا کہیے گا کہ پٹرول کی قیمت کنٹرول کر لیں، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہمارے ماہانہ بجٹ کی ایڈجسٹمنٹ بگاڑ دیتی ہے، گھی ہمارا خون پی رہا ہے۔ آپ کا منی بجٹ ہماری زندگیوں کو کہیں اور زیادہ ’منی‘ نہ کر دے کیوں کہ آپ نے سب سہولتیں واپس لے لی ہیں۔ روزگار کے ذرائع مفقود ہو چلے ہیں۔

ہو سکے تو اپنی زبان کی شیرینی کو کئی گنا بڑھا کر دبے لفظوں میں یہ بھی پوچھ لیجیے گا کہ لگی بندھی تنخواہ لینے والوں کو ملٹی ملینیئر بنانے والا تعویز کہاں سے ملتا ہے اور پانچ کو پچاس نہیں، پچاس کروڑ بنانے کا گر کہاں سے سیکھا جا سکتا ہے۔ اور آئندہ جب آپ کسی پنج ستا رہ ہوٹل کے وسیع اسٹیج پر متمکن ہوں تو یہ بتا سکیں کہ ہمارے منہدم ہوتے ہوئے وجود زندہ رہنے کا تاوان کب تک ادا کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments