پاکستان اور دوسرے ممالک کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا تقابلی جائزہ


آج سے بیس تیس پہلے زمانہ طالبعلمی میں جب سو کے اٹھتے تھے تو پی ٹی وی پر قرآن پاک کی ترجمے کے ساتھ تلاوت لگا کرتی تھی، دعا ہوا کرتی تھی اور پھر صبح کی نشریات کا آغاز نعت سے ہوا کرتا تھا، بچوں کے لیے کارٹون اور بڑوں کے لیے معلوماتی پروگرام ہوا کرتے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ جیسے ادیب لوگ اس ٹرانسمیشن کو ہوسٹ کیا کرتے تھے۔ شام چار بجے بچوں کے لیے ڈرامے اور رات آٹھ بجے اصلاح سے بھر پور ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ جن کے لکھاری اصغر ندیم سید، اشفاق احمد اور احمد ندیم قاسمی جیسے لوگ ہوا کرتے تھے۔

ڈائریکشن اور پروڈکشن کے لیے ایوب خاور اور اداکاری کے لیے محمد قوی خان جیسے میچور اور پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے تھے۔ اس نتیجے میں من چلے کا سودا، آہن، دھواں اور تنہایاں جیسے لازوال ڈرامے بنا کرتے تھے۔ جن کی اگلی قسط کے لیے پورا ہفتہ انتظار ہوا کرتا تھا۔ ٹیپو سلطان اور جناح سے قائد تک جیسے تاریخی ڈرامے بھی دیکھنے کو ملتے تھے۔ جمعرات کی شب طارق عزیز شو لگا کرتا تھا جس میں جنرل نالج اور مقابلہ بیت بازی ہوا کرتا تھا۔

تب گوگل نہیں ہوتا تھا تو لوگ ڈائریاں لے کر اشعار اور سوال و جواب لکھ لیا کرتے تھے۔ جب کہ سائنس اور جغرافیہ پر ڈاکیومینٹریز بھی دیکھنے کو ملتی تھیں۔ عید میلاد النبی، محرم اور رمضان میں فقط دینی پروگرام دکھائے جاتے تھے۔ جب جیو نیوز نیا نیا آیا تھا تو ایک پروگرام آتا تھا الف جس میں سنجیدہ قسم کی بحث ہوا کرتی تھی اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کو مدعو کیا جاتا تھا ہم یہاں پر کچھ توقف کرتے ہیں اور دوسرے ممالک کے کانٹینٹ کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔

ترکی میں رجب طیب اردگان جب اقتدار میں آیا تو اس نے اپنے ملک میں مسلمانوں کے تاریخی ڈرامے دکھانے پر زور دیا۔ اگرچہ ترکی میں ہر قسم کے بولڈ اور فحش ڈرامے بھی بنتے ہیں۔ میرا سلطان جیسے ڈرامے بھی بنتے ہیں جس میں سلطان کو فقط اپنی کنیزوں کا رسیا دکھایا گیا تھا۔ مگر دوسری طرف ارطغرل اور یونس ایمرے جیسے ڈرامے بھی بنائے گئے۔ ایران میں حضرت یوسف اور اصحاب کہف پر بھی ڈرامے بنائے گئے جن میں اس دور کی منظر کشی بڑی خوبصورتی سے کی گئی۔

جبکہ قطر میں عمر سیریز بنائی گئی۔ اگرچہ پاکستان میں علمائے کرام کی رائے میں یہ ڈرامے دیکھنا صحیح نہیں ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو ان ڈراموں اور فلموں کو دیکھ کر انسان پر ایک اچھا اثر ضرور پڑتا ہے۔ اگر بات کی جائے بھارت کی تو گاہے بگاہے ایسی فلمیں آتی رہتی ہیں جو کہ پیار اور محبت سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ بھارت میں جہاں تاریخی فلمیں بنتی ہیں وہیں سائنسی اور بزنس کے حوالے سے موٹیویشنل موویز بھی بنتی ہیں جس کی ایک مثال تھری ایڈیٹس تھی جس میں لداخ میں رہنے والے ایک حقیقی کردار کو عامر خان نے نبھایا۔

پھر بھاگ ملکھا بھاگ جیسی فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں۔ تاریخی فلموں میں اگرچہ تاریخ کو غلط انداز میں دکھایا جاتا ہے لیکن پھر بھی بھارت میں ہر طرح کا موضوع دکھایا جاتا ہے۔ اگر بات کی جائے یورپ کی تو اگرچہ رومانٹک فلمیں بھی بنتی ہیں لیکن دوسری طرف سٹیفن ہاکنگ اور آئین سٹائن پر بھی فلمیں بنتی ہیں، سائنٹفک خاص طور پر سپیس مشن پر بھی فلمیں بنتی ہیں، نیو بزنس آئیڈیاز پر بھی فلمیں بنتی ہیں۔ تاریخ اور پوسٹ انٹرنیٹ جیسے موضوعات پر بھی فلمیں بنتی ہیں۔ اپنے اصلی ہیروز پر بھی فلمیں بنائی جاتی ہیں اور جمہوریت کے لیے کی گئی جدوجہد پر بھی فلمیں اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں۔ جبکہ ناوم چومسکی اور یووال نوح ہراری جیسے لوگوں کو بھی انٹرٹینمنٹ چینلز پر مدعو کیا جاتا ہے ۔

اب ہم دوبارہ پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ مشرف کے دور حکومت میں پرائیویٹ چینلز کی بھرمار ہوئی اور اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں کس قسم کا کانٹینٹ پیش کیا جا رہا ہے جب پاکستان میں سینما انڈسٹری ہوا کرتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے ہر دیہاتی کے پاس گنڈاسا ہوتا تھا اور لوگوں کی کسی بدمعاش سے حفاظت کیا کرتا تھا۔ فلم انڈسٹری تو خیر ویسے ہی زوال پذیر ہو چکی ہے۔ اگر بات کی جائے ٹیلی ویژن کی تو صبح اٹھتے ہی سات بجے مارننگ ٹرانسمیشن کا آغاز ہوتا ہے۔

جس میں اکثر بے تکے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ مثال کے طور پر جادو ٹونے۔ ان پروگرامز میں اصل میں تو اداکار ہوتے ہیں جن کو جادوگر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پھر ستاروں کا حال جاننے کے لیے کسی ماہر نجوم کو بلایا جاتا ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی یونیورسٹی نہیں ہے جو اس فیلڈ میں بھی ڈگری دیتی ہو۔ صرف اپنے اندازوں کی بنیاد پر لوگوں کو جھوٹے سچے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے ویلنٹائن ڈے کا کوئی تصور بھی پاکستان میں نہیں ہوتا تھا۔

صرف اس موضوع پر دس بارہ دن پروگرام چلتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک مارننگ شوز میں اداکاروں کو بلا کر فیک شادیاں کروائی جاتی تھیں۔ ان سے پاکستان میں یہ اثر پڑا کہ اب دن بدن شادی کے فنکشنز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ پہلے صرف ایک مہندی کا فنکشن ہوا کرتا تھا اور اب پری مہندی، پوسٹ مہندی اور برائیڈل شاور جیسے فنکشنز کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اگر بات کی جائے رات کے ڈراموں کی تو ایک بڑا سارا فارم ہاؤس کرائے پر لو، چار پانچ بڑی بڑی گاڑیاں کرائے پر لو، ایک بڑی تعداد میں اداکاروں کو کاسٹ کرو، ہیرو کو کسی غریب لڑکی کا عاشق دکھا دو اور کسی مشہور گلوکار سے اچھا سا او ایس ٹی گوا لو۔

لو جی آپ کا ایک فل فلیج ڈرامہ تیار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اگر شروع کی چند قسطیں چل نکلیں تو ٹی آر پی کی خاطر بلاوجہ پچھلی قسطوں کے فلیش بیک سینز کو چلا کر ڈرامے کو طول دیا جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ اچھے ڈرامے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں لیکن اکثریت ایسے ڈراموں کی ہوتی ہے جس میں دیور بھابھی پر، سسر اپنی بہو پر اور بہنوئی اپنی سالی پر ڈورے ڈال رہا ہوتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک ڈرامے میں سسر نے اپنے بیٹے کو اپنی بھابھی کے ساتھ فری ہونے پر ڈانٹ دیا تو الٹا سسر کو پرانے خیالات کا حامل شخص دکھایا گیا، بڑی بہو کو روتے ہوئے اور دیور کو اپنے باپ کی پرانی اور تنگ نظر سوچ پر روتا ہوا دکھایا گیا۔

پھر ایک ڈرامے میں رضاعی بہن بھائی کو شادی ہونے کے بعد معاشرے کی طرف سے منفی رویے کو دکھایا گیا۔ پھر کچھ عرصہ پہلے ایک ڈرامہ انوکھی دکھایا گیا جس میں جی بھر کر مرد اور عورت کے ناجائز تعلقات کو دکھایا گیا۔ پھر حال ہی میں ایک ڈرامہ دکھایا گیا خدا اور محبت سیزن تھری جس میں ایک نالائق لڑکے کو دکھایا گیا جو ایک بہت امیر اور با پردہ لڑکی کے عشق میں اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اسی لڑکی کا ڈرائیور بن جاتا ہے اور اپنے عشق کا اظہار کرتا ہے پھر اپنے عشق کی ناکامی میں دربار پر آ کر اپنے گرو جی سے عشق کے رموز سیکھنے بیٹھ جاتا ہے۔ آخر میں عشق اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور دونوں اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ یورپ میں مادام کیوری کو عشق میں ناکامی ہوئی تو وہ دو نوبل پرائز ونر بنی اور ہمارا فرہاد ملنگ بن گیا۔ اسی ڈرامے کو دیکھ کر حقیقی زندگی میں بھی ملتان میں ایک لڑکا کسی دربار پر جاکر بیٹھ گیا ہے۔

ایسے ڈرامے اور فلمیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے معاشرے میں صرف یہی کام رہ گئے ہیں۔ عام طور پر ڈراموں میں لڑکیوں کو مغربی لباس پہننے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی بوس و کنار کرنے کی اجازت ہوتی ہے تو ایوارڈ شوز میں کیمرے کے سامنے ایسی حرکتیں کر کے اپنی حسرت پوری کرلیتے ہیں۔ دماغ سوچ سوچ کے سکتے میں آ جاتا ہے کہ کیا پاکستان میں بس یہی موضوعات رہ گئے ہیں۔ کیا پاکستان میں کوئی ایسا سیلف میڈ انسان نہیں ہے جس نے زیرو سے اپنا بزنس سٹارٹ کیا ہو اور کچھ ہی عرصہ بعد ایک بزنس ایمپائر کھڑی کردی ہو، کیا پاکستان میں ڈاکٹر عبد الاسلام جیسا کوئی کردار نہیں ہے جس نے سائنس میں اپنا کردار ادا کیا ہو، کیا پاکستان میں میں کوئی عبدالستار ایدھی جیسی شخصیت نہیں ہے جس نے انسانیت کے لیے کوئی کام کیا ہو، کیا پاکستان میں کوئی عرفہ کریم جیسی لڑکی نہیں ہے جس پر کوئی ڈرامہ یا فلم بن سکے۔ اس سلسلے میں آئی ایس پی آر ایسے کئی ایک موضوعات پر ڈرامے بناتا رہتا ہے۔ ابھی ہال ہی میں جنرل نگار جوہر پر ڈرامہ بنایا گیا جب کہ ابھی صنف آہن جیسے بہترین ڈرامے اور فلمیں بنائے جا رہے ہیں۔

اگر ڈرامہ بنانے والوں سے پوچھا جائے کہ آپ ایسے ڈرامے کیوں بناتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پبلک دیکھنا ہی یہی چاہتی ہے۔ حالانکہ لوگوں کو جو دکھایا جاتا ہے وہ یہی دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس دیکھنے کو کچھ اور نہیں ہوتا۔

آخر میں فقط اتنا عرض ہے کہ اگر حکام بالا اور پیمرا نے اس چیز پر توجہ نہ دی تو مستقبل قریب میں اغلام بازی، سگے بھائی اور سگی بہن کے عشق کو بھی دکھانے میں قباحت محسوس نہیں کی جائے گی۔ یہ لوگ شاید دین کو بھی ایک دن مذاق بنانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments