پوری دنیا میں کم وبیش 7139 اور پاکستان میں کل 76 زبانیں بولی جاتی ہیں


پوری دنیا میں کم وبیش 7139 اور پاکستان میں کل 76 زبانیں بولی جاتی ہیں بہت سی کو لاحق خطرات ہیں۔

خیبر پختونخوا کے دور افتادہ ضلع چترال کی وادی کیلاش ساڑھے چار ہزار آبادی نہ صرف اپنے مخصوص ثقافت کی وجہ سے دنیا میں الگ پہچان رکھتی ہے بلکہ مقامی آبادی کی اپنی ہی زبان ہے اس وقت کیلاش قبیلے کی ثقافت اور زبان کو کئی خطرات درپیش ہیں، مقامی سماجی کارکن اور فلم میکر پر اونہ جان نے کہا کہ یونانی حکومت کے مالی تعاون سے 1990 میں کیلاشہ زبان ترقی کے لئے ایک منصوبے پر کام شروع ہوا جس کے لئے باقاعدہ ایک عمارت بھی تعمیر کرائی گئی ان کے بقول کیلاش زبان کے خروفی تہجی، کہاوت، روایتی قصے اور عبادت کے کلمات کو محفوظ بنا کر اس کو کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا تاہم منصوبے پر کام کرنے والے 2008 میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا ہوئے جبکہ چند مہینے بعد ان کے رہائی تو ملی لیکن حکومت کی طرف سے دوبارہ کام کی اجازت نہیں دی گئی۔

زبیر توروالی کا تعلق ضلع سوات کی تحصیل بحرین سے ہے اور خود ادارہ برائے تعلیم و ترقی (IBT) کے سربراہ ہیں اور تعلیمی و لسانی ماہر ہونے کے ساتھ شمالی پاکستان میں اقلیتی لسانی قومیتوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کل 76 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو، پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی اور ہندکو کے بارے میں لوگ جانتے ہیں لیکن دیگر 68 زبانیں ایسی کہ جن کے بارے میں بیشتر پاکستانیوں کو خبر تک نہیں جن میں شینا، کھوار، کوہستانی، توروالی، گاؤری، ڈھاٹکی، تھری، بروششسکی، بلتی، وخی اور ارمڑی (برکی) وغیرہ شامل ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا ثقافتی لحاظ سے بہت متنوع ہے اور یہاں پشتو، ہندکو اور سرائیکی کے علاوہ بھی بیس سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ضلع چترال میں بارہ زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں کھوار، کلاشہ، پلولہ، یدغا، گوارباتی، شیخانی، دری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

زبانوں کے ڈیٹا ایتھنولاگ کی تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں کم وبیش 7139 زبانیں بولی جاتی ہیں تاہم دیگر زبانوں میں کئی زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں کہ ان زبانوں کی ترویج و تدوین کے لئے سرکار کی طرف سے خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ہے۔ صوبے میں پشتو اور ہندکو کے لئے اکیڈمیز موجود ہیں لیکن دیگر زبانوں کے لئے ایسا کوئی سرکاری ادارہ کام نہیں کر رہا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی دور حکومت میں علاقائی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے ایک ادارے کے قیام کے لئے سن 2012 ء میں قانون سازی کی تھی لیکن دور اقتدار کی مدت پوری ہونے کے بعد یہ منصوبہ بھی ادھورا ہی رہ گیا جبکہ صرف ہندکو زبان کی ترقی کے لئے فنڈز ایک غیر سرکاری تنظیم نے فراہم کیے ۔

قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے حسین اور تاریخی وادی کانی گرم میں صدیوں سے برکی ( اور مڑی) زبان بولی جا رہی ہے۔ اس زبان کو بولنے والے برکی قبائل کی آبا دی تقریباً 50 ہزار نفوس سے زیادہ ہے۔ ان قبائلیوں کے متعلق بتایا جا رہا کہ یہ قبائل مسلم جنگجو حکمران محمود غزنوری کے دور حکومت میں 1125 ء میں آئے تھے۔ یہ قبیلہ محمود غزنوی کا قابل اعتماد فوج تھا جس نے سومنات کی جنگ لڑ کر فتح حاصل کی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کی والدہ شوکت خانم کا تعلق بھی اس قبیلہ سے تھا۔

اکتوبر 2009 ء میں انتہا پسندوں کے خلاف جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات شروع ہونے کی وجہ سے دوسرے قبائلیوں کی طرح کانی گرم کے برکی قبائلیوں نے بھی نقل مکانی کرتے ہوئے ضلع ٹانک، ڈیرہ اسمعیل خان اور ملک کے دیگر شہروں میں پناہ لے لی دیگر شہروں میں قیام کی وجہ سے ان کے بچے سرائیکی، پشتو اور دیگر زبانیں بولنے والے بچوں سے ان ہی کی زبان میں بات چیت کرتے جس کی وجہ سے چھوٹے بچے اپنی برکی زبان بھول کر سرائیکی اور دوسری زبانیں سکھ رہے ہیں

برکی زبان کو لاحق خطرات پر گہری نظر رکھنے والے ملک رفیع برکی کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیر ستان میں آپریشن راہ نجات کی وجہ سے مقامی افراد کی نقل مکانی کی وجہ سے یہ زبان معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے شہروں میں رہائش پذیر برکی قبیلے کے بچے اپنی مادری زبان کے بجائے وہ دیگر زبانیں سکھ رہے جو کہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔

کہا جاتا ہے کہ فرد اور قوم کی شناخت میں زبان جنس اور مذہب شناخت کا اہم ترین جز ہیں۔ لوگ زبان کے ذریعے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ اگر یہ زبانیں مٹ گئیں تو افراد اور قوم شناخت کے بحران سے دو چار ہوتی ہیں جو آگے جاکر ایک قومی المیہ میں بدل سکتا ہے۔

ضلع سوات میں پشتو بڑی زبان ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بالائی سوات میں توروالی، گاؤری، گوجری، اشوجو اور کھوار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ضلع دیر بالا میں پشتو کے علاوہ گاؤری اور کلکوٹی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کوہستان کے تینوں اضلاع میں کوہستانی، شینا، بٹیری اور گوارو زبان بولی جاتی ہیں۔

دستاویزات کے مطابق مردم شماری میں خیبر پختون خوا کی صرف تین زبانوں پشتو، ہندکو اور سرائیکی کو شامل کیا گیا تھا۔ صوبے میں پشتو اور ہندکو بولنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور اسی طرح ان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی زیادہ ہے۔

صوبائی حکومت نے سکولوں میں پڑھائی کے لئے مادری زبانوں میں کیلاشہ کو شامل نہیں کیا ہے۔ پر اونہ جان کا کہنا ہے کہ کیلاش وادی میں 2002 تک ایک امدادی ادارے کے تعاون سے کیلاشہ بچوں کو اپنے ثقافت، زبان پڑھنے اور سیکھنے کے لئے کام کر رہا تھا لیکن سکول چلانے والے بندے کو نامعلوم افراد نے گولی مارکر قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد کیلاشہ بچوں کے لئے واحد تعلیمی ادارہ بند ہو گیا اور اب مسلمان اور کیلاش ایک ساتھ پڑھتے ہیں لیکن کیلاش زبان اور ثقافت کے حوالے سے کورس میں ایک کتاب بھی شامل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی اس نایاب زبان اور ثقافت کو محفوظ بنانے کے لئے حکومتی سطح پر کچھ نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کی ثقافت اور زبان خاتمے کے خطرے سے دوچار ہے۔

سابق حکومت نے اس قانون کے ذریعے پشتو کے ساتھ چار اور زبانوں ہندکو، سرائیکی، کھوار اور کوہستانی کو بھی بتدریج ابتدائی نصاب میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور ان زبانوں کو ان علاقوں کے سکولوں میں پڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا جہاں سکولوں میں ان زبانوں کے بولنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہو۔ اس سلسلے میں کھوار، ہندکو اور سرائیکی کے لئے بچوں کے لئے ابتدائی قاعدے بھی تیار کیے گئے جبکہ کوہستانی زبان کے لئے ایسا کام شینا اور کوہستانی زبانوں کے بیچ تنازعے کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ یہاں تک کہ عوام مطالبہ کر رہی تھی کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ضلع کوہستان کی شینا زبان کو بھی اس منصوبے میں شامل کرے۔

خیبر پختونخوا میں بسنے والے ان زبانوں کی قومیتیں ایک عرصے سے حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس ایکٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے جس میں ان ساری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے ایک ادارے کے قیام کے لئے قانون سازی کی ہے مگر ابھی تک حکومت نے اس پر کوئی عمل نہ کیا۔

ان زبانوں کے بولنے والوں میں اپنی زبانوں کو لاحق خطرے کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے اور ان قومیتوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور سماجی و لسانی کارکن اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

زبیر توروالی کا مزید کہنا ہے کہ یہ زبانیں ابلاغ کے ذرائع ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تاریخ اور ثقافت کی امین بھی ہیں۔ اگر یہ مٹ گئیں تو ان کے ساتھ یہ تاریخ، علمی خزانہ اور دیسی حکمت کے چشمے خشک ہوجائیں گے، مزید براں یہ لوگ اپنی الگ شناخت کھو دیں گے جس سے امن کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔

زبیر مزید کہتے ہیں کہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ان زبانوں اور ثقافتوں کو ساتھ لے کر اگے بڑھا جائے۔ کیونکہ دنیا اب جدیدیت کے دور میں ہے جہاں یکسانیت اور بڑے بیانئے دم توڑ رہے ہیں ؛ لوگ تنوع کو قبول کر رہے ہیں جبکہ پاکستان بدقسمتی سے ابھی تک جدیدیت اور نو آبادیت کے قومی بیانئے میں گھرا ہوا ہے جہاں لسانی و ثقافتی تنوع کو یک جہتی کے لئے ابھی تک خطرہ سمجھا جاتا ہے، پاکستان کو اس خبط سے نکلنا ہے کیوں کہ دنیا کی دیگر قومیں اس سے نکل چکی ہیں۔ مثلاً پنجابی زبان پاکستان میں نصاب میں شامل نہیں لیکن برطانیہ میں اسے شامل کیا گیا ہے۔

برکی زبان کو ترویج دینے کے لئے معروف شعرا ء اور گلوکاروں نے اس زبان کو اپنی شاعری میں بہت عزت بخشی ہے جن میں شاعر روئیدار برکی، روزی خان برکی اور معروف گلوکار شوکت شوگیر وزیر اور ڈاکٹر عطا کے نام قابل ذکر ہیں۔

مقامی صحافی ملک عرفان الدین برکی سے جب اس سلسلے میں رابطہ قائم کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اکتوبر 2009 ء میں جب سے برکی قبائلیوں نے دوسرے قبائلیوں کی طرح نقل مکانی کی اور دوسروں علاقوں میں آباد ہوئے جس کی وجہ سے برکی زبان کو خطرات لاحق ہو گئے تھے اور زبان بولنے میں کمی آ گئی ہے جب حکومتی عہدیداروں کے ساتھ اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو کوئی تسلی بخش موقف سامنے نہیں آ سکا۔

زبان کا کردار تعلیم میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ مادری زبان میں ابتدائی تعلیم بہت موثر اور فطری ہوتی ہے اور ساری دنیا کی تعلیمی تحقیق اس سے متفق ہے۔ زبان کی اس تعلیمی اہمیت کو مدنظر رکھ کر ان زبانوں کو نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ اس سے یہ زبانیں اور ثقافتیں مٹ جانے سے بچیں گی اور ساتھ تعلیم معیاری اور فطری بن جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments