خانوادۂ استاد اللہ دتہ پری پیکر


ریڈیو، اسٹیج، فلم، ٹیلی وژن کے نامور ستار نواز اور موسیقار جاوید اللہ دتہ
ریڈیو، فلم، اسٹیج اور ٹیلی وژن کے نامور گٹار پلیئر اور موسیقار اختر اللہ دتہ
نامور گٹار پلیئر، ارینجر اور موسیقار (شہید) قمر اللہ دتہ
ٹیلی وژن اور اسٹیج کے بیس گٹار پلیئر شہزاد اللہ دتہ
ٹیلی وژن اور اسٹیج کے گٹار پلیئر عشرت اللہ دتہ
معروف فنکار راحت فتح علی خان کے ساتھ بیس گٹار بجانے والے کشور اللہ دتہ
ریڈیو، اسٹیج، فلم، ٹیلی وژن کے نامور ستار نواز اور موسیقار جاوید اللہ دتہ:

” ہر اولاد اپنے باپ کے بارے میں اچھا ذکر کرتی ہے۔ اب میں اپنے والد کے لئے کیا تعریف کر سکتا ہوں۔ یہ تو دنیا جانتی ہے! ہم تو کراچی میں پیدا ہوئے اور یہیں ساری زندگی گزر گئی۔ اس سے پہلے کا جو کچھ بھی ہے وہ مجھے تھوڑا بہت خود انہوں نے بتایا یا پھر ہم نے اپنے بڑوں سے سنا وہ ہی ہمارے علم میں ہے۔ میرے والد تو ایک دیہاتی اور بہت تھوڑی سی زمین رکھتے اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔ میرے دادا رحیم بخش پرور دگار ان کی مغفرت فرمائے، کے پانچ بیٹے تھے۔ ان میں سے بس میرے والد صاحب ہی نے یہ کام کیا باقی

بیٹے کھیتی باڑی ہی میں لگے ر ہے۔ میرے والد گجرات شہر چلے گئے۔ وہاں پہ طبلہ کے نامور استاد نبی بخش تھے۔ والد صاحب ادھر قریب ہی رہتے تھے انہوں نے استاد نبی بخش صاحب سے طبلہ سیکھنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ ذوق و شوق اتنا بڑھا کہ والد صاحب استاد کے ہاں ہی رہنے لگے۔ سیکھنے کے علاوہ استاد صاحب کی اس طرح خدمت کی جس طرح نوکر ہوتا ہے مثلا گھر کے لئے کنویں سے پا نی لانا۔ اس زمانے میں موسیقی سیکھنے کے شاید یہ ہی مروجہ اصول بھی تھے۔ پھر والد صاحب کراچی آ کر ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے۔ ساری زندگی ریڈیو سے وابستہ رہے اور دوران ملازمت اور ڈیوٹی ہی ان کا انتقال ہوا ”۔

اپنے والد صاحب کے بارے میں اختر اللہ دتہ نے بتایا: ”وہ طبلہ میں تو یکتا تھے ہی لیکن اپنے وضع قطع، خوبصورتی، قد کاٹھ، خوش لباسی اور لمبی انگلیوں کی وجہ سے ’پری پیکر‘ کہلاتے تھے۔ میں نے انہیں گھر میں ’ہوائین گٹار‘ ایمپلی فائر کے ساتھ بجاتے خود سنا۔ وہ سارنگی بھی بجاتے تھے۔ موسیقار دیبو بھٹہ چاریہ نے فلم“ بدنام ” ( 1966 ) میں والد صاحب سے گیت: ’بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا۔ ‘ میں طبلہ بجھوایا۔ دیگر میوزیشن کے مقابلے میں میرے والد کو 300 روپے دلوائے جو کہ اس دور میں بڑی رقم تھی“ ۔

جاوید بھائی نے اپنے والد صاحب کے بارے میں مزید بتایا: ”والد صاحب کا کام بہت کمال کا تھا۔ ریڈیو پاکستان میں اپنے فن کے میدان کے ساتھیوں اور افسران میں بڑی عزت تھی۔ زیڈ اے بخاری صاحب ڈائریکٹر تھے وہ بھی والد صاحب کی بہت توقیر کرتے تھے۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان میں اندر جانا ہی بڑا مشکل تھا۔ اسی وجہ سے مجھے اس زمانے میں والد کی وجہ سے ایک مستقل پاس مل گیا۔ میں نے ستار سیکھنا شروع کر دیا۔ میرے استاد جناب مچھو خان صاحب تھے۔

سیکھتے سیکھتے جب ستار قابو میں آ گیا تو وہیں ریڈیو پاکستان میں، میں ستار پلیئر کی حیثیت سے منسلک ہو گیا۔ جنگ ستمبر 1965 کے بے شمار ملی نغموں میں بحیثیت ستار پلیئر میرا بھی حصہ ہے۔ جنگی نغمات کی دن رات ریکارڈنگ ہوتی تھی۔ باہر بلیک آؤٹ ہوتا اور ہم لوگ اسٹوڈیو میں لالٹین پر زرد رنگ کا کاغذ چپکا کے کام کرتے تھے۔ کبھی دوران ریکارڈنگ ہوائی حملے کے خطرے کے سائرن بجنا شروع ہو جاتے تھے۔ لیکن ہمارا کام جاری و ساری ہی رہتا۔ ایسے ماحول میں، میں نے اپنے باقاعدہ کام کا آغاز کیا۔ میرے والد بھی وہیں ہوتے تھے۔ 1965 سے میرا سلسلہ چلتا رہا۔ میں ریڈیو کے ساتھ شوز بھی کرتا اور فلموں کے لئے بھی بجاتا۔ اس دور میں کراچی کی فلم انڈسٹری میں اچھا خاصا کام تھا۔ یہ میری عملی زندگی کی شروعات تھی۔“ ۔

ساری زندگی کا ایک سبق:

” مجھے ریڈیو پاکستان سے اپنی پہلی تنخواہ کا جب چیک ملا تو میں نے والد کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں چاہیے۔ یہ تمہاری پہلی کمائی ہے تم اپنی ماں کو جا کے دو! یہ بھی ایک سبق کی بات ہے۔ پھر ساری زندگی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، میں جو کچھ بھی کماتا وہ والدہ کو دیتا تھا۔ پھر 1968 میں والد کے انتقال کے بعد دوسرے بھائی بھی میرے ساتھ شروع ہو گئے۔ وہ ابھی اسکول جاتے تھے۔ اختر اور شہزاد کچھ بڑے تھے اور عشرت اور کشور تو بہت ہی چھوٹے تھے۔ میں نے پھر ان کو کہا کہ اکیلا تو میں اب سارا گھر نہیں سنبھال سکتا اب تم لوگ میرے ساتھ آؤ۔ اس وقت تک میں نے ستار کے ساتھ گٹار بجانا بھی شروع کر دیا تھا“ ۔

” اچھا؟“ ۔ میں نے حیرت سے کہا۔

” جی ہاں! پھر میں نے اختر اور شہزاد دونوں کو گٹار بجانا سکھایا۔ میرے ساتھ اب ان کو بھی تھوڑا بہت کام ملنا شروع ہو گیا۔ اس دور میں میرے پاس الیکٹرانک سازوں اور ایمپلی فائر خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ ہم نے ان کے لئے پیسے جوڑنے میں سخت محنت کی۔ بڑی مشکل سے ادھر ادھر سے پکڑے کسی سے ادھار لے لیا۔ کچھ شوقین لڑکے دوست تھے ضرورت پڑنے پر ان سے یہ سامان مانگ لیا۔ پھر سہیل رعنا کے لئے ہم تینوں بھائیوں نے ایک ٹائٹل میوزک کیا۔ فلم کا نام مجھے یاد نہیں۔ پھر ہم تینوں نے ایک ڈرامہ بھی کیا جس پر سہیل رعنا بہت خوش ہوئے۔ یہ میرے ان بھائیوں کی شروعات تھی“ ۔

لاہور فلم انڈسٹری میں ستار نواز کی حیثیت سے پذیرائی:

” پھر زمانہ بدلا اور میں ستار پلیئر کی حیثیت سے لاہور فلم انڈسٹری چلا گیا کیوں کہ کراچی کی فلم انڈسٹری ختم ہو گئی تھی۔ وہاں مجھے بڑی پذیرائی ملی۔ میں نے ماسٹر عبد اللہ کے لئے جو پہلا گانا بجا یا اس میں دو ستار تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب پیس بجاتا تھا تو وہ کچھ مختلف انداز میں ہوتا۔ وہ ہی پیس دوسرے صاحب بجاتے تھے اس میں وہ بات نہیں ہوتی تھی۔ اس پر ماسٹر عبد اللہ نے پنجابی میں کہا ’اوئے! جس طرح یہ لڑکا بجا رہا ہے تو بھی ویسا ہی بجا‘ ۔

یہ میرے لئے اعزاز کی بات تھی۔ موسیقار ناشاد صاحب کے لئے فلم“ ایک رات ” ( 1972 ) کے گیت ’اک بار چلے آؤ پھر آ کے چلے جانا۔ ‘ میں، میں نے پہلی مرتبہ ستار بجائی۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ کہ جیسے ہی میں اندر داخل ہوا جہاں ریہرسل کرتے تھے وہ فوراً خوش ہو کر بولے ’ارے تم کہاں! کل آ جانا میری ریہرسل پر‘ ۔ وہ جوہری تھے کون میوزیشن کیسا بجا رہا ہے سب پہچانتے تھے۔ ان کے لئے کوئی اچنبے والی بات نہیں تھی۔ جب میں نے گانا بجایا تو بہت خوش ہوئے۔

اس کے بعد میں نے ان کے لئے بے شمار گانے بجائے۔ پھر دوسرے کمپوزروں کے ساتھ بھی کام کیا جیسے بزمی صاحب۔ ان کے ساتھ تو میں پہلے ہی کراچی میں فلم“ ہیڈ کانسٹیبل ” ( 1964 ) میں میڈم نورجہاں کی آواز میں گیت ’اے کاش میرے لب پہ تیرا نام نہ آتا۔ ‘ بجا چکا تھا۔ یہ میرا پہلا فلمی گانا ہے جس میں، میں نے ستار بجائی۔ تو بزمی صاحب مجھے کراچی سے ہی جانتے تھے۔ اس طرح ان کی بہت سی فلموں میں میری بجائی ہوئی ستار ہے۔ لاہور میں فلمی گیتوں کے علاوہ میں نے فلموں کا بیک گراؤنڈ بھی بجایا۔ اسی طرح موسیقار ایم اشرف اور تقریباً سب ہی موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ بہت سارے لوگوں کے ساتھ کام کر کے میں نے بہت اچھا تجربہ حاصل کیا۔ میں تو اسے خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ میں نے ایسے لوگوں کے ساتھ کام کیا“ ۔

” کیا اس دوران آپ نے پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز کے لئے بھی کام کیا؟“ ۔

” ہاں وہاں پہ بھی تھوڑا بہت کام کیا۔ مگر وہ دور ایسا تھا کہ جو فلم میں کام کرتا تھا وہ ٹی وی کو ثانوی حیثیت دیتا تھا۔ ان میں اداکار، لکھنے والے اور میوزک کمپوزر سب شامل تھے“ ۔

میں اور سہیل رعنا:
” جاوید بھائی آپ لاہور میں اکیلے تھے یا گھر والوں کے ساتھ؟“ ۔

” بعد میں میں اپنی فیملی لے گیا تھا۔ مگر یہ کراچی والے وہاں نہیں رہ سکتے۔ وہ سال بھر میں لاہور سے واپس کراچی آ گئے اور میں وہاں پر کام کرتا رہا۔ مجھے لاہور لے کر جانے والے سہیل رعنا صاحب تھے۔ وہ مجھے حمایت ؔعلی شاعر صاحب کی فلم“ گڑیا ” ( مکمل نہ ہو سکی) کے گانوں کے لئے اپنے ساتھ لاہور لے گئے تھے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پھر مجھے واپس کراچی بلوانے والے بھی سہیل رعنا ہی ٹھہرے۔ واپسی کے لئے یہ ہوا کہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد آدھا پاکستان چلا گیا۔

اس کی وجہ سے فلم انڈسٹری کا کام بھی متاثر ہوا کیوں کہ آدھی مارکیٹ چلی گئی۔ ایسے میں مجھے سہیل صاحب نے کہا تم کراچی آ جاؤ میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی سے منسلک ہو گیا ہوں تم بھی یہاں آ جاؤ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر میں کراچی آ کر اکیڈمی سے منسلک ہو گیا اور اس کے بند ہونے تک رہا۔ پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی وجہ سے پوری دنیا گھوم لی۔ وہ میری زندگی کا بہت اچھا اور نا قابل فراموش تجربہ رہا۔ بہت اچھی اچھی جگہوں پر ہمارے بڑے زبردست ٹوئرز ہوتے تھے۔ جیسے امریکہ میں میڈیسن اسکوائر گارڈن، نیو یارک اور دیگر بڑے شہروں، کینیڈا، فرانس، اسپین وغیرہ۔ ہم نے شوز کیے اور خوب گھوم لئے“ ۔

” جب کراچی میں ہوتا تو صبح پی آئی اے اکیڈمی میں نوکری ہوتی۔ شام اور رات کو ہماری کمرشل / اشتہارات کی ریکارڈنگ ہوتی۔ کمپوزر وہیں بیٹھ کر کمپوز کرتے تھے“ ۔

” انجم آفندی صاحب کا بڑا نام تھا۔ ان کے ساتھ بھی آپ نے کام کیا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جی ہاں! وہ میرا بہت اچھا دوست تھا۔ گٹار بجانے میں بھی بہت سمجھ دار آدمی تھا۔ ایسا ہوا کہ انجم آفندی، اعظم شیخ اور کچھ دوستوں کا ایک گروپ بن گیا۔ کبھی کبھار ہم لوگ اسٹیج پر بھی مل کر بجاتے تھے۔ ریکارڈنگ تو چل ہی رہی تھیں۔ انجم، کمرشل کے خاص طور پر بہت اچھے کمپوزر رہے ہیں۔ اس کے بنائے ہوئے جنگلز آج تک چلتے ہیں۔ اس وقت ایڈورٹائزنگ ایجنسی ایم این جے کا تقریباً سب کام انجم آفندی نے ہی کیا۔ اس نے انگلش اردو دونوں کے جنگلز بنائے۔ اس زمانے میں پکی پکائی روٹی کا جنگل بہت مشہور ہوا تھا اس کا میوزک ہم سب نے مل کر کیا تھا“ ۔

الیکٹرک ستار کا تجربہ:
” جاوید بھائی آپ نے الیکٹرک ستار کا کوئی تجربہ کیا تھا۔ اس کے بارے میں بتائیے“ ۔

” میرے پاس الیکٹرک گٹار کا پک اپ ہیڈ تھا وہ ستار کی تاروں میں پھنسا لیا اور اس طرح ایک الیکٹرک ستار بنا لی۔ اس سے ستار کی آواز کچھ مختلف ہو گئی“ ۔

” بنگالی فوک میوزک ’بھویا‘ کا کیا پس منظر ہے؟“ ۔

” بھویا بنگال کا ایک فوک گانا ہے۔ رونا لیلیٰ اور اس کی بہن دینا لیلیٰ ریڈیو پر یہ گاتی تھیں۔ وہ گانا مجھے بھی اچھی طرح یاد ہو گیا۔ تو جب ہم میوزیشن دوست آپس میں مشق کرنے بیٹھے تو میں نے انجم اور اعظم شیخ کو یہ گانا سنایا اور کہا کہ اس کو تھوڑا جدید کر دو۔ اب تو میوزک میں الیکٹرانک اثرات کا انقلاب آ چکا ہے اس وقت تو الیکٹرک ستار نئی بات تھی لوگوں کو اچھا بھی لگا۔ اس زمانے میں پی ٹی وی کراچی سے ایک پروگرام ’میری میکرز‘ ہوتا تھا جس کے کمپیئر غالباً محمود سپرا تھے۔

میں نے اس پروگرام میں الیکٹرک ستار پر بھویا بجایا۔ یہ عوام میں بہت زیادہ مقبول ہوا۔ ستار پر بھویا ٹیلپ میوزک کے طور پر بجنا شروع ہو گیا۔ روزانہ بھویا کسی نہ کسی پروگرام کے ٹیلپ کے پس منظر میں چلتا تھا۔ پھر اس کے بعد اس کا گراموفون ریکارڈ بھی بنا۔ اس کے ساتھ ہی رونا لیلیٰ اور دینا لیلیٰ کا ایک ای پی بھی بنا لیکن ان کا بھویا بھی اسی شکل میں تھا جیسا میں نے کیا تھا“ ۔

” اچھا! “ ۔ میں نے بے اختیار کہا۔
” بھویا کے بعد کچھ مزید لوک دھنیں ہم سب نے مل کر کیں“ ۔
” کیا سہیل رعنا صاحب کا مشہور ایل پی خیبر میل میں بھی آپ نے ستار بجائی؟“ ۔
” نہیں وہ میں نے نہیں کیا۔ ایک دوسرے گروپ ’فور تھوٹس‘ یا ’بگز‘ نے کیا تھا“ ۔
اسٹیج پر محمد علی شہکی بینڈ:
” اسٹیج پر محمد علی شہکی کے ساتھ آپ لوگوں کا بینڈ بہت زیادہ مقبول ہوا تھا۔ یہ کس کی سوچ تھی؟“ ۔
” وہ خیال اختر کا تھا۔ یہ گروپ بھی اسی نے قائم کیا تھا“ ۔
” اس سے پہلے اس طرح کی ساؤنڈ لوگوں نے نہیں سنی تھی۔ کچھ اس بارے میں بتائیے“ ۔

” یہاں پر ساؤنڈ مکسر کسی بھی ساؤنڈ والے کے پاس تھا ہی نہیں۔ مقامی طرز کے بنے ہوئے ایمپلی فائر ہوتے تھے۔ ایک پروگرام کے لئے ہم لوگ دبئی گئے تھے۔ یہ شاید 1981 کی بات ہو گی۔ واپسی پر میں 06 چینل کا ایک چھوٹا ساؤنڈ مکسر لیتا آیا۔ اس سے ہمارے بینڈ کی آواز بہت زبردست ہو گئی۔ دوسرے میوزیشن اور ساؤنڈ والے وہ ہی مقامی بنے ہوئے ایمپلی فائر اور ہارن والے اسپیکر پر اپنے شو اور گانے کرتے تھے۔ ہمارا یہ ساؤنڈ سسٹم ’شہکی کا گروپ‘ کے نام سے مخصوص تھا اس میں ہمارا فائدہ یہ ہوا کہ گانوں کے علاوہ پورا فنکشن ہمارے ساؤنڈ سسٹم پر ہوتا تھا۔ اس وقت کسی بھی فنکشن کرنے، کروانے والوں کے پاس یہ چیزیں نہیں تھیں۔ ہمارا یہ دیسی گروپ تھا۔ ویسے جو بینڈ ہوٹلوں میں بجاتے تھے جیسے ’فور تھوٹس‘ اور ’بگز‘ ان کے پاس بڑے بڑے ایمپلی فائرز اور بڑا زبردست سامان تھا۔ ہم اتنے مال دار تو نہیں تھے کہ یہ ساری چیزیں خرید لیتے“ ۔

پاکستان ٹیلی وژن کراچی کا پروگرام سلور جوبلی:

” پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں کمپوزر کی حیثیت سے آپ کا پہلا پروگرام کون سا تھا؟“ ۔ میں نے جاوید بھائی سے پوچھا۔

” مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، شاید ’رنگ ترنگ‘ تھا جو شعیب منصور کرتا تھا۔ یہ وہ پروگرام تھا جو کمپوزر کی حیثیت سے میں نے اور اختر دونوں نے سب سے پہلے کیا“ ۔

” پہلا گانا کون سا تھا؟ کیا وہ دھن پر لکھوایا تھا یا لکھے ہوئے گیت پر دھن بنائی؟“ ۔
” یہ بالکل یاد نہیں! “ ۔
” کچھ پروگرام ’سلور جوبلی‘ کے بارے میں بتائیے؟“ ۔ میں نے سوال پوچھا۔

” ابھی سلور جوبلی کا فارمیٹ بن رہا تھا کہ اس میں پرانے گانے گائے جائیں گے۔ اس وقت تک کسی کمپوزر کا انتخاب نہیں ہوا تھا۔ اس پروگرام کے حصول کے لئے میں نے خود ہی کوشش کی۔ شعیب سے میں نے کہا کہ یہ پروگرام میں کروں گا۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ گانوں کو اصل کی مانند ’ری ڈو‘ کرنا تھا۔ یہ پروگرام بڑا کامیاب ہوا۔ اس پروگرام سے کئی نئے سنگر بھی روشناس ہوئے“ ۔

” بنجمن سسٹرز کو پروگرام میں لانے والا کون تھا؟“ ۔

” میں اور شعیب دونوں ہی بنجمن سسٹرز کے گھر گئے تھے۔ وہ جنگلز وغیرہ گاتی تھیں لیکن ٹیلی وژن میں ان کے گانے کا کوئی رجحان نہیں تھا۔ پہلی مرتبہ کسی پروگرام میں آئیں اور کلک ہو گئیں“ ۔

” آپ کی مصروفیات ٹیلی وژن، کمرشل اور اسٹیج شوز پر تھیں۔ کیا اس دوران کبھی آپ نے سوچا کہ مجھے لاہور کی فلم انڈسٹری میں چلے جانا چاہیے؟“ ۔

” یہ وہ زمانہ ہے جب فلم لائن بھی زوال پذیر تھی۔ بلکہ فلم انڈسٹری کے اچھے وقت کا آخری دور تھا۔ مجھے دو فلمیں کرنے کو ملیں۔ ایک“ دشمنوں کے دشمن ” ( 1989 ) جس کے فلمساز فرقان حیدر اور ہدایتکار محمد جاوید فاضل تھے۔ فرقان حیدر نے طے کیا کہ باقی ساری چیزیں تو لاہور سے آ رہی ہیں لیکن میوزک ڈائریکٹر کراچی سے لینا ہے۔ اس فلم میں سارے گانے میڈم کے تھے۔ میری دوسری فلم“ خواہش ” ( 1993 ) تھی“ ۔

ملنا فلم ”خواہش“ کا:

مجھے فلم ”خواہش“ ملنے کا پس منظر یہ ہے کہ میں نے ٹی وی کے ایک ڈرامہ سیریل ”ستارہ اور مہر النساء“ کے لئے راگ۔ ’دیس‘ میں ٹائٹل سونگ بنایا جو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اس فلم کے فلمساز معین الرحمن نے مجھے ٹائٹل سونگ سننے کے بعد بلوایا۔ اس ملاقات میں فلم کے ڈائریکٹر نذرالاسلام بھی موجود تھے۔ ان دونوں نے مجھے اس فلم کا میوزک ڈائریکٹر منتخب کر لیا۔ اس فلم میں صرف تین چار گانے تھے۔ لیکن اس فلم کے ساتھ زیادتی بھی تھی۔

وہ 70 ایم ایم میں بنائی گئی تھی۔ خرچا بھی 35 ایم ایم کے مقابلے میں زیادہ پھر اس گیج کی فلم چلانے کے پروجیکٹر اور سنیما کہاں سے ملتے؟ ہر سنیما کے لئے پھر آپ کو علیحدہ سے ایک لوازمہ / سامان دینا پڑتا جو اس فلم کو صحیح طور پر چلا سکتا۔ یہ ایک بڑا درد سر ہو گیا اور یوں ایک اچھی فلم سنیما دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز نہ بن سکی ”۔

” آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کراچی سے کیا پھر لاہور فلم انڈسٹری میں چلے گئے پھر واپس کراچی آ گئے۔ پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے زمانے میں کئی کئی دن بیرون ملک رہے اس دوران بچوں کی تعلیم و تربیت کیسے ہوئی؟“

” نہیں! میں کوئی اتنا زیادہ عرصہ اپنے گھر والوں سے دور نہیں رہا۔ اس میں تھوڑا عرصہ میں لاہور میں رہا پھر واپس آ گیا۔ میں پھر اپنی فیملی کے ساتھ ہی رہا سوائے اس کے کہ جب امریکہ، کینیڈا، یورپی اور دیگر ممالک پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی طرف سے گیا۔ مجھے امریکہ نقل مکانی کرنا تھا لیکن آخری لمحات پر میں نے بچوں کی وجہ سے ٹکٹ واپس کر دیا۔ اس کے بعد پھر میں نے یہ خیال ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔ بچوں پر توجہ دی کہ کام تو ہم دن رات کرتے تھے اس میں یہ بھی ہوتا تھا کہ میں ساری رات ریکارڈنگ کر کے آیا ہوں اور صبح پانچ چھ بج رہے ہیں بچوں نے سات آٹھ بجے اسکول جانا ہے تو میں نیچے گاڑی میں ہی بیٹھا رہتا تھا کہ اوپر جا کر اگر میں لیٹ گیا تو پھر میں ان کو اسکول چھوڑنے کے لئے اٹھ نہیں سکوں گا۔

اسکول چھوڑ کر واپس آ کر پھر تھوڑی دیر کو سوتا تھا۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میں ریکارڈنگ میں پھنسا ہوا ہوں اور بچوں کو اسکول سے لینا ہے۔ میں نے ہمیشہ انہیں خود اسکول چھوڑا اور لیا۔ کبھی وین نہیں لگوائی۔ یہ صرف ایک دفعہ کیا تھا اور وین خراب ہو گئی۔ بچے لیٹ ہو گئے۔ میں نے چار چکر اسکول کے لگا لئے۔ وہاں یہ ہی بتلایا گیا کہ وین تو بچوں کو لے کر چلی گئی تھی۔ وہ دو گھنٹے ہمارے لئے قیامت بن گئے“ ۔

” جاوید بھائی ریکارڈنگ میں بچوں کے لیے وقت نکالنا تو بہت ہی مشکل کام ہوتا ہو گا؟“ ۔
” بے شک! لیکن اور کوئی صورت بھی تو نہیں تھی۔ بس یہ سارا کرنا ہی پڑا! “ ۔
” آج ماشاء اللہ آپ کے بچے اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں! “ ۔

” میرا بڑا بیٹا احسن شہباز یو اے ای میں بینکر اور اپنے شعبے کا ہیڈ ہے۔ دوسرا بیٹا محسن شاہباز ہے۔ وہ کبھی کبھی اپنے نام کے ساتھ اللہ دتہ بھی لکھ دیتا ہے۔ اسے میں نے اپنے ساتھ ہی کام شروع کروایا تھا۔ اس نے کمپنی بنائی ہوئی ہے اس نام سے وہ کام کرتا ہے۔ محسن کمپوزیشن اور بیک گراؤنڈ کرتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر کئی ایک مقبول ٹی وی ڈراموں کا کام کیا ہے۔ جو اس سے چھوٹا ہے وہ ایک ٹی وی چینل کے شعبہ مارکٹنگ سے منسلک ہے۔ اس سے چھوٹا بھی ایک شپنگ کمپنی کی مارکٹنگ ہی میں اچھی پوسٹ پر ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا

بڑا شکر ادا کرتا ہوں ”۔
” کوئی ان میں سے ستار یا گٹار کا بھی میوزیشن ہے؟“ ۔

” کوئی بھی نہیں۔ میرے بڑے بیٹے احسن کا تو اس طرف بالکل ہی رجحان نہیں تھا۔ کچھ میری بھی خواہش تھی کہ وہ یہ کام نہ کرے۔ شروع شروع میں دوسرے بیٹے محسن کو کوشش کے باوجود ملازمت نہیں ملی بلکہ یہ کہا گیا کہ تم تو میوزک کمپوزر کا کام کرتے ہو اتنا نام ہے تمہارا۔ تمہیں تو بڑے اچھے پیسے ملتے ہیں اب تم بیس پچیس ہزار کے لئے کیا نوکری کرو گے! بہتر ہے تم وہ ہی کرتے رہو۔ حالاں کہ جب اس کے کام میں اتار آتا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی کہ بلا وجہ اس کی زندگی خراب کرنے والا کام کروا دیا۔ خیر اللہ کا شکر ہے کہ اس کا کام بہت بہتر ہو گیا“ ۔

” کیا وہ اب خوش اور مطمئن ہے؟“ ۔
” ہاں! وہ اب ماشاء اللہ خوش ہے“ ۔
” وہ کیا بات ہے کہ آپ کے ایک پوتے نے ستار سیکھنے کی بات کی! “ ۔

” وہ یوں ہوا کہ جب میں گھر پر ریاض کرتا تھا تو محسن کا بیٹا بیٹھا رہتا۔ میں کہتا کہ بجانا ہے؟ وہ کہتا ہاں! بجاؤں گا۔ میں ستار اس کے ہاتھ میں دے دیتا تھا۔ شاید وہ سیکھ بھی لیتا۔ محسن اور اس کی بیوی کچھ زیادہ ہی مذہبی ہیں۔ پھر میں نے بھی کہا کہ نہیں! “ ۔

” آپ نے ریڈیو، فلم، ٹیلی وژن، کمرشل اور اسٹیج پر ماشاء اللہ ایک بھرپور اور کامیاب کام کیا۔ کیا آپ اپنے کام سے مطمئن ہیں؟“ ۔

” اللہ کا بڑا کرم ہے! میں بتا نہیں سکتا ہوں۔ اتنی شکر گزاری مجھ سے ہو ہی نہیں سکتی! کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ کا جتنا شکر کروں کم ہے“ ۔

مشرقی اور مغربی موسیقی کا فیوژن:

” آپ نے مشرقی اور مغربی موسیقی کو یکجا کر کے تجربہ کیا تھا : ’تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا۔ ‘ ۔ اس کے بارے میں بتائیے“ ۔

” اس کا پس منظر اور سوچ ساحرہ کاظمی کی تھی۔ ہم نے شالیمار ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں جا کر آڈیو ریکارڈ کر لیا۔ مشرق اور مغرب کی موسیقی کا فیوژن تو ہمارے ہاں شاید ہوا ہی نہیں تھا اس لئے میں اندر سے بڑا ڈرا ہوا تھا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ اس نے کیا الٹا سیدھا کام کر دیا۔ مگر وہ گانا جب چلا تو ہر طرف ایک دھوم مچ گئی“ ۔

” کیا شاہ لطیف بھٹائی کے سندھی کلام کا اردو ترجمہ شبی ؔ فاروقی صاحب نے پہلے سے لکھا ہوا تھا یا آپ کے ساتھ بیٹھ کر لکھا“ ۔

” یہ فوک ٹیون تو پہلے کی تھی اس پر انہوں نے پہلے ہی لکھ دیا تھا“ ۔
” ا لن فقیر سے کام لینا کیسا لگا؟“ ۔
” بڑا مشکل تھا! میں نے اس کو دو دن اپنے گھر میں رکھا تھا“ ۔
” ارے! واہ! “ ۔
” وہ حیدرآباد سے آتا تھا اب یہاں کہاں رہتا“ ۔
” اس میں ساؤنڈ ریکارڈسٹ کون کون تھے؟“ ۔
” میرا خیال ہے اختر صاحب ہی تھے جو پہلے ای ایم آئی میں ہوتے تھے“ ۔
” جاوید بھائی الن فقیر اور محمد علی شہکی کا یہ گیت بے شک آپ کی پہچان بنا! “ ۔

” جی ہاں! پھر سنگا پور میں ایک مقابلہ بھی منعقد ہوا تھا ہم سب اس میں شریک ہوئے تھے۔ جس وقت وہ گانا وہاں چل رہا تھا اس کی ٹیمپو /چلت وہاں کے کنڈکٹر نے کچھ زیادہ تیز کر دی تھی لہٰذا وہ اصل والی بات پیدا نہ ہو سکی“ ۔

” جاوید بھائی آج کل پاکستان ٹیلی وژن نے موسیقی کے پروگراموں کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔ کسی بھی مرکز سے کوئی نیا کام نظر نہیں آتا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟“ ۔

” نئے گانے نہیں ہو رہے۔ میں اس کو نہ تو برا اور نہ اچھا کہہ سکتا ہوں۔ کیوں کہ جب کچھ ہے ہی نہیں تو میں برا یا اچھا کس کو اور کیسے کہوں! “ ۔

” کیا یہ ارادتا کیا گیا ہے یا پھر ہمارے ہاں نئے ٹیلنٹ کو ڈھونڈنے والے نہیں رہے؟“ ۔

” ٹیلنٹ تو ہے۔ مگر اس کو جس پلیٹ فارم پر تلاش کرنا ہے وہ آپ کے پاس ہے ہی نہیں! تو وہ ٹیلنٹ کیا نکلے گا۔ پھر ری مکس گانے بھی ایک سبب ہیں۔ بھئی جب اصل چیزیں بنی ہوئی اور موجود ہیں ان کا تو جواب ہی نہیں! “ ۔

” چلتے چلتے کوئی تجویز کہ موسیقی کی بہتری کے لئے کیا ہونا چاہیے“ ۔
” اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا“ ۔
” کچھ بھی نہیں ہو سکتا؟“ ۔ میں نے حیرت سے کہا۔

” ہاں اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ پہلے لوگوں کے آئڈیل سنگر مہدی حسن، نورجہاں، لتا منگیشکر، محمد رفیع ہوتے تھے۔ اب کچھ اور آئڈیل ہیں۔ اب سب لکیر کے فقیر ہو گئے۔ ہمارے زمانے میں ٹی وی کے گانوں سے ٹی وی ڈراموں کے ٹائٹل سونگ مختلف ہوتے تھے۔ ان سب کچھ ایک سا ہو گیا۔ پتا نہیں کیا ہے! سمجھ میں نہیں آتا“ ۔

” آپ کو بحیثیت کمپوزر دھن پر لکھوانا آسان لگا یا لکھے ہوئے پر دھن بنانا؟“ ۔

” میں دونوں کام یکساں آسانی سے کر لیتا تھا۔ بے شمار گانے غزلیں اور ستارہ مہر النساء کا گانا لکھا ہوا تھا اس پر دھن بنائی۔ اسی طرح بہت سے ایسے گانے بھی ہیں جن کی میں نے پہلے دھن بنائی اس پر شاعر نے لکھ دیا۔ میں نے ٹی وی پر میسر تقریباً سب ہی شعراء کے ساتھ کام کیا اور اساتذہ کے کلام کی دھنیں بھی بنائیں“ ۔

” کیا لوگ آپ کے پاس حمد، نعتیں، منقبتیں، مرثیہ اور نوحے بنوانے کے لئے آتے ہیں؟“ ۔

” لوگوں نے اس کام کو پروفیشن بنا لیا ہے جو یہ کام نہیں ہے۔ لہٰذا سوائے صہباؔ اختر صاحب کی ایک حمد اور نعت کے میں نے اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ ان میں سے ایک محمد افراہیم کی آواز میں ریکارڈ ہوئی تھی۔ پھر اسی کو سلیم شہزاد نے بھی پیش کیا تھا“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ”فلم اور ٹی وی میں تقریباً سب ہی میسر فنکاروں نے میری کمپوزیشن کو گایا۔ میں نے جیسا سوچا سب ہی نے ویسا کر دکھایا۔ ان میں مہناز بہت سمجھ دار تھی۔ ایک ڈرامہ سیریل میں ایک مشکل راگ میں ایک مشکل گانا مہناز کے لئے بنایا تھا جو اس نے بہت اچھا گایا۔ اس کے علاوہ انور مقصود کے لکھے ڈرامے ’غالب ان امریکہ‘ کے لئے غالبؔ کی غزلیں بھی مہناز نے کمال گائیں۔ ’ذکر اس پری وش کا۔ ‘ اس نے بہت اچھی گائی“ ۔

” بہت سے لوگ رونا ہی روتے ہیں کہ مجھے یہ نہیں ملا، میرے ساتھ یہ کام اچھا نہیں ہوا۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے ایسی کوئی حسرت نہیں کہ فلاں کام میں کر لیتا تو یہ ہو جاتا۔ اللہ کا برا احسان ہے“ ۔

موسیقار اختر اللہ دتہ:

” میری کہانی کا آغاز ریفریجریٹر اور ائر کنڈیشنر کا کام سیکھنے سے ہوا۔ پھر والد صاحب انتقال کر گئے۔ میں اس وقت ساتویں جماعت میں تھا۔ جہاں میں کام کرتا تھا وہاں کچھ ایسے مسائل ہوئے کہ یونین بنی اور مجھ سمیت سب کارکنوں نے استعفے دے دیے۔ اب میں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ گٹار بجانا شروع کر دیا۔ محلے کے چند لڑکوں نے مل کر گارڈن کے علاقے میں جا کر ایک کلب کرایہ پر لے لیا اور ہم سب آپس میں بیٹھ کر گٹار سیکھنے لگے اور آہستہ آہستہ فنکشنوں میں جانے لگے۔ ان میں زیادہ پیسے نہیں ملتے تھے لیکن فنکشن میں بجانے کا تجربہ ہو گیا۔ چھوٹے بڑے پروگرام کرنے لگے جیسے سالگرہ کا فنکشن یا کوئی اور۔ سب سے زیادہ فنکشن لیاری میں ہوتے تھے“ ۔

” ارے واہ! “ ۔ میں نے حیرت سے کہا۔

” جی ہاں! کون سا بڑا سنگر ہے جس نے لیاری میں نہیں گایا۔ استادوں نے بھی وہاں گایا جیسے استاد قدرت اللہ خان۔ وہاں کے لوگ سننے والے تھے۔ اب تو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے! پھر فنکشنوں سے ٹیلی وژن کا کام شروع کیا۔ اس وقت ساز بجانے والے کم تھے۔ کوئی ہے تو اس کے پاس کی بورڈ نہیں یا گٹار نہیں۔ ایسے میں وہ میوزیشن کرایہ پر ساز لاتے تھے۔ پھر الیکٹرک گٹار کا رواج ہوا جس کے ساتھ ایمپلی فائر بھی ضروری تھا جو ہمارے پاس نہیں ہوتا تھا۔ صدر میں ایک دکان سے ایمپلی فائر کرایہ پر لے کر ٹی وی کے پروگرام بجاتے تھے“ ۔

” لاہور فلم انڈسٹری سے منسلک ہونے کا پس منظر کیا ہے؟“ ۔

” کراچی میں کچھ ملے جلے مسائل پیدا ہو گئے جن کی وجہ سے ہمیں لاہور منتقل ہونا پڑا۔ وہاں بھی فلموں کے بہت سے گانے بجائے۔ کچھ کمپوزر کو چھوڑ کر تقریباً سب ہی میوزک کمپوزر کے ساتھ کام کیا کیوں کی وہاں میوزیشن کے بیچ بنے ہوئے تھے۔ میں نے بزمی صاحب، نذیر علی، خلیل احمد، بخشی وزیر وغیرہ کے ساتھ زیادہ گانے بجائے۔ پھر پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز میں بھی کام کیا“ ۔

” کیا آپ نے بابا پیٹر، بابا جعفر، بابا نامدار، بھائی الیاس کو دیکھا؟“ ۔

” بھائی نامدار صاحب کے ساتھ کام کیا۔ ان کا اے بیچ تھا۔ بھائی الیاس وائلنسٹ جو ارینجر بھی تھے ان کے ساتھ بھی گانے کیے یہ بھی اے بیچ کے تھے۔ پھر ایک سی بیچ تھا جو بزمی صاحب کا سارا کام کرتا تھا۔ اس میں ارینجر سلیم تھے جو بھائی نامدار صاحب کے بیٹے تھے۔ اسی طرح ڈی بیچ بھی تھا جو زیادہ تر بخشی وزیر اور بھٹی پکچرز کے گانے کرتا تھا“ ۔

پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں بحیثیت میوزک کمپوزر:

” پھر میں کراچی آ گیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں پروڈیوسر عارفین کی کسی میوزک کمپوزر سے ان بن ہو گئی۔ انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ایک پروگرام بحیثیت میوزک کمپوزر تم کرو۔ میں پہلے تو ڈر گیا کیوں کہ میری بھی روزی روٹی یہ ساز بجانا ہی تھی۔ اس پر عارفین نے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں۔ کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں سے میں نے کمپوزر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔

یہ 1976 کی بات ہے اور پروگرام کا نام“ فروزاں ”تھا۔ یہ شاید شروع کے اولین رنگین پروگراموں میں سے ایک تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے پروڈیوسر شعیب منصور کا ایک میوزک پروگرام“ جھرنے ”بھی مل گیا۔ اس میں عالمگیر کا گایا ہوا میرا گانا ’ایک ہی نام کے کتنے چہرے، چہرے یاد رکھوں یا نام‘ اللہ کے کرم سے خاص و عام میں مقبول رہا۔ میں نے ٹی وی کے کئی ایک گانے اور ڈراموں کے تھیم سونگ کیے ۔ ’یہ زندگی ہے‘ ڈرامے کا بھی ٹائٹل سونگ کیا جو مہناز نے گایا تھا: ’زندگی کے سب لمحے یادگار ہوتے ہیں۔ ‘ “ ۔

اپنا ذاتی آڈیو اسٹوڈیو بنانا:

” ہم لوگ شاداب اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں ’فروزاں‘ کی ریکارڈنگ کرنے یہاں پہنچا تو اسٹوڈیو والوں نے کسی اور کو بکنگ دے رکھی تھی۔ ہم سب وہاں ہونے وا لی صدا بندی کے اختتام تک انتظار کرتے رہے۔ تب میں نے سوچا کہ کچھ کرنا چاہیے! ذہن میں ایک خیال آیا کہ میں اپنا اسٹوڈیو بناؤں۔ شاید پاکستان میں میں پہلا میوزیشن ہوں گا جس نے اسٹوڈیو بنایا۔ یہ 1985 میں بنا اور کام شروع کیا۔ اس اسٹوڈیو کے بننے سے میری لائن بڑھ گئی اور میں ایڈورٹائزنگ کی طرف چلا گیا۔

اداکار اسلم پرویز کا بیٹا ریمل ایک دن میرے پاس آ یا اور مجھ سے ایک جنگل کروایا۔ بس یہ جنگل کیا کیا جنگلوں کی لائن لگ گئی! ڈینڈی چوینگ گم، باٹا بائے چوائس، باٹا اسکول، گل احمد کی لان، شربت جام شیریں وغیرہ۔ تو اللہ کے کرم سے یہ لائن بہت خوبصورت چلی۔ اسی اسٹوڈیو میں پھر نئے گلوکاروں کی آڈیو کیسٹ ریکارڈ کرنے آنے لگے اور یہ سلسلہ چل نکلا“ ۔

” کبھی اپنی مرضی سے بھی کمپوزیشن کیں؟“ ۔

” مرضی سے کمپوزیشن نہیں ہو سکتیں! یہ ضرور ہے کہ کہیں چلتے ہوئے، بیٹھے ہوئے یا کسی ہورڈنگ سائن کو دیکھ کر، کوئی شاعری دیکھ کر فوراً کوئی ٹیون خیال میں آ گئی۔ یہ آمد کی بات ہے۔ اب اگر کوئی دھن بنانے کے لئے خاص طور پر بیٹھیں گے تو وہ میکانکی عمل ہو گا ذہنی اختراع نہیں ہو گی! “ ۔

” میں نے آپ کو لکھے ہوئے کی دھن بناتے یا دھن پر لکھواتے دونوں طرح سے دیکھا ہے۔ کون سا کام زیادہ آسان لگتا ہے؟“ ۔

” ظاہر ہے لکھے ہوئے کی دھن بنانا آسان ہوتا ہے۔ لکھے ہوئے کو اچھی طرح پڑھیں کہ اس کے احساسات کیا ہیں! کیا لکھا ہوا ہے۔ مثلاً ’ست رنگی میری اوڑھنی کا اک اک رنگ میرا۔ ‘ اس مکھڑے میں ایک ہلکی پھلکی سی بات ہے۔ اب سمجھانا ہے کہ میری ست رنگی اوڑھنی کے کون کون سے خوش نما رنگ ہیں اور بتانا ہے کہ وہ اتنی اچھی کیوں لگ رہی ہے! یہ ہی دھن کی اصل خوبصورتی بھی ہے۔ دھن اچھی ہی تب لگے گی جب بول اچھے لکھے ہوں گے۔ جو بول لکھنے سے پہلے ٹیون بنتی ہے وہ بھی اچھی ہوتی ہے۔ اس طرح کی بھی میری بہت ساری دھنیں ہیں“ ۔

” گانا ’ایک ہی نام کے کتنے چہرے۔ ‘ کے بارے میں بتائیے! “ ۔
” یہ گیت پہلے ہی سے محمد ناصرؔ نے لکھا ہوا تھا۔ میں نے اس پر بعد میں دھن بنائی“ ۔
” سلطانہ صدیقی اور میرے موسیقی کے پروگراموں میں آپ نے محمد ناصرؔ کے ساتھ بہت زیادہ کام کیا“ ۔

” ہاں! میں نے ان کے ساتھ ساتھ ریحان اعظمی، صابرؔ ظفر، اسد محمد خان وغیرہ کے ساتھ بھی کام کیا۔ پروڈیوسر کاظم پاشا کا پروگرام ’آپ پر الزام ہے‘ بھی میں نے کیا۔ اس میں مہناز کا گانا تھا“ ۔

” میوزیشن کی حیثیت سے آپ نے بہت سے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ کس کے ساتھ کام کرنا اچھا لگا؟“ ۔

” سہیل رعنا بھی بہت اچھے تھے۔ سارے موسیقار اپنی اپنی کلاس میں خوب تھے۔ دیبو بھٹہ چاریہ تو اپنا سارا میوزک خود بناتے تھے۔ یہ نہیں تھا کہ ارینجر کو کہہ دیا کہ میوزک بناؤ۔ وہ ٹیون بھی خود بناتے تھے“ ۔

” نئے پرانے بہت سے گلوکاروں کے ساتھ آپ نے کام کیا۔ ایک تاثر ہے کہ مہناز نے آپ کی کمپوزیشن کا حق ادا کر دیا۔ یہ بات کہاں تک صحیح ہے؟“ ۔

” اس میں کوئی شک نہیں ہے! مہناز بہترین گانے والی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی اردو بہت اچھی تھی۔ لگتا تھا کہ واقعی یہ ہی اردو گانا ہے! وہ جب گاتی تھی تو گانا پڑھا لکھا لگتا تھا“ ۔

” ذکر مہناز کا ہو رہا ہے۔ وہ سنگر تو اچھی تھی ہی خاتون کتنی اچھی تھی! “ ۔ میں نے بات کو آگے بڑھایا۔

” کیا بات تھی! جب بھی میرے اسٹوڈیو میں آتی کھانا بنا کر لاتی تھی۔ وہ بریانی بہت اچھی بناتی تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی لمبی ٹیک ہوئی ہوں۔ ایک دفعہ ریہرسل اور پھر براہ راست ریکارڈنگ۔ کبھی کبھار خود ہی کہہ دیتی کہ یہ لائن ٹھیک نہیں ہوئی دوبارہ ریکارڈ کر لو! ریکارڈنگ بوتھ میں جاتی اور پندرہ بیس منٹ میں ریکارڈنگ ختم۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بہت اچھے طریقے سے یاد

کرتی تھی۔ وہ اپنے بولوں پر نشان لگا لیتی تھی جیسے کیل ٹھونکے جاتے ہیں۔ اسکرپٹ ہاتھ میں لیتی تھی اور قلم سے لکھ لیتی تھی کہ کیا چیز ایک مرتبہ کیا دو مرتبہ کہنا ہے۔ پھر یہ کہ کیسے کہنا ہے! اس سے آپ کو لگائے گئے نشان بھولتے نہیں اور گانا مکمل قابو میں آ جاتا ہے ”۔

ایک سوال کے جواب میں اختر صاحب نے کہا : ”اب تو اتنی آسانیاں ہیں کہ آپ بے سرا گاتے ہیں میں اس کو بھی سر میں کروا دوں گا“ ۔

” بے تالے کے لئے کیا کہیں گے؟ کیا وہ تال میں لایا جا سکتا ہے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

اختر صاحب نے بے ساختہ ہنستے ہوئے کہا: ”نہیں! بے تالے کو صحیح نہیں کر سکتے لیکن بے سرے کو سر میں کر سکتے ہیں“ ۔

” جس بے سرے سنگر کو آپ نے سر میں کروا کر ریکارڈ کیا اسے کہیں کہ وہ اسٹیج پر لائیو گائے تو۔ ؟“ ۔
” تو وہ بے سرا ہی گائے گا! وہاں جو ہے وہ ہی رہے گا“ ۔
” آپ گٹار اور کی بورڈ کے ساتھ سرود بھی بجاتے ہیں۔ سرود سیکھنے کا کیا پس منظر ہے؟“ ۔

” سرود میں نے اس وقت سیکھنا شروع کیا جب میوزیشن کی حیثیت سے میں نے کام کا آغاز کیا۔ میں نے ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا۔ وہاں گٹار والے کافی ہو گئے تھے۔ میری فیملی والوں نے بھی کہا کہ سرود سیکھو لہٰذا وہ سیکھنا شروع کیا۔ جلد ہی معلوم ہو گیا کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں تھا۔ آپ خود دیکھ لیں کہ سرود کتنے گانوں میں بجتا ہے! کسی گانے میں نہیں بجتا! اسی طرح ستار بھی کم ہی بجتی ہے۔ بیس گانے ہوں گے تو ایک گانا ستار کا ہو گا۔ گویا پیسوں کے حساب سے سرود بجانے میں مالی فائدہ صفر تھا۔ میں نے اسی لئے سرود کہیں بھی کمرشل نہیں بجایا۔ ہاں! البتہ میں نے اپنی کمپوزیشن میں ستار اور سرود کا خوب استعمال کیا“ ۔

” انور مقصود صاحب کے ڈرامے میں مہناز کے گیت ’زندگی کے سب لمحے یادگار ہوتے ہیں۔ ‘ میں آپ نے بیس گٹار کو ایک خاص پیٹرن / انداز سے بجھوایا۔ جو ہم نے اس سے قبل نہیں سنا۔ یہ کیا کہانی تھی؟“ ۔

” ( ہنستے ہوئے ) بنیادی طور پر تو میں گٹارسٹ ہی ہوں۔ انگلش میوزک پیٹرن کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ جیسے مائیکل جیکسن کا مشہور زمانہ ’بلی جین‘ Billie Jean۔ تو میں نے بھی سوچا کہ میرا بھی کوئی گانا اس طرح کے پیٹرن پہ ہونا چاہیے۔ یہ پیٹرن بھی پورا آٹھ ماترے کا ہے یعنی تین تال میں پورا ہے۔ جب کہ وہ غزل ہے! “ ۔

” اس کو سننے کے بعد خود انور مقصود کا کیا رد عمل تھا؟“
” بہت خوش ہوئے۔ اپنے مخصوص طریقے اور دھیمے لہجے میں کہا کہ بہت اچھا ہے! جو میں چا ہتا تھا وہ ہے“ ۔

” محمد علی شہکی کے لئے آپ نے راگ جھنجھوٹی میں محمد ناصرؔ سے میرے پروگرام میں گیت لکھوایا : ’تیرے بن کیسے بیتیں۔ ‘ جس میں جاوید بھائی نے خاص طور پر ستار بجائی تھی۔ اس بارے میں بتائیے! “ ۔

” بس! راگ کو سامنے رکھ کر میں نے ٹیون بنائی جس پر گانا لکھوایا۔ پھر محسوس کیا کہ اس گانے میں راگ نظر آنا چاہیے اس لئے جاوید بھائی سے ستار بجوائی“ ۔

” اختر صاحب! سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا ہو گا۔ آپ نے کٹھن وقت بھی گزارا؟“ ۔

” نہیں نہیں! سب کچھ پلیٹ میں رکھا ہوا نہیں ملا! ہم نے بڑا سخت وقت گزارا۔ تب ڈھائی ہزار روپے کی ہونڈا 70 موٹر سائیکل آتی تھی۔ ہمارے پاس وہ بھی نہیں تھے۔ ریڈیو پاکستان میں مجھ سمیت وہ میوزیشن جو اسٹاف نہیں تھے ان کی 21 دن کی تنخواہ 300 روپے تھی“ ۔

” آپ نے اپنا بینڈ کیا سوچ کر بنایا؟ “ ۔

” شہکی کو حوصلہ اور فروغ دینے / بوسٹ اپ کرنے کے لئے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، میں اور قمر (شہید) ہم دونوں گٹاریں لے کے اس کی باریابی / اینٹری کروانے جاتے تھے۔ تب ذہن میں خیال آیا کہ آگے بڑھنا چاہیے اور میں نے ایکو چیمبر منگوایا۔ یہ کراچی میں تھا ہی نہیں۔ پھر ہم نے کرایہ پر ایمپلی فائر اور اسپیکر لے کر شہکی کو ایکو پر گانا گوایا۔ شہکی کی آواز کچھ اور ہی ہو گئی اور مجموعی طور پر پورا میوزک بھی روشن روشن ہو گیا۔ اس کے بعد ہم نے بینڈ بنایا۔ ہم نے 1980 کی دہائی کی شروع میں سنگاپور سے مکسر اور اسپیکر (ساؤنڈ سسٹم) منگوایا“ ۔

” جب میرا اسٹوڈیو شروع ہو گیا تھا تو میرے بچوں کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ گھر پر وہ اکیلے ہوتے تھے لہٰذا پڑھنے کے بعد وہ اسٹوڈیو آ جاتے تھے۔ یہاں سے کچھ سیکھنا شروع کیا۔ مشاہدہ کرنے سے شوق بھی پیدا ہوا۔ یوں رفتہ رفتہ ریکارڈنگ کرنا اور تھوڑا بہت بجانا بھی سیکھ گئے۔ کمرشل کی کمنٹری اور وائس اوور بھی سیکھ لیا۔ بڑا بیٹا تو کمنٹری میں چل نکلا۔ دونوں میوزک بھی کر لیتے تھے۔ پہلے ڈراموں کے بیک گراؤنڈ میوزک کرنے کے لئے تین چار افراد چاہیے ہوتے تھے۔ ایک شخص وی سی آر چلاتا دوسرا ٹیپ ریکارڈر چلاتا تیسرا کوئی ساز بجاتا۔ اسی لئے یہ دونوں بھائی یہ سب کچھ سیکھ گئے۔ اب تو ایک ہی شخص کمپیوٹر پر یہ تمام کام کر لیتا ہے“ ۔

” اب ماشاء اللہ یہ دونوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔ بڑا بیٹا بلال بیک گراؤنڈ میوزک کرتا ہے۔ کووڈ کی وجہ سے اس نے گھر پر ہی سیٹ اپ لگا رکھا ہے۔ چھوٹے بیٹے علی کا زمزمہ پر اپنا سیٹ اپ ہے۔ وہ میوزک اور بیک گراؤنڈ کرتا اور گا بھی لیتا ہے“ ۔

میوزک گروپ:

میں نے جب اختر صاحب کے میوزک بینڈ کو دیکھا تو اس میں جاوید بھائی، اختر، قمر اور شہزاد تھے۔ ڈرم پر منصور لاکھانی ہوتے جن سے ابھی چند دنوں پہلے آغا خان جمنیزیم، آغا خان اسپتال کراچی میں مل کر بہت خوشی ہوئی۔ منصور شاندار شخص ہے۔ جیمنیزیم، واکنگ ٹریک اور کھلی فضا۔ خوبصورت جگہ ہے لگتا ہے یورپ میں آ گئے۔ اس بینڈ میں بعد میں عشرت اللہ دتہ بھی شامل ہو گیا اور ریکارڈنگ میں آنے لگا۔ یہ اس وقت جامعہ کراچی میں پڑھتا تھا۔

پھر یہ شکاگو، ریاست ہائے متحدہ امریہ میں نقل مکانی کر گیا۔ میں اس سے 2002 میں ملنے شکاگو گیا تھا۔ وہیں شہزاد اللہ دتہ بھی تھا۔ دونوں کی کمیونٹی میں بہت اچھی بات تھی۔ آج کل شہزاد ماشاء اللہ کراچی میں اپنا کاروبار کرتا ہے۔ میں نے کشور اللہ دتہ کو بہت چھوٹا دیکھا تھا۔ اس نے پہلے اپنے بڑے بھائیوں سے سیکھا اور ریکارڈنگ میں بیس گٹار بجایا۔ اب ما شاء اللہ وہ راحت فتح علی خان کے ساتھ بیس گٹار بجاتا ہے اور دنیا جہاں میں اس کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے۔ پچھلے ہفتے اختر صاحب نے اپنے گھر سے میری بات کروانا چاہی تو وہ اس وقت دبئی میں مصروف تھا۔

قمر اللہ دتہ شہادت 14 اکتوبر 2012 :

قمر اللہ دتہ بہترین گٹارسٹ کے ساتھ ایک بہترین انسان اور دوست بھی تھا۔ اس کے ساتھ میں نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں بہت سے پروگرام کیے ۔ پی ٹی وی کے سرکاری کاموں کے علاوہ بھی میری اختر اللہ دتہ سے ذاتی دوستی تھی اور اب بھی ہے۔ اختر صاحب کے ساتھ اکثر قمر بھی گپ شپ میں ساتھ ہوتا۔ میں نے اسے کبھی کسی بھی شخص کی پیٹھ پیچھے برائی کرتے نہیں دیکھا۔ اختر صاحب کا کہنا ہے کہ قمر رشتہ میں ان کے ماموں تھے جو شروع سے ہی ہمارے ہاں رہے۔

میں سمندر پار رہتے ہوئے بھی گیت نگار محمد ناصرؔ، اختر اللہ دتہ، قمر اللہ دتہ اور ان جیسے دوستوں سے مستقل رابطے میں رہتا تھا۔ وقت گزرتا رہا۔ میں پاکستان واپس آ گیا اور کراچی میں کئی مرتبہ قمر اللہ دتہ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کسے معلوم تھا کہ 14 اکتوبر 2012 کو قمر اللہ دتہ کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے! مجھ ایسے بہت سے لوگوں کے دلوں میں قمر زندہ ہیں!

اختر اللہ دتہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا : ”شہزاد اب تو نہیں بجاتا۔ ویسے وہ بہت اچھا بیس گٹار بجاتا تھا۔ عشرت بھی گٹار سیکھ رہا تھا لیکن امریکہ چلا گیا۔ وہ وہاں بھی گٹار بجاتا ہے۔ گھروں میں فنکشن ہوتے ہیں وہ ان میں مصروف رہتا ہے۔ اسی طرح سے کشور بھی ہے۔ وہ اسپینش کے ساتھ بیس گٹار بھی بجاتا ہے“ ۔

” کیا آپ اپنی اس زندگی سے مطمئن ہیں؟“ ۔

” اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا! ٹھیک ہے ہم سب نے بے جدوجہد کی۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہ تھا اور اللہ نے سب ہی کچھ دے دیا تو ہم جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے! “ ۔

ایک سوال کے جواب میں اختر اللہ دتہ نے کہا : ”دیکھیں! میوزک تو سب ہی کر رہے ہیں۔ کوئی اچھا کر رہا ہے کوئی کم اچھا۔ جس کو جتنا آتا ہے وہ اتنا کر رہا ہے۔ اب میں کہوں کہ فلاں بہت برا ہے تو ایسی کوئی بات نہیں! وہ اپنی صلاحیتوں کے حساب سے اچھا ہی کر رہا ہے۔ ایک مقولہ ہے ’پروفیسر، پروفیسر ہوتا ہے اور ماسٹر، ماسٹر! ‘ بس اتنی سی بات ہے“ ۔

نگار ویکلی اور نگار ایوارڈ کے بارے میں انہوں نے کہا: ”نگار ویکلی تو بچپن سے دیکھتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ میٹروپول ہوٹل میں یہ ایوارڈ ہوتا تھا۔ ہم بھی کسی طرح اندر جانے کے لئے بے چین ہوتے اور بہترین کپڑے پہن کر نگار ایوارڈ دیکھنے جاتے۔ مجھے آج تک ایک نگار ایوارڈ کا میٹروپول ہوٹل کا بہت بڑا فنکشن یاد ہے جس میں طافو صاحب بھی بجانے کے لئے لاہور سے آئے تھے۔ میں دعا گو ہوں کہ وہ زرین دور پھر سے پلٹ کر آئے اور یہ ایوارڈ شروع ہو! “ ۔

۔ ۔
اختتام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).