”دیوار مہربانی“ سے ”دیوار احساس“ تک مہم کی ناکامی کی چند وجوہات


ڈپٹی کمشنر چکوال کیپٹن (ر) بلال ہاشم نے چند روز قبل چکوال کے مرکزی ون فائیو چوک پر ”دیوار احساس“ کا افتتاح کیا۔ محکمہ سماجی بہبود پنجاب کے ضلعی دفتر کے زیر اہتمام مخیر افراد کے تعاون سے بنائے جانے والی اس دیوار کا مقصد معاشرے کے ضرورت مند اور بے گھر افراد کی ستر پوشی کے لئے گرم ملبوسات، رضائیاں، جوتے و دیگر اشیاء ضروریہ بلامعاوضہ فراہم کرنا ہے تاکہ غریب اور مستحق افراد کو ضروریات زندگی میسر آ سکیں۔ اس پراجیکٹ یا مہم کا پرانا نام ”دیوار مہربانی“ تھا جو گزشتہ دور حکومت میں پڑوسی ملک ایران سے شروع ہوتا ہوا یہاں بھی پھیل گیا۔ اس دیوار کا مقصد معاشرے میں مہربانی کے تصور کو عام کرنا اور ضرورت مندوں خاص طور پر بے گھر افراد کی ضرورت بنا مانگے پوری کرنا تھا۔

ایران کے شہر مشہد سے شروع ہونے والی دیوار مہربانی مہم کا یہ سلسلہ پاکستان کے بڑے شہروں تک تیزی سے پھیلتا گیا۔ دیوار مہربانی کا نعرہ تھا کہ ’اگر آپ کو ضرورت نہیں تو چھوڑ جائیے اور اگر ضرورت ہے تو لے جائیے۔ ‘ یہ دیوار نون لیگ کے دور حکومت میں پاکستان کے مختلف بڑے شہروں میں بنائی گئی تھی۔ اور اب موجودہ حکومت نے اس پراجیکٹ کا نام تبدیل کر کے نیا نام ”دیوار احساس“ رکھ دیا۔

بدقسمتی سے چکوال میں اس کارخیر کو اس طریقے سے پذیرائی نہ مل سکی جس کی توقع تھی۔ چکوال میں دیوار مہربانی گزشتہ دور حکومت میں افتتاحی روز سے ہی مکمل طور پر غیر فعال رہی۔ اور آج انصافی دور میں بھی ’دیوار احساس‘ افتتاح کے چند گھنٹے بعد سے مکمل خالی پڑی ہے جو کہ حکومتی عہدیداران سمیت تمام سیاسی و سماجی حلقوں کے لئے باعث ندامت ہے۔

”دیوار مہربانی“ یا ”دیوار احساس“ کی ناکامی و چند وجوہات:

1: لاعلمی۔

ہمارے معاشرے میں صاحب استطاعت لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کو یہ معلوم نہیں کہ چکوال میں دیوار مہربانی نام کی بھی کوئی دیوار ہے جہاں غریبوں کے لئے کپڑے، جوتے اور دیگر اشیاء عطیہ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح غریب اور مستحق طبقہ بھی اس بات سے لاعلم ہے کہ یہ دیوار انہی لوگوں کے لئے ہی تو بنائی گئی ہے جہاں سے وہ بلامعاوضہ، مفت ملبوسات، جوتے و دیگر اشیاء لے سکتے ہیں۔

2: پردہ پوشی/عزت نفس۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق خیرات و صدقات کرتے وقت پردہ پوشی اختیار کرنے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے تاکہ دوسرے بندے کی عزت نفس مجروح نہ ہو، غریب اور مستحق افراد کو خیرات و عطیات دیتے وقت اس بات خصوصی خیال رکھا جائے کہ اگر ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ اس معاشرے میں غریب ہونا بھی ایک جرم ہے۔ انسان کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو مگر وہ کبھی بھی اپنی عزت نفس مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکتا، اور پھر یہاں بھیڑ بھرے بیچ چوراہے وہ کیسے اپنے لئے ملبوسات وغیرہ اٹھا سکتا ہے۔ دیکھنے والے لوگ تو وقت حال انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر خاموش رہتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں بات کرنے موقع ملتا ہے تو وہ اپنے اندر کا گند اگلتے ہوئے اس غریب کو یہ طعنہ ضرور دیتے ہیں کہ تم تو چوراہوں سے کپڑے اٹھانے والے ہو۔

2: تشہیر

ہمارے معاشرے کی اکثریتی پبلک آج بھی اخبار، ریڈیو اور ٹی وی سے جڑی ہوئی ہے بیشتر پبلک تو سوشل میڈیا کا بھی استعمال کرتی ہے۔ مقامی میڈیا (اخبار، ریڈیو۔ ایف ایم اور کیبل نیٹ ورک) پر تشہیری مہم نہ چلائی جا سکی۔ افتتاحی تقریب کی کوریج اور سرکاری خبروں کی نشر و اشاعت کے علاوہ میڈیا نے اس موضوع کو زیادہ چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ ایف ایم ریڈیو کی ٹرانسمیشن آج بھی گھروں میں خواتین کام کاج کرتے وقت جبکہ دوران ڈرائیونگ اکثر سنی جاتی ہے۔ کیبل، ٹی وی ہر گھر، دکان، کاروباری مراکز کے علاوہ شہری و دیہی علاقوں میں لگی ہوئی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹی وی، اخبارات، ریڈیو بلامعاوضہ اشتہارات نہیں چلاتے۔ جس سے پبلک تک اس مہم بارے معلومات نہ پہنچ سکی۔

3: معاشی تنگدستی

سال 2019 ء میں کورونا وائرس کے مرض نے ہماری معاشی زندگی یکسر بدل کر رکھ دی۔ سوائے ایلیٹ، اپر یا کریم کلاس کے متوسط اور غریب طبقے کو اس وبا نے معاشی طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لوگوں کا جذبہ مہربانی و ایثار گھٹ گیا، ان کی اپنی رسائی اشیائے ضروریہ (خورد و نوش) تک بمشکل قائم رہی۔ پبلک جو اضافی کپڑے سال بعد غریبوں میں تقسیم کر کے خود نئے پہنتے تھے اب وہ خود پرانے جوڑوں پر ہی گزر بسر کرنے لگے۔

4: ”مستحق افراد میں تفریق“

ہمارے معاشرے میں شعور کی رفتار نہایت سست ہے۔ لوگ اپنے حقوق و فرائض سے نابلد ہیں۔ صاحب استطاعت لوگ عطیات دیتے وقت اس سوچ بچار میں مبتلا رہتے ہیں کہ آیا ہماری یہ مصنوعات مستحق لوگوں تک ہی پہنچے گی یا غیر مستحق افراد اس کو لے اڑیں گے۔ وہ اس لئے بھی اس کارخیر میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ذوالفقار میر بتاتے ہیں کہ جب چکوال میں پہلی بار ’دیوار مہربانی‘ قائم کی گئی تو وہ بھی جذبہ خیرسگالی کے تحت اپنے پاس پڑے کچھ اضافی ملبوسات اور چند نئے کوٹ لے کر اس ’دیوار مہربانی‘ پر ٹانکنے گئے، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کپڑے، کوٹ وغیرہ ہینگرز پر لٹکا کر چند قدم کا فاصلہ طے کر کے واپسی کی راہ لی ہی تھی کہ ایک 125 موٹرسائیکل پر تین ہٹے کٹے جوان سوار ہوئے آئے، موٹرسائیکل کھڑا کر کے اترے اور سارا سامان بغل میں دبا کر یہ جا وہ جا۔

5: عدم اعتمادی:

ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم لوگ دوسروں کی دیکھا دیکھی بھی ادھوری ہی کرتے ہیں، ہم نے پڑوس کی دیکھا دیکھی کر کے مہربانی کی دیواریں تو قائم کر دیں لیکن اس کے بعد اپنی ذمہ داریاں یہی تک ہی مکمل سمجھتے ہوئے ان دیواروں کو ادھورا چھوڑ دیا۔ سماجی حلقے و سرکاری عہدیداران دیوار پر اپنے نام کا پوسٹر آویزاں کر کے افتتاحی تقریب میں چند تصاویر بنوا کر خود کو اس کام سے بری الذمہ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ معاشرہ چیک اینڈ بیلنس پر چلتا ہے، بڑے شہروں میں تو اس ’دیوار مہربانی‘ کا چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لئے ذمہ دار شخص تعینات ہیں جو وہاں اپنی ڈیوٹی باقاعدہ سے سرانجام دیتے ہیں۔ اس سے صاحب ثروت اور ضرورت مندوں کے بیچ اعتماد قائم رہتا ہے، اور غریبوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے چکوال میں ایسی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں دیکھا گیا۔

حکومتیں بدل گئیں، اقتدار تبدیل ہو گیا۔ ”دیوار مہربانی“ سے ”دیوار احساس“ بن گئی مگر ہمارے معاشرے میں مہربانی، احساس، فرائض اور ذمہ داریوں کے معنی سمجھنا ابھی باقی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments