کراچی میں گاڑیوں، موٹر بائیک رکشہ کی چوری اور چھیننے کی وارداتوں اضافہ


کراچی میں گاڑیاں اور بائی سائیکلیں ہوا میں اڑنے لگیں
63738 موٹر سائیکلیں2000 گاڑیاں825 رکشے زمیں کھا گئی یا آسماں نگل گیا
4 ارب کی املاک چوری یا چھینی گئیں

شہر کراچی کا نام سنتے ہی روشنی گہماگہمی رونق کشادگی بڑی بڑی سڑکیں اس پہ ٹھاٹھیں مارتا گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا ہجوم ذہن میں آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ سے زیادہ آبادی رکھنے والے اس شہر میں 5.3 ملین سواریاں روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں پہ ہوتی ہیں۔

سڑکوں پہ بڑھتا ٹریفک فیل ٹرانسپورٹ اور وقت پہ پہنچنے کی جلدی نے شہریوں کو اپنی ذاتی سواری خریدنے پہ مجبور کیا۔ کراچی کے عوام پائی پائی جوڑ کر موٹر بائیک یا استعمال شدہ گاڑی ہی خرید پاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت عوام کو میسر نہیں اس لئے عوام ذاتی سواری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی حفاظت عوام کو خود ہی کرنی پڑتی ہے مگر عوام کے لئے نا ممکنات میں سے ایک نا ممکن بات اپنی ذاتی سواری کی حفاظت کرنا ہے پہلے سنتے تھے کہ نامعلوم افراد بندوق کن پٹی پہ رکھ کر موٹر سائیکل چھین کے لے گئے مگر اب نئی چیز سننے میں آتی ہے کہ صبح اٹھے تو باہر کھڑی گاڑی موجود نہیں کہاں اڑ گئی کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔

27 سالہ عمر انہیں میں سے ایک ہیں۔ عمر ملازمت کرتے ہیں مشکل سے 25 ہزار ماہانہ کماتے ہیں آفس دیر سے پہنچنے پر تنخواہ نہ کٹ جائے اس لئے بی سی ڈال کر ذاتی بائیک خریدی۔

عمر کے مطابق آج سے چار ماہ قبل بلوچ کالونی ہیبٹ بلڈنگ کی پارکنگ سے ان کی بائیسکل چوری ہوئی تھی۔ جس کا شکایتی نامہ اور ایف آئی آر بلوچ کالونی کے تھانے میں درج کروائی دو سے تین بار تھانے کے چکر کاٹے مگر ! موٹر سائیکل نہیں ملی۔

محنت سے خریدی گئی موٹر سائیکل کا سوز اس کی جھکی گردن اور طنزیہ مسکراہٹ کے اندر چھپا تھا اس پہ یہ جملہ کہ: ”مجھے معلوم ہے اب کہاں ملے گی“ یہ جملہ ہمارے نظام کے اوپر ہزاروں سوال اٹھا رہا تھا کہ یہ 27 سالہ نوجوان جتنا بے بس ہے اتنا ہی پریقین بھی کہ چوری ہو گئی اب نہیں ملے گی۔

دوسری جانب حفصہ (فرضی نام) کراچی ایسٹ اسکیم 33 گلشن ٹاؤن کی رہائشی ہیں 24 دسمبر 2021 کو شام 4 بجے کے قریب ان کے گھر کے باہر سے دن دیہاڑے ان کی گاڑی کو ان لاک کرنے کا واقع پیش آیا متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں گاڑی کے الارم کی آواز آئی باہر جا کے دیکھا تو خاتون کی گاڑی کا بونٹ کھلا ہوا تھا اور دروازے ان لاک تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ خاتون کے دریافت کرنے پر جائے وقوعہ پر موجود شخص نے بتایا کے وہ چیکنگ پہ آئے ہیں ان لوگوں کے اس بیان پہ یقین کرلینا ایک فطری عمل تھا کیوں کہ ان تینوں میں سے ایک شخص پولیس کی وردی اور باقی دو شخص سادہ لباس میں ملبوس تھے اور خود کو چیکنگ پہ آئے نمائندے بتا رہے تھے مگر متاثرہ خاتون کہ سوالات نے معاملے کا الگ پہلو اجاگر کر دیا۔

سوال نمبر 1۔ اگر آپ محکمہ سے آئے ہیں تو آپ کو میری گاڑی ان لاک کرنے کا حق کس نے دیا؟
سوال نمبر 2۔ آپ نے گاڑی ان لاک کی کیسے؟

خاتون کے مطابق ہر ذی الشعور شخص یہ سوالات دریافت کرے گا ان سوالات نے ان لوگوں کو موقع سے فرار ہونے پہ مجبور کر دیا۔ خاتون نے مزید بتایا کہ اس معاملے کی متعلقہ ادارے میں شکایت کردی ہے۔

طویل راستے کی سفری تھکاوٹ سے بچنے اور فیل ٹرانسپورٹ کے سبب حفصہ نے کمپنی سے ادھار لے کر اور تنخواہ کے پیسے جمع کر کے استعمال شدہ چھوٹی گاڑی خریدی تھی 30 سالہ حفصہ روزانہ اپنی ذاتی کار سے اسکیم 33 سے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں مینیجر کی پوسٹ پہ نوکری کرنے جاتی ہیں۔ معاملے کو مزید آگے تک فالو نہیں کرنا چاہتی تھیں کیوں کہ ان کے لہجہ سے روز کے چکر لگانے کی تھکن صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ اگر بروقت الارم نہیں بجتا تو شاید یہ گاڑی بھی پر لگا کر اڑ جاتی۔

ان واقعات سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ڈسٹرکٹ سینٹرل کراچی کے گلبرگ ٹاؤن میں پیش آیا۔ واٹر پمپ کے رہائشی حشمت (فرضی نام) گھر کے باہر سے گاڑی چوری ہونے کا غم منا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ صبح تیار ہو کر آفس جانے کے لئے اپنی بولان کی چابی لے کر نکلے تو چابی تو ان کے ہاتھ میں تھی مگر اپنی گاڑی باہر نہ پا کر ہاتھوں کے طوطے ضرور اڑ گئے گویا ایسا محسوس ہوا کہ گاڑی کو ٹائر نہیں پر لگ گئے کہ ہوا میں رات و رات اڑ گئی اور خبر بھی نہیں ہوئی تھانے کچہری کے تھکا دینے والے نظام سے مایوس شہری نے ایف آئی آر درج نہیں کروائی کہا کہ جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والے نہیں پکڑے جاتے تو یہ تو نا معلوم ہیں۔

افسردگی سے تمام واقعہ سناتے اس 70 سالہ معمر شہری کی آنکھوں میں افسردگی کے ساتھ ساتھ چہرے پہ غیر محفوظ ہونے کے تاثرات عیاں تھے۔

یہ تو اس شہر کے صرف تین شہریوں کی آپ بیتی تھی جو زیر قلم آئی 2021 میں ایسے واقعات 86 ٪ بڑھے ہیں۔ ان میں وہ متاثرہ لوگ شامل نہیں جو اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کی شکایت درج کرانے کو اہمیت نہیں دیتے اور ایسے لوگ جو کوشش تو کرتے ہیں مگر ان کی کمپلین درج نہیں ہوتیں اور انہیں یہ کہ دیا جاتا ہے کہ یہ علاقہ ہمارے تھانے کی حدود میں نہیں آتا۔

سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی سے چوری ہونے والی ٪ 70 گاڑیاں بازیاب ہی نہیں ہو سکیں اور چوری شدہ موٹر سائیکل کی بات آئے تو بازیابی میں پولیس ناکامی کا تناسب ٪ 94 پہنچ چکا ہے۔ 2021 میں اسٹریٹ کرائم پچھلے سال کی نسبت ٪ 15 بڑھا ہے اور روز با روز یہ ریشو بڑھتا جا رہا ہے۔ 2021 کے پہلے 9 مہینوں میں 63738 موٹر بائک چھینیں اور چوری ہوئیں جس میں سے 1912 بازیاب ہوئیں موٹر سائیکل چوری ہونے کی تعداد زیادہ ہے اور چھننے کی تعداد کم جب کہ 2000 کار چوری اور چھینی گئیں۔ سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کے مطابق موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں ٪ 86 اضافہ ہوا ہے جب کہ سال 2020 کی نسبت ٪ 34 بڑھا ہے۔ گاڑیاں چھننے کی وارداتوں میں ٪ 29 اضافہ ہوا اور دوران جنوری تا دسمبر 2021 میں چوری کی وارداتیں ٪ 21 بڑھیں۔

کرائم رپورٹر نزیر شاہ کے مطابق چھینی گئیں گاڑیاں اور بائی سائیکل لوکل مارکیٹ میں پارٹس کھل کے فروخت ہو جاتے ہیں۔ چھینی گئیں گاڑیاں اور بائی سائیکل اندرون سندھ جاتی ہیں اور بلوچستان میں باقاعدہ درجنوں گروہ ہیں جو اس کا کا روبارکرتے ہیں جبکہ کراچی کے شیرشاہ اور مضافاتی علاقوں میں جہاں بڑے بڑے گیراج ہیں وہاں یہ ڈمپ کی جاتی ہیں اور اکثر کراچی کے ندی نالوں میں چیسس پڑے ملتے ہیں جہاں انہیں کھولا جاتا ہے جب کہ 850 کروڑ مالیت کے 825 رکشے چھینے اور چوری ہوئے۔

سال بہ سال اسٹریٹ کرائم میں اضافہ حیرت انگیز اور فکر طلب ہے۔ رات اندھیرے میں دن دھاڑے یا بھرے مجموعے میں اپنی خریدی ہوئی ذاتی املاک کو لٹتے دیکھنا شہر کراچی کے لوگوں میں غیر محفوظ مایوسی اور عدم برداشت جیسے رویوں کو جنم دے رہا ہے۔

میٹروپولیٹن شہر میں بسنے والے 18 ملین شہریوں کی املاک تقریباً 14000 پولیس رکھنے کے باوجود غیر محفوظ کیوں ہے؟
حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟
آخر اسٹریٹ کرائم میں اضافہ کی وجہ کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments