ڈاکٹر سُمعیہ طارق: لاشوں، کٹے اعضا اور زخموں سے چُور انسانوں کا معائنہ کرنے والی خاتون جن کے ہر دن کا آغاز اور اختتام ایمرجنسی سے ہوتا ہے


ڈاکٹر سُمعیہ سید طارق، پولیس
دسمبر کا مہینہ ہے لیکن کراچی کے ایک ہسپتال کے بڑے سے کمرے میں پنکھا چل رہا ہے۔ اس کمرے کی چھت کے نیچے فائلوں کے بیچ مطمئن چہرے مُہرے والی ایک خاتون بیٹھی ہیں۔ وہ اپنے کام میں پوری طرح مگن، کبھی ایک فائل اٹھاتی ہیں تو کبھی دوسری۔

اس دوران اُن کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کراچی کے ایک علاقے سے ایک نوجوان کی لاش ملی ہے۔ اس لاش کو ہسپتال کے مردہ خانے میں لایا گیا ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ مرنے والے کی موت کی وجہ کیا ہے۔ یہ وجہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔

منظر بدلتا ہے۔ یہ ایک مردہ خانہ ہے جہاں ہر اس نوجوان کی لاش پڑی ہے جس کی جانچ کی جانی ہے کہ اسے کیسے موت کے گھاٹ اتارا گیا؟

ان خاتون کی سربراہی میں پوسٹ مارٹم کی تیاری کی جا رہی ہے۔ مردہ خانے میں ایک طرف لاش ہے تو دوسری طرف کچھ ڈبے پڑے ہی جن کو سیمپلز (نمونے) لینے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

منظر ایک بار پھر تبدیل ہوتا ہے۔ اس بار پھر ایک کمرہ ہے، جس میں برقعے میں لپٹی ایک عورت بیٹھی ہیں۔ وہ بتا رہی ہیں کہ اُن کا شوہر انھیں مارتا ہے۔ اس تشدد زدہ عورت کے ہونٹ پھٹے ہوئے اور چہرے پر نیل پڑے ہیں۔ وہ عورت آٹھ مہینے کی حاملہ ہیں اور ان کے پہلے ہی سات بچے بھی ہیں۔ اس عورت کی رپورٹ لکھنے کے بعد انھیں گائنی وارڈ بھیجا کیا جاتا ہے تاکہ الٹرا ساؤنڈ کی مدد سے بچے کی حالت اور صحت کو پرکھا جا سکے۔

یہ تین منظر اور ان تین مناظر کے لیے تین مختلف کمرے، کراچی کے جناح ہسپتال کے ہیں۔ البتہ ان تین مناظر اور تین کمروں میں مشترک ایک فرد ہے: یہ ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سُمعیہ سید طارق ہیں جو تقریباً 22 برس سے یہ فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔

ڈاکٹر سُمعیہ نے سنہ 1999 میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے گریجویشن کی اور اس کے بعد وِیمن میڈیکو لیگل آفیسر کے طور پر تعینات ہوئیں اور آج کل وہ ایڈیشنل پولیس سرجن ہیں۔ وہ سندھ میڈیکل ریفارمز کمیٹی کی ممبر ہیں اور اینٹی ریپ بِل کو تیار کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کی ممبر بھی ہیں۔

ڈاکٹر سُمعیہ سید طارق

’بچے کی ٹانگیں ماں کے پیٹ سے باہر نکلی ہوئی تھیں‘

عام طور پر ڈاکٹر سمعیہ کے کسی بھی دن کا آغاز کسی ایمرجنسی کو دیکھنے سے اور احتتام بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب اُن کا کوئی دن کسی ایمرجنسی کو سنبھالے بغیر گزرا ہو۔ سو ان کے لیے ہر روز کسی چیلنج سے کسی طور بھی کم نہیں ہوتا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ڈیڈ باڈی سے میرا پہلا قریب سے آمنا سامنا ایم بی بی ایس کے تیسرے سال میں ہوا اور اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا گیا۔‘

وہ اسے اپنا معمول کا کام بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کا پروفیشن تشدد کی مختلف قِسموں کی جانچ کرنا ہی تو ہے اور اس سے منسلک خوف اور ڈر انسانی فطرت کے مطابق آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے۔

مگر ڈاکٹر سمعیہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے پہلے پہلے برسوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اتنے برسوں سے کام کا عادی ہو جانے کے باوجود میں آج بھی اس وقت گھبرا جاتی ہوں جب بچوں کی لاشیں ہمارے پاس آتی ہیں۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین کی لاشوں سے بھی ڈر جاتی ہوں۔‘

لیکن ایسا فرد جس کی ہر صبح اور ہر شام ہنگامی حالات کے بیچ گزرتی ہو، اُس میں اب تک یہ ڈر کیوں باقی ہے؟ اس کی وجہ کے بارے میں ڈاکٹر سمعیہ اپنے کرئیر کے شروع کے برسوں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’یہ میری پریکٹس کے بالکل شروع کے دنوں کی بات ہے۔ ایک نوجوان ماں کی لاش آئی۔ اُن کو گھر والوں نے چاقو مار مار کر اسے قتل کر دیا تھا۔ وہ حاملہ تھیں اور جب ان کی لاش لائی گئی تو ان کے پھٹے پیٹ کے اندر سے بچے کی ٹانگ باہر نکلی ہوئی تھی۔‘

’مردہ ماں کے پیٹ سے لٹکی اُس بے جان بچے کی ٹانگ دیکھ کر چند لمحوں کے لیے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے لگا کہ میں چکرا کر گرنے لگی ہوں۔ میں نے میز پر ہاتھ رکھا اور اس میز کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا۔‘

ڈاکٹر سُمعیہ سید طارق

فرض نبھانے کی اولیت اور انسانی جبلت میں تلخ اور مشکل لمحے آتے ہیں لیکن ڈاکٹر سمعیہ کو فرض شناسی کا بہرحال خیال رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جبلت اور انسانی احساس اگلے ہی لمحے ایک طرف کر کے کام کرنا ہوتا ہے۔

’ہمیں اپنے کام کی قانونی ضرورتوں کی وجہ سے یہ بتانا ہوتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں مر چکے بچے کی عمر کتنی ہے؟ اس وقت ہم پوسٹ مارٹم کے دوران اصل میں سی سیکشن کر رہے ہوتے ہیں۔ بچے کو نکال کر اس کی عمر کو دیکھتے ہیں کیوںکہ اگر اس بچے کی عمر سات مہینے سے زیادہ ہے تو ملک کے قانون کے مطابق وہ دُہرے قتل کا کیس بن جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر سمعیہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے کریئر میں اتنے زیادہ پوسٹ مارٹم کیے ہیں کہ اُن کی درست تعداد بھی انھیں یاد نہیں۔

’البتہ یہ یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک دن میں 32 پوسٹ مارٹم کیے۔ کراچی میں جب پی آئی اے کا جہاز کریش ہوا اس دن شام پانچ بجے مردہ خانے میں گئی تو اگلی صبح باہر نکلی۔ اس کے علاوہ جب بلدیہ ٹاؤن کراچی کا سانِحہ ہوا تو چوبیس گھنٹوں میں ہم نے 132 پوسٹ مارٹم کیے۔‘

پوسٹ مارٹم کب اور کیوں کیا جاتا ہے؟

ڈاکٹر سُمعیہ بتاتی ہیں کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیکو لیگل آفیسر صرف پوسٹ مارٹم ہی کرتے ہیں مگر اصل میں ایسا نہیں۔

’ہم 13 سے 14 مختلف قِسموں کے کیسز دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان میں ایسے کیسز بھی شامل ہوتے ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح قانونی معاملات اور پہلوؤں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان میں ٹریفک حادثات کے کیسز آتے ہیں۔ اس کے علاوہ مار پیٹ، ریپ، گھریلو تشدد اور خود کُشی کے کیسز بھی شامل ہوتے ہیں۔‘

پوسٹ مارٹم کب اور کن صورتوں میں کیا جاتا ہے، اس بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ کسی کے مرنے کے بعد معائنہ ہم صرف تب کر سکتے ہیں جب ہمیں ریاست کہتی ہے۔

ڈاکٹر سُمعیہ سید طارق

’پوسٹ مارٹم اس لیے کیا جاتا ہے کہ بتایا جا سکے کہ موت کی وجہ کیا تھی یا پھر یہ بتایا جا سکے کہ جس شخص کی لاش ہے وہ کون ہے۔‘

’اگر کوئی ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو جاتا ہے اور ہمارے پاس لاش آتی ہے تو سب سے پہلے ہم متعلقہ تھانے کو اطلاع دیتے ہیں۔ پھر وہاں سے کوئی ذمے دار آتا ہے اور کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 174 کی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کے بعد لاش کے ڈاکومینٹس بنتے ہیں۔ جب تک وہ پیپرز ہمیں نہیں ملتے تب تک ہم پوسٹ مارٹم نہیں کرتے۔‘

ڈاکٹر سُمعیہ کہتی ہیں کہ ’پوسٹ مارٹم کے بعد جب لاش کو واپس کرنا ہوتا ہے تو ہم یہ خیال رکھتے ہیں کہ ایسے واپس کریں کہ ان کے عزیزوں اور رشتے داروں کو بُرا نہ لگے۔‘

وہ اپنی جانب سے کی جانے والی احتیاطوں سے متعلق واضِح کرتی ہیں کہ ’جب ہم لاش واپس کرتے ہیں تو ہماری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ لاش کم سے کم بگڑے۔ اگر ہم نے اوپر سے لے کر نیچے تک چِیر لگایا ہو اور اس کے پیٹ سے نمونہ لیا ہو، اگر ہم نے جگر کا نمونہ لیا ہو، آنتوں کا نمونہ لیا ہو یا معدے کا نمونہ لیا ہو تو پیٹ اندر چلا جاتا ہے۔‘

’ایسی صورت میں ہم پھر ایسا کرتے ہیں کہ پیٹ کے اندر کوئی کپڑا رکھ دیتے ہیں تاکہ جب ہم یہ لاش گھر والوں کو واپس کریں تو ان کو دیکھ کر برا نہ لگے۔ اگر آنکھ کا نمونہ لیا ہو تو کوشش ہوتی ہے آنکھ سے جتنا پانی لیا ہو اتنا ہی اندر واپس ڈال دیں تاکہ آنکھ اندر دَھنسی ہوئی محسوس نہ ہو۔‘

ڈاکٹر سُمعیہ گزرا وقت یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک زمانے میں بم دھماکے بہت زیادہ ہوتے تھے تو ہمیں لاشیں کٹی پھٹی ہوئی ملتی تھیں۔

لاش، پوسٹ مارٹم

’ہم لاش کا ایک ایک حصہ سی کر دیتے تھے تاکہ دیکھنے والوں کو برا نہ لگے لیکن کچھ ایسی لاشیں ہوتی ہیں جن کو دوبارہ جوڑ نہیں سکتے تو تب انھیں بند تابوت میں واپس کیا جاتا ہے۔‘

البتہ وہ اسی نوعیت کے ایک حالیہ واقعہ کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’کچھ دن پہلے ایک لاش تھی جس کا دو گولیاں لگنے کی وجہ سے جبڑا نہیں تھا۔ اس کیس میں ہم نے ان کے وارثوں کو کہا تھا کہ جب آپ جنازہ کریں تو ان کا پورا چہرہ نہ دکھائیں۔ ہم نے روئی ڈال کر سی تو دیا تھا لیکن اس کو دیکھنا محال تھا۔‘

ڈاکٹر سمعیہ پوسٹ مارٹم کے متعلق کچھ اور عمومی غلط فہمیوں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اپنے ہاتھوں سے پوسٹ مارٹم نہیں کرتے بلکہ صفائی کرنے والے عملے سے کراتے ہیں لیکن یہ بات انتہائی غلط ہے۔

’مجھے میری ٹیم میں مددگار عملہ چاہیے ہوتا ہے اور وہ باقاعدہ ہوسٹ مارٹم کے معاون ہوتے ہیں۔‘

’دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ ہم انسانی جسم کی چیر پھاڑ کر دیتے ہیں لیکن ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ ہم لوگ جتنا مناسب اور انتہائی ضروری ہوتا ہے صرف اتنا ہی کام کرتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکپتن کی ایس ایچ او: ‘کم از کم میں ان درندوں کو نہ چھوڑوں’

ڈاکٹر ثنا رام چند: کووڈ وارڈ کی ڈیوٹی کے ساتھ سی ایس ایس میں کامیابی

’فیلڈ میں کارروائی کر کے دل کو اطمینان ہوتا ہے‘

’سڑک پر حادثہ ہو اور گواہوں کی ایک مناسب تعداد کے سامنے کی بات ہو اور موت کی وجہ فوری معلوم ہو رہی ہو تو ہم صرف باہر سے پورے جسم کا ایکسرے کرنا ہی مناسب اور مکمل سمجھتے ہیں لیکن اگر لاش کسی گھر کے اندر سے ملی ہے تو پھر ہو سکتا ہے کہ ہمیں اندرونی معائنہ بھی کرنا پڑ جائے۔

ڈاکٹر سمعیہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ہم پر بہت پریشر اور کافی خطرے والی بات ہوتی ہے اور فیملی والے پوسٹ مارٹم نہیں کروانا چاہ رہے ہوتے۔

وہ ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ایک بار ایک ہی خاندان کے پانچ لوگ ٹریفک حادثے میں مر گئے۔ اس فیملی نے آ کر مردہ خانے کو گھیرے میں لے لیا۔ میرے آس پاس جمع ڈیڑھ سو لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم پوسٹ مارٹم نہیں کروائیں گے۔‘

ڈاکٹر سُمعیہ سید طارق

’یہ بہت مشکل وقت تھا۔ آپ نے ان کے اندر سے کوئی ایسا فرد ڈھونڈنا ہوتا ہے جو معاملے کو سمجھ سکے اور ان حالات میں ان کو سمجھانا ہوتا ہے کہ پوسٹ مارٹم یہ نہیں کہ ہم ضرور ہی اندرونی معائنہ کریں گے۔ انھیں منانا ہوتا کہ مجھے اپنا قانونی طور پر ضروری کام کرنے دیں۔‘

ڈاکٹر سمعیہ اپنے کام کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ وہ قبر کشائی کا کام بھی کرتی رہی ہیں۔

’قبر کشائی کے لیے ایک بورڈ ہوتا ہے اور میں اس بورڈ کی ممبر رہی ہوں۔ پوسٹ مارٹم کی طرح قبر کشائی کی بھی صرف ریاست کی طرف سے ہی کروائی جاتی ہے۔ قبر کشائی کو مجسٹریٹ کرواتا ہے۔‘

’سب سے پہلے قبر کشائی کا مقصد واضح ہونا ضروری ہوتا ہے کہ قبر کشائی کیوں کروائی جا رہی ہے۔ ہم زیادہ تر شناخت کے لیے یا پھر موت کی وجہ جاننے کے لیے قبر کشائی کرتے ہیں۔ ہم نے ایک دن میں 13 لاشوں کو قبروں سے نکال کر شناخت کیا تھا اور اس دوران میری یہ حالت تھی کہ پانچویں قبر کے بعد تھکاوٹ سے چکر آ گئے تھے۔‘

’کیا تمھیں پتا ہے بے گھر ہونا کس بلا کا نام ہے‘

ڈاکٹر سمعیہ نے کہا کہ ان کے پروفیشن میں ہر دن اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے کی لگن لگی رہتی ہے لیکن حاملہ خواتین اور بچوں سے متعلق معاملات ایسے ہیں جو ہمیشہ سے ان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

ایک ایسے ہی واقعے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ جب پورے سندھ میں سیلاب آیا تو متاثرین کی اپنے آبائی گھروں سے بے دخلی اور ان کی ہائی وے کے گرد عارضی بستی بنی تھی۔

ڈاکٹر سُمعیہ سید طارق

’میں نے ان دنوں میں جتنے بچوں کی کچلی ہوئی لاشیں دیکھیں، کبھی نہیں دیکھیں۔ ہائی وے پر تیز ترین ٹریفک کی روانی نے بھی کئی کچلی لاشیں گرائیں۔ بچے تیز گاڑیوں والی سڑک کے آر پار کھیلتے پہنچ جاتے اور نتیجہ ہلاکت خیز ہوتا۔‘

’یہ تین چار مہینے میرے لیے بہت مشکل تھے۔ ایک دن میں نے اپنے دفتر کی محفوظ عمارت کے اندر بیٹھ کر ایک عورت کو کہا کہ ان بچوں کو پکڑ کر کیوں نہیں رکھتیں تو اس عورت نے مجھے انتہائی کرب ناک لہجے میں کہا کہ ’کیا تمھیں پتا ہے گھر سے بے گھر ہونا کس بلا کا نام ہے؟‘ یہ جواب سنا تو مجھے تو جیسے چپ لگ گئی۔ کیا بول سکتی تھی میں؟ میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔‘

یہ واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر سمیعہ کی آواز جذبات اور احساس کے بوجھ سے بھاری ہو گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں اس پیشے میں اور اس فرض کے نبھانے میں روز اپنی نوعیت کا نئے سے نیا کیس سامنے آتا ہے۔

’میں نے گھریلو تشدد سے مرتی عورتیں دیکھی ہیں‘

اس سوال کے جواب میں کہ صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد میں عام طور پر کس طرح کے زخمی ان کے پاس آتے ہیں، ڈاکٹر سمعیہ بتاتی ہیں کہ ان میں ریپ اور ٹرانسجینڈر کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے کیسز آتے ہیں۔

’ہمارے پاس کوئی لگ بھگ دس فیصد متاثرین ہی آ پاتے ہوں گے۔ زیادہ تر کی تو ہم تک رسائی ہی نہیں ہو پاتی اور جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو لوگ تبھی ہمارے پاس آتے ہیں۔‘

’ایسے زیادہ تر کیسز میں سسرال کا ہاتھ ہوتا ہے مگر ایسا نہیں کہ بھائی، باپ اور ماں کا کردار نہیں ہوتا۔ ایسے بھی کیسز آئے جہاں بیٹے نے ستر برس کی ضعیف ماں پر تشدد کیا۔ نیل پڑے ہوتے ہیں، بالوں سے کھینچنے کا تشدد ہوتا ہے، فریکچرز ہوتے ہیں، مری ہوئی عورتیں بھی دیکھی ہیں۔ یہ کیس کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔‘

صنفی بنیادوں پر ہونے والے ایک ایسے ہی کیس میں ڈاکٹر سمعیہ کو جہاں اپنے ہارنے کا احساس ہوا بلکہ معاشرتی اور ریاستی انتظام کے بندوبست کے اندر خلا کا احساس بھی ہوا۔

"گھریلو تشدد کا شکار ایک خاتون میرے پاس آئی لیکن سسٹم اور حالات ان کی مدد نہ کر پائے اور وہ جان سے گئیں۔‘

ڈاکٹر سُمعیہ سید طارق

ڈاکٹر سمعیہ ایک اور پرانے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ایک بار ایک خاتون آئیں۔ تب میں میڈیکو لیگل آفیسر تھی۔ وہ پولیس سے خط لکھوا کر آئیں کہ ان کا شوہر انھیں مارتا ہے۔ کہنے لگیں کہ میں بہت تھک گئی ہوں اور اب میں کیس کروں گی۔‘

’جب میں نے دیکھا تو ان کے چہرے پر تھپڑوں کے نشان تھے اور جسم پر نیل تھے۔ نوچنے کے نشان تھے۔ میں نے لکھ دیا کہ معمولی زخمی ہیں۔ اس کے ایک ہفتے بعد وہی خاتون ایک اور ڈاکٹر کے پاس آئیں۔ اس وقت ان کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور پھر کیس بنایا۔ کچھ دن بعد پھر وہ میرے پاس آتی ہیں ایک اور چھوٹی انجری کے ساتھ، اگلے ہفتے بعد میجر انجری کے ساتھ اور اس سے اگلے ہفتے میں ہی تھی جس نے ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا۔‘

ڈاکٹر سمیعہ کا ماننا ہے کہ جب تک خواتین کا اپنی زندگی کے فیصلوں پر خود اختیار نہیں ہو جاتا اس طرح کے معاملات روز ہوتے رہیں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلے ازدواجی ریپ کے اتنے کیسز نہیں آتے تھے لیکن اب ایسے کیسز بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔

’اب خواتین آ کر بات کرتی ہیں کہ ہم نے منع کیا تھا لیکن خاوند نے زبردستی جنسی تعلق قائم کیا۔ شاید یہ سوشل میڈیا کے اثرات ہیں۔ ان کیسز میں قانون تو خاتون کی مدد کرتا ہے مگر خاتون کا اس سلسلے میں بیان بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔‘

’میرا کام پوسٹ مارٹم یا قبرکشائی کے بعد ختم نہیں ہو جاتا‘

اپنے پروفیشن کے حوالے سے مزید بتاتے ہوئے ڈاکٹر سمیعہ بتاتی ہیں کہ ان کا کام میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ بنا دینے، پوسٹ مارٹم یا قبر کشائی کرنے سے ختم نہیں ہو جاتا۔

’ہم تفصیلات اور نوٹس لیتے ہیں اور ان کی وجوہات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کیوںکہ ہمیں عدالت بھی جانا ہوتا ہے اور جرح کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے اشاروں اور نشانات کو آپس میں جوڑ کر جرم کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ ہمار کام یہ نہیں کہ ہم نے صرف چِیرا لگانا ہے بلکہ ہمارا کام انصاف کی فراہمی کا اہم ستون ہے۔‘

’انصاف کی فراہمی میں ایک طرف تفتیشی افسر ہوتا ہے، پراسیکیوشن ہوتی ہے، میڈیکو لیگل آفیسر ہوتا ہے اور جج ہوتے ہیں۔ ہمارا بہت اہم کردار ہے اور مجھے اس پر فخر محسوس ہوتا کہ ہم انصاف کی فراہمی کے لیے اپنی پوری ہمت سے کام کرتے ہیں۔‘

اپنے پروفیشن پر جہاں انھیں فخر ہے اس کے ساتھ انھیں اپنے کام میں درپیش چیلنجز کی سمجھ بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پوسٹ مارٹم میں جلی ہوئی لاشوں کا معاملہ بڑا مشکل ہوتا ہے۔

’اس میں یہ اندازہ لگانا کہ مارنے کے بعد جلایا گیا یے یا جلا کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا، اس بارے میں یقین سے کہنا بہت چیلنجنگ ہو جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر سمعیہ کو بہت عجیب اور مشکل معاملات سے نمٹنا پڑتا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ’میں کیا کیا نہیں دیکھتی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں معاشرے کے کچرے دان کے پاس بیٹھی ہوں، جہاں کئی طرح کا نا قابلِ بیان گند جمع ہوتا ہے۔‘

لیکن یہ بات کہہ کر وہ اپنے عزم کو بھی دہراتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’اگر میں کمزور ارادے کی حامل ہوتی تو کب سے یہ کام چھوڑ چکی ہوتی لیکن میرا اس طرح جینے کا ہنر، اپنی زندگی پر اپنے اختیار سے مجھے ملا۔ میں ایک با اختیار عورت اور اپنی ہمت پر کھڑی فرد ہوں۔‘

یہ فقرے کہتے ہوئے ڈاکٹر سمعیہ کی آواز میں توانائی کا احساس ابھر کر سامنے آیا۔

اس سوال کے جواب میں کہ، لاشوں، جلے جسموں، کٹے اعضا اور زخموں سے چُور انسانوں کو دیکھنے کی اس مشکل دنیا میں کیا ان کے لیے خوشی اور اطمینان کے کوئی لمحے بھی ہوتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’جی۔۔۔ جب کسی جرم کرنے والے کا جرم عدالت میں ثابت ہو جاتا ہے تو روح میں ایک طرح کے اطمینان اور تسلی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جب میرے کسی کیس پر سزا ہو جاتی ہے تو میرے لیے اس سے بڑی خوشی کوئی نہیں ہوتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments