ٹیسٹ ٹیوب نظام


ذہن اور لفظ قطعی طور پر دو مختلف سمتوں میں چل رہے ہیں۔ یہ سوچ سوچ کر ذہن تھک رہا ہے کہ ہم آگے کا سفر کب کریں گے۔ راستے کے پتھر بھی ٹھوکر کھا کر بول پڑتے ہیں مگر ایک ہم ہیں کہ ہر بار راستوں کو الزام دیتے ہیں، راہرو کو کبھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔

ناکامی بانجھ ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں ہر 10 سال بعد جنم لیتی ہے اور بچے بھی دیتی ہے۔ ہر دہائی سسٹم کی ناکامی کی نذر جبکہ ہر ناکامی کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بنتی ہے مگر سیکھتے ہم پھر بھی نہیں۔

سسٹم کے سپرد ہر چیز اور مورد الزام بھی سسٹم۔ بس یہ سسٹم ہی ایسا ہے، سسٹم بدلنا چاہیے، سسٹم ناکام ہو گیا ہے اور سسٹم ڈیلیور نہیں کر پا رہا۔ غرض وطن عزیز میں سسٹم نے ہر کسی کے عیب چھپا رکھے ہیں، ہر کسی کی کمزوری کو پناہ دے رکھی ہے مگر پھر بھی الزام سسٹم پر۔

گذشتہ 75 برسوں میں ہر طرح کے نظام کو وطن عزیز کی تجربہ گاہ میں آزمایا گیا۔ سسٹم چلانے والے سسٹم بنا نہیں سکے اور سسٹم آزمانے والے ہیں کہ سسٹم سے اُکتاتے نہیں۔

ہر طرح کے نظام لیبارٹریوں میں تیار کیے گئے اور مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت نظام ہی لپیٹ دیا جاتا رہا اور کسی نئے نظام کی تلاش میں آئین معطل اور جمہوریت مؤخر کی جاتی رہی۔ نتیجہ نظام التوا کا شکار جبکہ عوام نظام سے ہی بیزار۔ ستم ظریفی کہ معاشرے کی بنیاد آدھے سچ پر ہے۔ نظام ناکام ہے لیکن ناکام ہوا کیسے، اس پر اظہار محال اور سوال بیکار۔

اس ملک میں ہر چیز ٹیسٹ کی گئی ہے لیکن اگر کسی نظام کو وقت، موقع، حالات اور مناسب تجربے کا وقت مہیا نہیں کیا گیا تو وہ ہے جمہوریت۔ لیاقت علی خان سے لے کر آج تک ہر طرح کا نظام تجربہ گاہ میں متعارف کروایا گیا۔

10 سال کا ایک ایسا دور بھی گُزرا جس میں گورنر جنرل محض اشاروں سے کاروبار مملکت چلاتے رہے۔ آئین اور قانون کا جس طرح مذاق اُڑایا جاتا رہا اُس کی نظیر شاید تاریخ کے کسی ایسے دور میں ملتی ہو جو رقم نہیں ہو سکا۔

جنرل ایوب

گورنر جنرل غلام محمد کے ’مفلوج دور‘ کا اختتام جنرل ایوب کے باقاعدہ ’فوجی انقلاب‘ کی صورت نکلا۔ ہائبرڈ اور آمرانہ دہائی میں ون یونٹ کا تجربہ کیا گیا اور انجام پاکستان کے دولخت ہونے کی صورت وطن عزیز نے بھگتا مگر چونکہ یہ سسٹم کی ناکامی تھی اور ناکامی ہمارے ہاں بانجھ نہیں ہوتی لہذا اس ناکامی کی ذمہ داری بھی سسٹم پر ڈال کر اور کچھ ملبہ سیاست دانوں پر گرا کر سسٹم کو بدل دیا گیا۔ اس دور کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی خود کو بری الذمہ رکھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوریت کے مختصر دور کا اختتام ایک بار پھر جنرل ضیا کی فوجی آمریت کی صورت ہوا جس میں ’اسلامی نظام‘ کو بنیاد بنا کر اقتدار پر قبضہ جمایا گیا۔ خدا کے سامنے انفرادی جوابدہی ریاست کے ہاتھ آئی اور یوں مذہب فرد سے معاشرے کو منتقل ہوا۔

اس دور میں مذہب کا بے دریغ استعمال مخصوص ذہن سازی اور مذہب کے اصل پیغام یعنی انسانیت کی بالادستی کی بجائے ہر چیز کو سیاسی اور ریاستی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہاپسندی کو فروغ دے کر آمریت کو دوام دینے کی کوشش کی گئی اور یہ کوشش اب بھی جاری ہے۔

باقی کے 10 سال جمہوریت کی چھوٹی چھوٹی جھلکیاں دکھائی گئیں اور ایک بار پھر روشن خیالی کا نظام جنرل مشرف اپنی مٹھی میں بند کر کے لے آئے۔ ان 10 سالوں میں اقتدار پر قبضہ ایک نئے بلدیاتی نظام کے نام پر مضبوط کیا گیا تاہم جمہوریت کے نام پر اصل فیصلہ ساز عوام کو حق حکمرانی سے دور رکھا گیا اور صدر مملکت فرد واحد کے طور پر صدارتی نظام سے مستفیض ہوتے رہے۔

جنرل مشرف

سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اٹھارویں ترمیم سے جمہوری نظام کو تقویت دینے کی آئینی کوشش کی تاہم ایک اور ہائبرڈ نظام کی راہ ہموار کی گئی۔ اس بار ٹیسٹ ٹیوب نظام متعارف ہوا۔

تجربہ گاہ میں تیار کردہ اس نظام میں مذہب سے لے کر گذشتہ تمام ناکام نظاموں کے اجزا شامل کیے گئے تاہم مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت اب پھر نظام کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے اور کسی نئے نظام کی بساط بچھانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

ریاست مدینہ کا نام لے کر عوام کو حکمرانوں اور طرز حکمرانی پر سوال کرنے کے راستے مسدود کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں ایک منظم انداز میں مخصوص انتہا پسندی کی ترویج ایک اور ناکامی کو جنم دے سکتی ہے۔ اس ناکامی کو بھی ہائبرڈ نظام کے لبادے میں دفن کیا جائے گا مگر اس کے بھیانک نتائج حکمرانوں کے لیے بھی ڈرؤانا خواب بن سکتے ہیں۔

ہر بار سسٹم ہی ناکام ہوتا ہے، سسٹم بنانے والے ناکام نہیں ہوتے۔ ایک بار اسے بھی تبدیل کرنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے، عوام کو سسٹم میں حصہ دار کیوں نہ بنایا جائے تاکہ نظام چل پڑے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments