چین سری لنکا اقتصادی شراکت: پورٹ سٹی منصوبہ، ایک نیا دبئی یا ایشیا میں چین کی نئی ’چوکی‘؟

انبارسن ایتھیراجن - بی بی سی نیوز، کولمبو


کولمبو پورٹ سٹی منصوبہ
کولمبو پورٹ سٹی منصوبہ
سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں سمندر کے پاس ’کولمبو پورٹ سٹی‘ منصوبے کو حکام ایک معاشی گیم چینجر کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔

کولمبو کے کاروباری ڈسٹرکٹ سے قریب ہی ساحل سمندر پر ایک ’ٹیکنالوجی کا شہکار‘ شہر بن رہا ہے۔ ریت کے ذریعے بننے والے اس ساحلی شہر میں ایک آف شور بین الاقوامی مالیاتی مرکز، رہائشی علاقے اور ایک مرینہ بھی ہو گا اور اسی لیے کولمبو پورٹ سٹی کا موازنہ دبئی، ہانگ کانگ اور موناکو جیسے شہروں سے کیا جا رہا ہے۔

کولمبو پورٹ سٹی کے اکنامک کمیشن کے ممبر سالیا وکراماسوریا کے مطابق ساحل پر اس نئے شہر کی تعمیر سے ’سری لنکا کو ایک نادر موقع مل رہا ہے کہ وہ از سر نو نقشہ بنا کر بین الاقوامی معیار کا ایسا شہر تعمیر کرے جو دبئی یا سنگا پور کا مقابلہ کر سکے گا۔‘

لیکن ناقدین سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ منصوبہ واقعی سری لنکا کے لیے معاشی گیم چینجر ثابت ہو گا۔

665 ایکڑ پر مشتمل اس علاقے کی تعمیر کے لیے سری لنکا کو چین کی ہاربر انجینئیرنگ کمپنی (سی ایچ ای سے) سے 1.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔ اس کے جواب میں چینی کمپنی کو اس پراجیکٹ کا 43 فیصد حصہ 99 برس کے لیے لیز پر دے دیا گیا۔

کئی برسوں کی کھدائی کے بعد اب یہاں تعمیراتی کام تیزی پکڑ رہا ہے اور نئے شہر کی شکل سامنے آنے لگی ہے۔

چینی انجینئیروں کی نگرانی میں بڑی بڑی کرینیں کنکریٹ کی سلوں کو اِدھر اُدھر رکھ رہی ہیں جبکہ ٹرکوں کو ریت سے بھرا جا رہا ہے۔

اس زمین سے گزرنے والی ایک نہر کی پہلے ہی کھدائی کی جا چکی ہے جس سے چھوٹی کشتیوں کی رسائی ممکن ہو گئی ہے۔

حکام کے مطابق جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کے اس پہلے منصوبے کو مکمل ہونے میں تقریباً 25 برس لگیں گے۔

سری لنکا کا کہنا ہے کہ یہ پورا علاقہ بشمول چینی کمپنی کو دیا جانے والا حصہ ملٹی نیشنل کمپنیوں، بینکوں اور دوسری کمپنیوں کو لیز پر دیا جائے گا۔ حکومت ان کی آمدن پر محصولات بھی وصول کر سکتی ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ تقریبا 80 ہزار افراد اس نئے شہر میں رہیں گے جہاں کاروبار کرنے والے افراد کو ٹیکس میں خاص چھوٹ دی جائے گی۔ اس خاص معاشی زون میں تنخواہوں سمیت لین دین امریکی ڈالر میں ہو گا۔

اس ساحلی شہر کے منصوبے کا اعلان چین کے صدر شی جن پنگ کے سنہ 2014 میں دورہ کولمبو کے دوران کیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل ہی چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز کر چکا تھا: ایک ایسا منصوبہ جو ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے سڑکوں، ریلوے اور سمندری انفراسٹرکچر پر مشتمل ہو گا۔

سنہ 2009 میں تامل علیحدگی پسندوں کے ساتھ جاری ایک طویل جنگ کے خاتمے پر سری لنکا نے مالی مدد کے لیے چین سے رجوع کیا تھا۔ مغربی ممالک پہلے ہی سری لنکا میں جنگ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کر چکے تھے۔

شی جن پنگ کے دورے کے وقت مہیندا راجاپکسا سری لنکا کے صدر تھے لیکن وہ اس کے ایک برس بعد ہونے والے انتخابات میں ہار گئے جس کی ایک بڑی وجہ ووٹرز کے دماغ میں، ہمبنٹوٹا کے جنوب میں وسیع بندرگاہ کے لیے چینی قرضوں سے متعلق موجود خدشات تھے۔

آٹھ برس بعد راجاپکسا اب بحیثیت وزیراعظم دوبارہ اقتدار میں آ چکے ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی گوتابیا صدر ہیں۔

لیکن ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ اب سری لنکا کے ہاتھ میں نہیں۔ سنہ 2017 میں سری لنکا کی حکومت نے چینی فرمز کو قرض کی ادائیگی میں ناکامی پر اسے چین کے حوالے کر دیا جبکہ اس بندرگاہ سے حاصل ہونے والی کچھ رقم بھی مبینہ طور پر دوسرے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی۔

اس لیے شاید یہ حیرت کی بات نہیں کہ سری لنکا میں ہر کوئی اس پراجیکٹ کے بارے میں پورٹ سٹی کے حکام کے جوش و خروش میں شریک نہیں۔

اس منصوبے پر بہت سے خدشات ہیں جس میں سے ایک اتنے بڑے پراجیکٹ کے ماحولیاتی اثرات بھی ہیں۔

کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس منصوبے سے ہونے والی ترقی سے ملک کو اتنا زیادہ فائدہ نہیں ہو گا جتنا اس منصوبے کے حامیوں کا دعویٰ ہے۔

معاشی ماہر دیشل دیمیل کہتے ہیں کہ ’پورٹ سٹی کی ایک ممکنہ منفی حقیقت یہ ہے کہ یہاں ٹیکس میں چھوٹ کا قانون شامل ہیں۔ کچھ سرمایہ کاروں کے لیے 40 سال تک ٹیکس میں چھوٹ کا امکان ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ٹیکس کی اتنی بڑی رعایت سے سری لنکا کی مجموعی آمدن میں اضافہ نہیں ہو گا۔‘

ٹیکس کے اس نظام نے دوسری پریشانیوں کو بھی جنم دیا ہے۔ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ کاروبار میں نرمی کی وجہ سے یہ علاقہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کی پناہ گاہ بن سکتا ہے تاہم سری لنکا کے وزیر انصاف محمد علی صابرے اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ یہاں عام فوجداری قانون لاگو ہوتا ہے۔ ’ہمارا منی لانڈرنگ سے متعلق قانون اور مالیاتی انٹیلیجنس یونٹ فعال ہے۔ ان تمام چیزوں کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں کہ کوئی ایسا کر کے بچ سکے۔‘

عالمی سطح پر چین کے بڑھتے جارحانہ انداز میں اس کے طویل المدتی سٹریٹجک عزائم پر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

سری لنکا میں چین کا بڑھتا اثر و رسوخ انڈیا کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ پورٹ سٹی کا مقصد انڈیا میں موجود کثیر القومی اداروں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنا بھی ہے، جس سے وہاں سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقع کم ہو سکتے ہیں۔

لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کولمبو پورٹ سٹی منصوبے سے سری لنکا کو بھی خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چین کے ساتھ پورٹ سٹی پراجیکٹ سری لنکا کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالے گا؟

چین کا قرض دار ہونا ترقی پذیر ممالک کے لیے کتنا بھاری پڑ سکتا ہے؟

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ فورم ہے کیا؟

سنہ 2020 میں ایشیائی ملک لاؤس نے دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے توانائی کے گرڈ کا کچھ حصہ چین کو فروخت کر دیا تھا تاکہ دونوں ممالک کو جوڑنے والے ریلوے کے لیے فنڈز فراہم کیے جا سکیں۔

تو کیا ہمبنٹوٹا کی طرح کولمبو پورٹ سٹی بھی آخر میں چین کی چوکی بن جائے گا؟

سری لنکا میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان راجیتھا سینارتن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت جس طرح حکومت نے چینیوں کو رضامندی ظاہر کی ہے، اس سے چین نے پورٹ سٹی پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اصل میں ایک دن اس منصوبے پر سری لنکا کا کوئی اختیار نہیں ہو گا۔‘

چینی دانشور زاو بو اس سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس کا فائدہ دونوں ملکوں کو ہو گا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’چین کسی بھت ملک کو قرضے کے جال میں پھنسانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘

سری لنکن حکام بھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔ پورٹ سٹی اکنامک کمیشن کے ممبر سالیا وکراماسوریا کہتے ہیں کہ ’یہ پورا علاقہ سری لنکا کی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ پیٹرولنگ، پولیس، امیگریشن اور قومی سلامتی کے دوسرے فرائض سری لنکا کی حکومت کے پاس ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کوئی خیرات نہیں۔ ہم بھی باہمی فائدہ چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری سرمایہ کاری کے معاشی فوائد ہوں۔‘

لیکن سری لنکا، جس کو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے، کے پاس بہت کم آپشن ہیں۔

کورونا کی عالمی وبا نے اس کے سیاحت کے منافع بخش شعبے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ملازمتوں اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی بھی ہوئی ہے۔

ملک کے بیرونی قرضے 45 ارب ڈالر تک بڑھ چکے ہیں جن میں سے آٹھ ارب ڈالر کا قرضہ صرف چین کو ادا کرنا ہے۔

سری لنکا نے کچھ روز قبل اپنے ملک کے دورے پر آئے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی سے درخواست کی ہے کہ بیجنگ قرض کی ادائیگی کے معاملات کی تنظیم نو کرے۔

لیکن بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے بار بار کمی کے ساتھ، کولمبو کے پاس مزید قرضوں کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے پاس جانے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔

صرف چین کے پاس طویل المدتی مقاصد اور سرمایہ دونوں ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ آنے والے برسوں کے دوران سری لنکا میں ہانگ کانگ کی طرز کا ایک شہر ایشیا کے اس حصے میں چین کو قدم جمانے میں مدد کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments