“جدید ادب کا سیاق” میری نظر میں


”جدید ادب کا سیاق“ ڈاکٹر علمدار حسین بخاری کی مشرقیت پسندی کا ثمر ہے۔ جو 2019ء میں فکشن ہاؤس سے شائع ہوئی۔ بخاری صاحب نے اپنے اس مطالعے میں جدید ادب کے پس منظر میں کارفرما نوآباد کاروں کے عزائم کو دریافت کر کے جدید ادب کی تفہیم کا ایک نیا در وا کیا ہے۔ جس سے قاری کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ”جدید ادب کا سیاق“ کا مطالعہ نو آباد کاروں کے طرز فکر اور ان کے استحصالی طریقہ کار کو سمجھنے میں معاون ہے۔ جدید ادب کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو چاہیے کہ وہ اس کے دیگر تناظر کے ساتھ نو آباد کاری کے تناظر کو بھی پیش نظر رکھے تاکہ اس کی تفہیم صحیح معنوں میں ہو سکے۔ یہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے جدید ادب کی اصل بنیادوں تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔

ادب کا نو آبادیاتی مطالعہ ایک مشکل موضوع ہے۔ اس مطالعہ میں بہت سی گھمبیرتائیں آتی ہیں جنہیں عبور کر کے اس کا سرا تاریخ کی دبیز تہوں سے تلاش کرنا پڑتا ہے پھر کہیں جاکر اس موضوع کا کچھ حصہ کھلتا ہے۔ شاید یہ موضوع مجھ پر اس قدر منکشف نہ ہوتا اگر بخاری صاحب کی صحبت میسر نہ آتی۔ اگرچہ یہ صحبت قلیل المدت تھی لیکن اس نے مجھے مطالعہ کا عادی بنا یا۔ آج مجھ میں تخلیقی صلاحیتوں کی جو رمق نظر آتی ہے اسے میں بخاری صاحب کا فیض سمجھتا ہوں۔

بخاری صاحب روایتی دائروں کے بالکل قائل نہیں ہیں۔ وہ دوسروں کی متعین کردہ راہوں پر چلنا پسند نہیں کرتے۔ وہ حقائق کی دریافت غیر جانب دار رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ وہ مسئلے کی نوعیت جانے بغیر اس کے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کرتے۔

”جدید ادب کا سیاق“ میں انھوں نے فکری نوعیت کے مختلف سوال اٹھائے جن پر خاطر خواہ بحث کی ہے۔ انھوں نے ان سوالوں پر نظر مختلف حوالوں اور زاویوں سے ڈالی ہے تاکہ ان کے مختلف پہلو اجاگر کیے جا سکیں۔

افراد کے ذہنی اور فکری رویے تاریخ کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ افراد کا تشخص ان کی تاریخ کے مطالعے کے بغیر دریافت نہیں کیا جا سکتا۔ افراد کا مجموعی تشخص قومی تشخص کو تشکیل دیتا ہے۔ بخاری صاحب نے جدید ادب میں فروغ پانے والے نو آباد کاروں کے رجحانات کے مطالعہ کے لیے ادبی متن کو مختلف ادبی، سماجی اور سیاسی نظریات کے ساتھ اس کے تاریخی تناظر میں رکھ کر دیکھا ہے۔ وہ ادب اور تاریخ کے تعلق پر بات کرتے ہوئے یہ واضح کرتے ہیں کہ تاریخی بیانیہ ہی وہ اینٹ ہے جس پر حکمران یا نو آباد کار اپنی برتری کی عمارت تعمیر کرتے ہیں اور اپنی حکومت قائم کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں۔

جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ادب کا نو آبادیاتی مطالعہ تاریخ کے کھوج کے بغیر ممکن نہیں۔ ادبی نظریے اور تاریخی بیانیے کی حدیں آپس میں کہیں پر ضرور ملی ہوتی ہیں۔ جنہیں دریافت کرنا خاصا مشکل اور محنت طلب کام ہے جو بخاری صاحب نے کیا ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے تو ادبی نظریے اور تاریخی بیانیے کے تعلق کو واضح کیا ہے۔ پھر اس تعلق کو لسانیاتی اور نفسیاتی پہلؤوں سے دیکھا ہے۔ انھوں نے زبان کے اس مخصوص نظام کی وضاحت کی ہے جو ادبی نظریے اور تاریخی بیانیے کو تشکیل دیتا ہے۔ ان کے نزدیک مطالعہ زبان کا ہو یا تاریخ کا اس میں زبان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے ادبی اور تاریخی تحریر کے لسانیاتی پہلو کو بڑی عرق ریزی سے دیکھا ہے اور واضح کیا ہے کہ جس طرح ادبی تحریروں کی قدر اس کی لسانی حیثیت کرتی ہے بالکل ویسے ہی تاریخی بیانیے کی قدر بھی اس کی لسانی حیثیت کے ساتھ مشروط ہے۔

تاریخ کے مطالعہ کے ذریعے ہی سماج کے ارتقا، ترقی اور اس کی نمو کی رفتار اور اس کے مستقبل کے متعلق پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ بخاری صاحب نے اسی بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جدید ادب کو بر صغیر پاک و ہند اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے اہم واقعات کے تناظر میں دیکھا ہے کیونکہ کچھ عالمی واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں جن کے بعد نو آباد کاروں کو پوری دنیا میں کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ انھوں نے مفتوح خطوں میں نوآبادیاتی ڈسکورس متعارف کروایا۔

انھوں نے اپنی برتری کے مختلف حربوں کے ذریعے پوری دنیا کے وسائل پر اپنا قبضہ جما لیا۔ دراصل نظام نوآبادیات اقتدار کا حریصانہ جال ہے۔ جس میں پھنسی قومیں یہ سمجھ لیتی ہیں کہ ان کے حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں حالانکہ وہ ہمیشہ کے لیے غلامی کی زنجیروں میں اسیر ہوتی جا رہی ہوتی ہیں۔ نو آباد کاروں کے ذہنیت کو سمجھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ وہ ان لوگوں کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیتے ہیں جو ان کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔

بخاری صاحب نے بڑے اچھے انداز میں ان رخنوں اور دراڑوں کی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعے نوآباد کاروں نے مقامی، لسانی اور مذہبی اختلاف کو ابھار کر صدیوں کی محنت اور کوشش سے وجود میں آنے والی ہندو مسلم تہذیب کو چند سالوں میں تہ و بالا کر دیا۔ نو آباد کاروں نے ہندو مسلم تہذیبوں کے متضاد دھاروں کو بروئے کار لا کر ہندؤوں اور مسلمانوں کے بیچ نفرت کی آگ بھڑکائی جس نے برصغیر پاک و ہند کی دھرتی کا بٹوارہ کر دیا۔ اس بٹوارے نے محض زمین کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ اس دھرتی پر پروان چڑھنے والی تہذیب کے ارتقا میں مختلف رکاوٹیں حائل کر دی۔

جس سے ہندو مسلم تہذیب جامد ہوتی گی۔ جس سے نوآباد کاروں نے فائدہ اٹھایا اور اس کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دینے لگے۔ اس طرح سے انھیں اپنی اقدار، روایات اور مذہب کو متعارف کروانے کا موقع مل گیا۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے نوآباد کاروں کے مقابلے میں مقامی لوگوں نے اپنی اقدار، روایات اور مذہب کا تحفظ کیا۔ جس سے ہندو، مسلم اور عیسائی مبلغین مناظرے کرنے لگے۔ جس سے بر صغیر پاک و ہند میں مختلف نوعیت کے مناظرے فروغ پا گئے۔

لیکن اب ان مناظروں کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب مناظرے مختلف مذاہب کی بجائے ایک ہی مذہب کے مختلف فرقوں کے مابین ہوتے ہیں۔ نوآباد کاروں نے مذہب کے بعد اگلا ہدف تعلیم کو بنایا۔ انھوں نے تعلیم کو ذہن سازی کے لیے حربے کے طور پر استعمال کیا۔ انھوں نے نصاب تعلیم کو اپنے مقاصد کے مطابق تشکیل دیا۔ انھوں ماقبل کے نظام تعلیم کو بے کار فرسودہ قرار دیا۔ انھوں نے بر صغیر پاک و ہند کے لوگوں کے متعلق تعلیمی حوالے سے جو پروپیگنڈا کیا اسے بخاری صاحب نے نو آباد کاروں کے عہد میں شائع ہونے والی مختلف تعلیمی رپورٹوں کے ذریعے غلط ثابت کیا۔

ان کی تحقیق کے مطابق بر صغیر پاک و ہند میں نوآباد کاروں کی آمد سے قبل شرح خواندگی اعلی سطح پر تھی۔ یہاں کے باشندے امریکہ (شمالی، جنوبی) اور افریقہ کے بعض علاقوں کی طرح وحشی اور جنگلی نہیں تھے بلکہ مہذب اور تہذیب یافتہ تھے۔ جن کی تہذیب میں خرابیاں نوآباد کاروں نے پیدا کی ہیں۔ نو آباد کاروں سے قبل برصغیر پاک و ہند میں بھائی چارے کی ایک ایسی فضا تھی جس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں ملے۔

نو آباد کاروں نے جہاں پر بھی اپنے پنجے گاڑے ہیں وہاں انھوں نے سب سے پہلے مقامی باشندوں کو ان کی تہذیب سے الگ کر کے ان کی پہچان ختم کی ہے اور ان کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ نوآباد کاروں سے ہر لحاظ سے کمتر ہیں۔ اس طرح سے ان کو مقامی باشندوں کے استحصال کا جواز ملنے کے ساتھ ان کی نیک نامی کا چرچا ہوا۔ نوآباد کاروں کی انسان دوستی اور ان کے آزادی کے تصورات میں پوشیدہ برائیوں کا بخاری صاحب نے احاطہ کیا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں انیسویں اور بیسویں صدی میں فروغ پانے والا متوسط طبقہ ( جو نو آباد کاروں کے مقاصد کی تکمیل میں آلہ کار بنا) کی علمی، ادبی اور سیاسی خدمات کا بغور مطالعہ کر کے بخاری صاحب نے وہ منصوبہ منظر عام پر لے کر آئے ہیں جس کے تحت نوآباد کار انھیں استعمال کرتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی بخاری صاحب نے برصغیر پاک و ہند اور یورپ میں پائے جانے والے متوسط طبقوں کے درمیان بنیادی فرق کو بیان کیا ہے۔

اتنا کچھ کرنے کے باوجود نو آباد کار مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئے۔ بعض ادارے جو نوآباد کاروں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے قائم کیے تھے ان میں کچھ شخصیات ایسی بھی تھیں مشرقیت پسند تھیں۔ اس ضمن میں بخاری صاحب نے مسٹر ڈبلیو آرنلڈ اور علامہ شبلی نعمانی کا ذکر کیا ہے۔ جو علی گڑھ کالج سے وابستہ ہونے کے باوجود اس کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں تھے۔

نو آباد کاروں نے متوسط طبقے سے جڑی ہر قدر کو کایا کلپ کیا تاکہ وہ وہی کچھ دیکھ اور سمجھ سکیں جو نو آباد کار انھیں دکھانا اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ نوآباد کاروں نے کسی سطح پر بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا کہ وہ بر صغیر پاک و ہند میں غلام معاشرے کا وجود دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہی بنیادی وجہ ہے جس کی بدولت مغربی فکر بر صغیر پاک و ہند میں صحیح طور پر پنپ نہیں سکی۔ نو آباد کاروں نے اردو ادب میں جن مغربی تجربات اور تحریکوں کو متعارف کروایا۔ ان کی بنیادی ساخت کے متعلق سیر حاصل گفتگو بخاری صاحب نے کی ہے۔ لکھاری کی ان مجبوریوں اور بے بسیوں کا ذکر بھی کیا ہے جو اردو ادب میں درآمدی اصناف کے ساتھ ورود کر آئی ہیں۔

بخاری صاحب نے جنگ عظیم دوم اور 1947ء کے بعد نئی نوآباد کاری کے نظام اور طریق کار پر جامع بحث کی ہے۔ جو اکیسویں صدی کے دیگر مسائل کو سمجھنے کے حوالے سے بڑی مفید ہے۔

میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ بخاری صاحب نے ”جدید ادب کا سیاق“ کی صورت میں جو ادبی کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments