بگڑتی معیشت اور شاہ ولی اللہ کا فلسفہ


ملکی سیاست کے حالیہ منظر نامے میں خاص و عام کی اکثریت ملکی معیشت کی گرتی ہوئی صورتحال پر شکوہ کناں اور فکر مند ہے۔ یہ فکر مندی بجا ہے، کیونکہ ماضی قریب کی مثالیں اس کے بھیانک نتائج پر شاہد ہیں۔ چاہے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہو یا سویت یونین کا زوال، ان میں جنگوں سے زیادہ معیشت کی کمزوری انہیں لے ڈوبی۔

ظاہر ہے جب ریاست اپنے وسائل سے عام آدمی کے مسائل حل نہ کرسکے اور ان کی ہمدردیاں حاصل نہ کرسکے تو نچلی سطح پر بے چینی کی فضا اس مملکت کے استحکام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ یورپ و دیگر ممالک میں انقلابات کی وجہ بنی، جہاں مختلف رہنماؤں نے رائج فرسودہ معاشی نظام کے مقابل اپنے اقتصادی نظریات پیش کیے۔ چاہے آدم سمتھ کا سرمایہ دارانہ نظام ہو یا کارل مارکس کا اشتراکیت کا نظریہ و نظام، یہ مختلف نظریات و افکار دنیا میں آزمائے جا چکے ہیں۔

وطن عزیز پاکستان میں بھی ان کی بازگشت شروع ہوئی۔ مگر عام آدمی کو مطمئن نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس ہمارے برصغیر کے ایک بڑے انقلابی مفکر جس نے یورپی مفکرین سے پہلے ہمارے فرسودہ نظام کا تجزیہ کر کے اپنا معاشی فلسفہ پیش کیا۔ مگر ستم در ستم یہ کہ ہماری نسل نو چراغ تلے اندھیرے کے مترادف اس شخصیت اور فلسفے سے نا آشنا ہے، جس پر دنیا کے جامعات میں تحقیقی کام جاری ہے۔

اس عظیم شخصیت کو دنیا شاہ ولی اللہ دہلوی رح کے نام سے جانتی ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے آنے والے دور کے مسائل کو محسوس کرتے ہوئے انقلاب فرانس سے 50 سال قبل اور کارل مارکس کی پیدائش سے 100 سال قبل انسان کے جمہوری، معاشرتی و اقتصادی حقوق کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائی۔

شاہ ولی اللہ رح کے نزدیک دولت پر نہ حکومت کی اجارہ داری ہے، نہ ہی کسی فرد کی۔ بلکہ دولت کا مستحق محنت کش ہے۔ ہر وہ شخص جو بغیر محنت کیے جوا، سود یا دربار سے انعامات جیسے طریقوں سے مفت مال بٹورے، شاہ صاحب کے نزدیک ایسا طبقہ معاشرے کے لیے ناسور ہے۔

شاہ ولی اللہ رح کے فلسفے کے مطابق مزدور کے کام کرنے کے اوقات اتنے محدود کرنا چاہیے کہ وہ لازمی ضروریات کے لیے وقت نکال سکے۔ اور قیمت باہمی تعاون کی بنیاد پر ہونی چاہیے جو کہ دینے والا اور لینے والا مجبوری کے بغیر رضا خوشی سے ادا کرسکیں۔

تعاون باہمی کا بہت بڑا ذریعہ تجارت ہے، لہٰذا اس کو تعاون کے اصول پر ہی جاری رہنا چاہیے۔ پس جس طرح تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ یا غلط قسم کی کمپیٹیشن سے تعاون کی روح کو نقصان پہنچائیں ایسے ہی حکومت کے لیے درست نہیں کہ بھاری ٹیکس لگا کر تجارت کے فروغ و ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے یا رخنہ ڈالے۔

شاہ صاحب ریاست اور حکومت کو عوامی ملکیت پر متولی سمجھتے ہیں، جو عوامی مال سے خود عیاشی کرنے یا درباری شخصیات کے لیے انعام و اکرام کے نام پر بے جا خرچ کا اختیار نہیں رکھتا۔

شاہ ولی اللہ دہلوی رح کے مطابق عوام پر ٹیکس کم سے کم لگانا چاہیے۔ اس کی وصولی میں نرمی سے کام لینا چاہیے۔ ورنہ وفادار عوام میں بھی بغاوت جنم لیتی ہے اور ریاست ویلفیئر اسٹیٹ بننے کے بجائے سیکورٹی اسٹیٹ بن جاتی ہے۔ جس میں صرف دفاع کا خرچہ بڑھتا جاتا ہے۔

شاہ ولی اللہ دہلوی رح نے یہ فلسفہ اپنی معروف کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں۔ میں پیش کیا، مگر آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے گویا یہ آج کی ہی منظر کشی کی گئی ہے۔

کیا آج بے جا ٹیکس کے اوپر ٹیکس سے عوام میں بے چینی اور اضطراب پیدا نہیں ہو رہا؟ کیوں ہم عالمی قرضوں کے محتاج ہیں؟ کیا ملک کی اصل طاقت مزدور و تاجر طبقے کو وہ سہولت میسر کی گئی ہے کہ وہ قومی دولت میں اضافے کا ذریعہ بن سکے؟ کیا حکمران اپنے بے جا اخراجات میں کمی کرسکے ہیں؟ اور کیا ٹیکسز وغیرہ کی وصولی کے عمل میں نرمی اور لچک موجود ہے؟ ٹیکسز کے مقابلے میں عوام کو سہولیات کتنی فیصد میسر ہیں؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سے نہ صرف بگڑتی معیشت کی وجوہات واضح ہوتی ہیں، بلکہ ان خرابیوں کی نشاندہی ہوگی، جن کی طرف شاہ ولی اللہ رح نے دو صدیاں پہلے توجہ مبذول کرائی ہے۔ ارباب اختیار سے دست بدستہ عرض ہے کہ معیشت کے باب میں آئے دن نت نئے تجربات کرنے کے بجائے اسلاف کے دیے گئے اصولوں کی روشنی میں معیشت مضبوط کر کے ملکی استحکام یقینی بنائیں۔ نیز بر صغیر کے عظیم مفکر و رہنما حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح کے افکار و فلسفہ کو تعلیمی نظام کا مستقل جز بنا کر نسل نو کی تربیت کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).