سرمائی اولمپکس: مغربی کھلاڑیوں کو ذاتی موبائل نہ لے جانے کی ہدایت پر چین کی تنقید

بی بی سی مانیٹرنگ - .


بیجنگ، چین، اولمپکس
چین نے امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے اپنے کھلاڑیوں کو ذاتی موبائل فون سرمائی اولمپکس میں نہ لے جانے کی ہدایت پر تنقید کی ہے۔

سرمائی اولمپکس کی شروعات بیجنگ میں چار فروری سے ہونی ہے۔

چینی حکومت سے ملحق نیوز ویب سائٹ دی پیپر میں 18 جنوری کو وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے اپنی معمول کی میڈیا بریفنگ میں مغربی ممالک کے ‘سائبر سکیورٹی’ خدشات کو ‘مکمل طور پر بے بنیاد اور خیالی’ قرار دیا۔

بیجنگ اولمپکس کی تنظیمی کمیٹی کے ایک ترجمان نے مغربی ممالک کی جانب سے اپنے ایتھلیٹس کو دی گئی ہدایت کے بارے میں یقین دہانی کروائی کہ اولمپکس اور پیرالمپکس میں رجسٹریشن کے لیے بنائی گئی ویب سائٹ اور کووڈ 19 کے مریضوں کی ٹریکنگ کے لیے بنائی گئی ’مائے 2022‘ نامی موبائل فون ایپ ڈیٹا لیک نہیں کریں گی۔

سرکاری خبر رساں ادارے ژنہوا نیوز ایجنسی نے ترجمان کے حوالے سے بتایا: ‘ہم نے ذاتی رازداری کے تحفظ کے لیے نجی معلومات کی انکرپشن جیسے حفاظتی اقدامات اٹھائے ہیں۔’

ڈچ اخبار دی ووکسکرانت نے 11 جنوری کو ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ڈچ اولمپکس کمیٹی ‘کھیلوں کے دوران چینی نگرانی کی توقع’ کر رہی ہے جس کے باعث اس نے وفد کو اپنے ذاتی موبائل فون چین لے جانے سے منع کیا ہے۔

کمیٹی ایتھلیٹس اور معاون عملے کو فون اور لیپ ٹاپ فراہم کرے گی جنھیں ملک واپسی پر تباہ کر دیا جائے گا تاکہ چینی حکام انھیں ٹریک نہ کر سکیں۔

اس کے علاوہ 11 جنوری کو ہی بیلجیئم کے سرکاری نشریاتی ادارے وی آر ٹی نے بتایا کہ بیلجیئم کی قومی اولمپکس کمیٹی نے بھی ایتھلیٹس سے کہا ہے کہ وہ ‘سائبر جاسوسی’ سے بچنے کے لیے اپنے ذاتی موبائل فون اور لیپ ٹاپ چین لے جانے سے گریز کریں۔

تاہم چینی سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق اس کے اگلے روز نیدرلینڈز میں چینی سفارت خانے نے سائبر سکیورٹی کے خدشات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیا جبکہ بیلجیئم میں چینی سفارت خانے نے بھی شرکا کی سائبر جاسوسی کے خدشے کو ‘مکمل طور پر بے بنیاد’ اور ‘غیر ضروری’ قرار دیا۔

بیجنگ، چین، اولمپکس

اس کے بعد 12 اور 13 جنوری کو آسٹریلیائی اور برطانوی اولمپکس کمیٹیوں نے بالترتیب دی گارڈین اور دی ایج کو بتایا کہ وہ بھی اپنے اپنے کھلاڑیوں کو عارضی موبائل فون فراہم کریں گے مگر چین میں ذاتی موبائل فون لانے پر پابندی کا اعلان نہیں کیا۔

اسی طرح 13 جنوری کو یو ایس اے ٹوڈے نے خبر دی کہ امریکہ اور کینیڈا کی اولمپکس کمیٹیوں نے بھی اپنے ایتھلیٹوں پر زور دیا ہے کہ وہ ‘سائبر نگرانی کے خدشات’ کے باعث اپنے ذاتی موبائل فون اور لیپ ٹاپ گھر چھوڑ کر جائیں۔

دوسری جانب چین کی پیکنگ یونیورسٹی کے پروفیسر ژانگ یی وو نے ایک جرمن ٹی وی نمائندہ کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ چینی حکام اُن کی نگرانی کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا انڈیا چین کے سائبر حملوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

بائیڈن اور پوتن کے درمیان رابطہ: ’امریکہ سائبر حملوں کے خلاف ہر ضروری اقدام اٹھائے گا‘

جدید میزائل یا سائبر حملے: مستقبل میں عالمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا ممکنہ منظرنامہ کیا ہو گا؟

جرمنی کے سرکاری ٹی وی ادارے اے آر ڈی کی بیجنگ میں بیورو چیف ٹمارا اینتھونی نے 18 جنوری کو برلن کے فوکس میگزین کو ایک انٹرویو میں کہا کہ اُن کی ‘نگرانی اور پیچھا’ کیا جا رہا ہے اور اُن کا فون بھی ٹیپ کیا گیا ہے۔

اینتھونی نے کہا کہ حکام کووڈ 19 کی پابندیوں کا عذر تراش کر انٹرویو پر پابندی لگا رہے ہیں جس کے باعث زیادہ تر مقامی افراد انٹرویو دینے سے گھبرا رہے ہیں۔

تاہم پروفیسر ژانگ یی وو نے گلوبل ٹائمز کی چینی ویب سائٹ پر لکھا کہ سرمائی اولمپکس کے دوران کووڈ 19 کو قابو میں رکھنے کے لیے چین نے تازہ ترین صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے ہیں جو کچھ مغربی ممالک سے زیادہ سخت ہیں۔ اُنھوں نے لکھا کہ انھیں ‘انفرادی صحافیوں کی غیر ذمہ دارانہ شکایتوں’ کے باعث تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

اُنھوں نے لکھا: ‘انفرادی طور پر صحافی چین کے کووڈ 19 کی روک تھام کے اقدامات سے الجھ کر ‘واقعات’ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسا منفی رویہ صحافت کی بنیادی حدود سے متجاوز ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments