شہر گناہ اور پیسیو سننگ
جوئے کی دنیا کا دارالحکومت سمجھے جانے والے لاس ویگس کے سفر کا منصوبہ اچانک بنا۔ پہلا خیال تو یہ آیا کہ خانہ بدوشی کی عادت عزت سادات کو ملیا میٹ کر کے دم لے گی۔ پھر خود کو تسلی دی کہ ویگس میں تو محض خیمہ نصب کریں گے، اصل سفر تو گرانڈ کینین کے لئے ہو گا۔ یونائیٹڈ ائرلائن کے ٹکٹ لئے اور ہیوسٹن سے تین گھنٹے کی فلائٹ پر سوار ہو گئے۔ دوران پرواز دو بسکٹ اور ایک کوک کی مہمان نوازی پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی ایرلائن ہمیں بہت یاد آئی۔
ہوائی اڈے پر اترے تو عجب سماں دیکھا۔ ٹرمینل پر جا بجا مشینیں لگی ہوئی تھیں جہاں امید کا عصا تھامے بیسیوں طمع گزیدہ، نصیب کے اژدر سے بر سر پیکار ہوتے نظر آئے۔ ائرپورٹ سے باہر نکلے تو جگمگاتے سائن بورڈ کی خیرہ کر دینے والی روشنیاں، دوبئی کی رنگینییوں کا تمسخر اڑاتی محسوس ہوئیں۔ نیویارک اور لاس ویگس کی روشنیوں میں اگر کوئی فرق لگا تو وہ ہم جیسے کم نظر کے لئے ہوٹلز اور کسینوز کے بلند و بالا للکارتے ہوئے سائن بورڈز ہیں جو نیویارک جیسے شہر کو کم قامت بنا دیتے ہیں۔
ائرپورٹ سے چند دقیقوں کی مسافت آپ کو وہاں لے آتی ہے جہاں انسانی جبلت کے چند پہلو بڑی آب و تاب کے ساتھ جلوہ نمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس جگہ کو ”لاس ویگس اسٹرپ“ کا نام دیا گیا ہے۔ دنیا کے بہترین پنج ستارہ سرائے کے جھرمٹ اسی سڑک پر ہیں۔ ہر ہوٹل کی اپنی انفرادی حیثیت ہے۔ اٹالین طرز تعمیر کے وینیشین ریزورٹ میں جائیں تو لگتا ہے کسی آرٹ میوزیم میں قدم رکھ دیا ہے۔ چھت پر اٹھارویں صدی کے انداز کی مرال پینٹنگز ہوں یا کسی فنکار کی مضطرب انگلیوں سے ڈھل کر نکلنے والے مجسمے، جدید آرٹ کا شاہکار لفظ ”محبت“ ہو یا گرانڈ شاپی میں آپ کے ساتھ ساتھ چلنے والا آسمان، یہ سب تحیر کا سبب بنتا ہے۔ شہر آب اگر بنایا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ وینس کی سواری گنڈولا نہ ہو۔ لہذا وہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اسے شاہی پیرہن پہنا کر مزید رومینٹک بھی بنا دیا گیا ہے۔ ہوٹل کی لابی میں جہاں ایک طرف نوآموز، مشین سے اپنی قسمت لڑانے میں مصروف نظر آتے ہیں، وہاں سنجیدہ جواریوں کے لئے پورے پورے فلور مختص کیے گئے ہیں۔
اس پوری سڑک پر چلتے ہوئے ہلکی ہلکی موسیقی سنائی دیتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سارے پر تعیش ماحول میں ہاتھ میں کاسہ لئے کئی لوگ دکھائی دیے کہ انتہائی فراغت کے دامن سے مفلسی ہمیشہ لپٹی ہوئی ملتی ہے۔
وینیشین کے عین مقابل میراج ہوٹل ہے جہاں آتش فشانی کا عمل آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ تقریباً پانچ منٹ تک جاری رہنے والا یہ مظاہرہ جتنا دلچسپ ہے اتنا ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والا بھی ہے۔
اس سڑک پر چلیں تو کبھی آپ پیرس سے گزریں گے تو کبھی مین ہیٹن سے۔ وہی ایفل ٹاور، وہی بڑی بڑی اسکرینیں اور چاکلیٹ کی بڑی بڑی فلور در فلور دکانیں۔ ایشیا کے آٹھویں بڑے شہر سے تعلق رکھنے اور مشرق وسطی کے جدید ترین قصبے کے باسی ہونے کے باوجود یہ عجب ہراساں کر دینے والا تجربہ تھا۔
ایک جانب عہد حاضر کا سامری ڈیوڈ کاپر فیلڈ کا شو ہو رہا تھا تو دوسری جانب مشہور گلوکارہ وٹنی ہیوسٹن اپنی وفات کے دس سال بعد اسٹیج پر کھڑے ہو کر اپنی آواز سے سامعین کو لبھا رہی تھیں۔ جی آپ نے صحیح پڑھا ہے۔ سائنس کو آپ جیسے چاہیں، استعمال کر سکتے ہیں، پرستاروں کے لئے ہولوگرافک کنسرٹ کا انتظام تھا۔
پرانی بات ہے کہ ایک دن ہم کینیڈا کے ایک غیر روایتی اسلامی اسکالر خلیل جعفر کا انگریزی لیکچر سن رہے تھے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اچانک ایک بات کی کہ ہم دم بخود رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح پیسیو اسموکنگ ہوتی ہے کہ آپ سگریٹ پی نہیں رہے ہوتے مگر اس ماحول میں ہوتے ہیں جہاں اسے نوش کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو جگر کا کینسر، عارضہ قلب اور اسٹروک ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایسا معاشرہ اور ایسا ماحول جہاں گناہ معمول بن چکا ہو، وہ آپ کی روحانیت کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے۔ پیسیو سننگ انتہائی سست رفتاری سے آپ کے وجود میں سے روحانیت کا جوہر نکال دیتی ہے، ارادے میں ضعف کا سبب بنتی ہے اور بقول ہمارے روحانی مربی علی مرتضی زیدی کے، دین کو ایک لفظ میں سمو دینے والے لفظ ”کنٹرول“ کو ختم کر دیتی ہے۔ لاس ویگس میں چند دنوں کے قیام کے دوران ہم نے بس کچھ یونہی محسوس کیا۔
- 1445 محرم کی کربلا - 12/08/2023
- سفر، نامہ اور کتاب - 25/10/2022
- کیا آپ یاور بھائی کو جانتے ہیں؟ - 26/05/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).