صحت انصاف کارڈ اور ہمارا صحت کا نظام


پاکستان کی جمہوریت میں یہ ایک المیہ ہے کہ حکومت اپنی ساکھ کو بحال اور برقرار رکھنے کے لیے ایسے منصوبے بناتی ہے جس سے عوام میں واہ واہ ہو سکے چاہے اس سے خزانے پر اچھا خاصا بوجھ ہی کیوں نہ پڑے۔ پھر وہ چاہے پیپلز پارٹی کا بینظیر انکم سپورٹ فنڈ ہو، مسلم لیگ کی لیپ ٹاپ سکیم، اورنج ٹرین کا منصوبہ ہو یا پھر نوجوانوں کے لیے آسان قرضہ سکیم ہو یا پھر تحریک انصاف کا غریبوں کے لیے شروع کیا گیا لنگر خانہ اور صحت انصاف کارڈ ہو۔

یہ سکیمیں نہ تو دیر پا ہوتی ہیں اور ہی ان کے کوئی مثبت نتائج نکلتے ہیں۔ پچھلے دور میں خان صاحب بہت تنقید کرتے تھے کہ شہباز شریف ہر عوامی منصوبے پر اپنی تصویر لگواتا ہے جبکہ اس بار خود خان صاحب نے صحت کارڈ پر اپنی پارٹی کا جھنڈا لگایا ہے اور اسے ایسے پیش کیا گیا ہے جیسے اس کے لیے پیسہ سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے پارٹی فنڈ سے آئے گا گویا یہ ایک طرح سے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اس سکیم کو بغیر سٹڈی کیے لانچ کر دیا گیا ہے اور یہ مثال دی گئی ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہی کیا جاتا ہے۔ پھر یہ ایک ایسا کارڈ ہے جس میں وقتی بیماریوں اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا علاج ممکن نہیں ہے مطلب یہ سرے سے بیماریاں ہی نہیں ہیں جبکہ وقتی بیماریوں کی شرح ستر سے اسی فیصد تک ہوتی ہے۔

اگر بات کی جائے یورپی ممالک کی تو سب جانتے ہیں کہ وہاں بزنس مین سے لے کر عوام تک 30 سے 40 فیصد تک ٹیکس دیتے ہیں۔ پھر کہیں جاکر عوام کو صحت اور تعلیم کی بنیادی ضروریات مفت دی جاتی ہیں۔ جب کہ تمام خلیجی ممالک میں بھی حکومت ڈائریکٹ انشورنس کمپنیوں کو پیسے نہیں دیتی بلکہ عوام کا پیسہ عوام پر لگایا جاتا ہے۔ عام طور پر ترقی یافتہ ممالک میں بہت سی پرائیویٹ انشورنس کمپنیاں ہوتی ہیں جن کے بہت سارے ذرائع آمدن ہوتے ہیں۔

ہر سال ختم ہونے پر ہر ایک کو اپنی کار کی انشورنس کے لیے کمپنی کو کچھ رقم دے کر اپنی کار کی انشورنس کروانی پڑتی ہے، اسی طرح اپنے گھر اور بزنس کے لیے بھی انشورنس کروانا لازمی ہوتا ہے۔ جو لوگ نوکری پیشہ ہوتے ہیں ان کی کمپنی ان کی ہیلتھ انشورنس کے لیے ہر سال پیسے ادا کرتی ہے پھر جاکر ویزہ، شناختی کارڈ یا بزنس لائسنس رینیو ہوتا ہے۔ جب کوئی بھی بیمار ہوتا ہے چاہے وقتی ہو یا دائمی ہو تو ستر سے لے کر سو فیصد تک علاج مفت ہوتا ہے اور یہ شرح آپ کی آمدن پر منحصر ہوتی ہے۔

ایمرجنسی علاج تو ویسے ہی مفت ہوتا ہے، لیب اور فارمیسی کے لیے 10 سے 30 فیصد تک عوام کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ کار کے ایکسیڈنٹ یا کسی بھی نقصان کی صورت میں 70 فیصد تک انشورنس کمپنی ادا کرتی ہے۔ گویا اس مد میں کمپنی ایک بہت بڑا سرمایہ اکٹھا کر لیتی ہے۔ اگرچہ ہر کمپنی کی یہ ایک پالیسی ہوتی ہے کہ کم سے کم کلیمز اسے موصول ہوں تاکہ ان کا سرمایہ بڑھتا رہے۔ عام طور پر یہ شفافیت بھرا نظام ہوتا ہے تاہم پھر بھی لوگ پیسے کے لیے کوئی نہ کوئی دو نمبر طریقہ نکال ہی لیتے ہیں۔

یہ سارا کام آن لائن ہوتا ہے۔ ہر کلیم کے لیے اپروول لینی پڑتی ہے۔ اگر بات کی جائے خاص طور پر ہیلتھ انشورنس کارڈ کی تو جب بھی کوئی مریض ہسپتال میں جاتا ہے تو اس کے لیے ہسپتال کے تمام شعبوں کو محکمہ صحت یا انشورنس کمپنی سے باقاعدہ آن لائن اجازت درکار ہوتی ہے جس کے لیے ہر شعبے کے ٹیکنیکل لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ فرض کریں کوئی حاملہ عورت کسی بھی پرائیویٹ یا سرکاری ہسپتال میں جاتی ہے تو ڈاکٹرز کا ایک پینل ہوتا ہے جو محکمہ صحت یا انشورنس کمپنی سے تمام ثبوت دے کر آن لائن اپروول حاصل کرتا ہے پھر جاکر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ نارمل میتھڈ سے بچے کی پیدائش ہوگی یا پھر بڑا آپریشن کرنا ہو گا۔

اگر بات کی جائے پاکستان میں صحت کے نظام پر تو پاکستان میں پہلے ہی پرائیویٹ ہسپتال والے کھال تک اتارنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اگر کسی حاملہ عورت کا نارمل ڈیلیوری سے بچہ پیدا ہونا ہو تو اسے جان بوجھ کر بڑے آپریشن پر قائل کیا جاتا ہے۔ پھر ہر پرائیویٹ ہسپتال میں ایک نرسری ہوتی ہے جہاں مصنوعی خوراک دینے کے بہانے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ پھر ڈاکٹرز کا فارمیسیز اور لیبارٹری والوں سے کمیشن طے ہوتا ہے۔ دو نمبر دوائیوں کی تو ویسے ہی پاکستان میں ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔

اگر ہسپتال کے اس دھندے کو سمجھنا ہو تو بالی ووڈ کی ایک فلم گبر از بیک کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جس میں سادہ لوح عوام کو ڈاکٹر ایسی مشکل ٹرمینالوجی بتاتے ہیں کہ عوام کے پاس کوئی اور آپشن ہی نہیں رہتا۔ پاکستان میں عام طور پر ڈاکٹرز بلاوجہ کی ادویات بھی لکھتے ہیں۔ یقینی طور پر پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ پاکستان کی لوکل فارما کمپنیز جس طرح کے لالچ دیتی ہیں وہ ویسے ہی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایک دفعہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے کا اتفاق ہوا تو کمپنی کی طرف سے والدین اور بیوی بچوں کا علاج بھی مفت تھا۔ ایک دفعہ ایک مشہور پرائیویٹ ہسپتال میں اپنے والدین کے آپریشن کے لیے جانے کا اتفاق ہوا تو جب ریسیپشن والے نے انشورنس کارڈ دیکھا تو اس نے اپنے کمیشن کے بدلے ایک بڑا بل بنانے کی آفر دے ڈالی۔ جبکہ پاکستان میں ایسا کوئی آن لائن سسٹم سرے سے ہی قائم نہیں کیا گیا۔

‌تحریک انصاف نے اپنی پارٹی کی ساکھ بحال کرنے خاطر مبلغ چار سو ارب روپے ایک تھرڈ ایجنٹ کمپنی کو دیے ہیں۔ جو یقینی طور پر پہلے اپنا کمیشن رکھ کر کارڈ دے گی۔ پھر فارما کمپنیز سے لے کر ڈاکٹرز، فارمیسی والے اور لیب والے ایک ایسا دھندا شروع کریں گے جس سے صحت کا باقی کا رہا سہا نظام بھی بدحالی کا شکار ہو جائے گا۔ جہاں دو دوائیوں سے کام چلنا تھا وہاں دس دوائیاں لکھی جائیں گی، جہاں صرف دوائی سے علاج ہونا تھا وہاں بلاوجہ آپریشن ہونا شروع ہوجائیں گے۔

پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے وہ مزید خراب ہوگی۔ خان صاحب اگر یہی پیسہ آپ ادویات کی قیمتوں میں کمی پر لگاتے یا پھر اسی 400 ارب سے مزید نئے ہسپتال بنوا دیتے تو شاید عوام کو زیادہ فائدہ ہوتا۔ آج بھی بلوچستان کی عوام کو پنجاب اور سندھ سے آ کر اپنا علاج کروانا پڑتا ہے۔ آج بھی چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں میں آ کر پبلک ہسپتالوں میں خوار ہوتی ہے۔ ایک بیڈ پر دو دو مریض لیٹے ہوتے ہیں اور جن کو بیڈ نہ مل سکے وہ باہر کوریڈور میں یا باہر گروانڈ میں پڑے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت کوئی ایک بھی سرکاری ہسپتال ایسا نہیں ہے جس کے پاس جے سی آئی سرٹیفکیٹ ہو جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی گنتی کے تین چار ہسپتال ہیں۔ سوائے چند ایک کے کسی بھی ہسپتال میں کوالٹی ڈیپارٹمنٹ سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ جس انسولین کی قیمت آج سے تین سال پہلے تک پانچ سو روپیہ ہوا کرتی تھی آج اسی انسولین کی قیمت ایک ہزار روپے ہے جب کہ فواد چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اگر دو چار روپے قیمت بڑھ گئی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر یہ قیمت نہ بڑھتی تو انڈسٹری بیٹھ جاتی۔ آج بھی ایسے دیہاتی ہسپتال موجود ہیں جہاں نہ تو پورا عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی پوری سہولیات ہوتی ہیں۔ اگر کسی بڑے سرکاری ہسپتال میں جائیں تو انتہائی غیر معیاری ادویات ملتی ہیں۔ مجبور ہو کر عوام کو باہر سے دوائی لینی پڑتی ہے۔

‌اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ یہ سکیم شاید اگلی حکومت فنڈز کی کمی کے باعث جاری نہ رکھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments