مری، مرسڈ اور کافر مارینا


دو تین دن پہلے سرکلر روڈ بہاولپور سے میرا گزر ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ ڈی پی او ہاؤس بہاولپور کی دیوار سے ملحقہ طویل القامت درخت پہ لٹکے ایک پرندے کو بچانے کے لیے ریسکیو عملہ جان جوکھن میں ڈالے ہوئے تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف گردنیں ٹیڑھی کیے تماشا دیکھنے اور ویڈیوز، سیلفیاں بنانے والوں کی لمبی قطاروں نے ٹریفک جام کیا ہوا تھا۔ یہ منظر دیکھ کے مجھے سانحہ مری میں جان کی بازی ہار جانے والے شہداء کی یاد ستانے لگی۔ کیا مری کے مسلمانوں کی سوچ کافر تھی؟

کبھی کبھی ہماری زندگی میں ایسے ایسے واقعات حادثات گزر جاتے ہیں کہ چاہ کر بھی ان کی یاد کی خلش ہماری یادوں کی ڈائری سے مٹ نہیں پاتی۔ ہم نے مظفر آباد زلزلے سے بھی سبق نہ سیکھا۔ ٹور ازم کے فروغ کی باتیں محض ہماری جگ ہنسائی کا ہی سبب بنی۔ ویسے بھی باشعور قومیں تو اپنے جانوروں تک کو بے یار و مددگار نہیں مرنے دیتی۔ ہمارے تو بھائی بچے اور عورتیں بے بسی کی موت مارے گئے۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ سانحہ مری میں جان سے جانے والے لوگ حادثاتی طور پر مارے گئے؟

نہیں نہیں ’انھیں تو ہمارے رویوں نے مار دیا۔ انھیں تو اس بھرم نے مار دیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں۔ انھیں تو چند مسلمانوں کی کافر سوچ نے مار دیا۔ شاید انھیں یاد نہیں تھا کہ جب مظفر آباد میں زلزلہ آیا تو پاکستان کے تمام شہروں سے بھیجی جانے والی امداد کے ٹرکوں کو لوٹ لیا یا چھپا لیا گیا۔ بہرحال جتنا بھی لکھتا جاؤں نہ تو میرے قلم کے اشک تھم سکیں گے نہ ہی مری کے فوت شدگان کی تکلیف اور کرب کا مداوا ہو سکے گا۔ آپ انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اس سانحہ کے ذمہ داروں کو معطل کریں نوکریوں سے نکال پھینکیں۔ میں جتنا مرضی تمہیدی کالم لکھ دوں اپنوں میں بے یارومددگار سسکتے موت کی آغوش میں پاپا، پاپا کہتے ہوئے جانے والے کسی ایک بچے کی ٹوٹتی امید کا قرض ادا نہیں ہو سکے گا۔

میرے ایک عزیز دوست چوہدری ندیم صاحب امریکہ میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر مرسڈ میں ٹیکسی چلاتے ہیں۔ گزشتہ رات انھوں نے مجھے فون کیا۔ وہ مری کے سانحہ پر رنجیدہ تھے۔ کہنے لگے بابا جی ’ ”میں ابھی ابھی ایک سواری چھوڑ کے آیا ہوں۔ میری جاننے والی ایک نرس نے مجھے فون کیا اور کہا کہ“ میرے پاس ایک مریضہ ہے جس کا خاوند اس کا فون نہیں اٹھا رہا۔ اور اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ گھر جا سکے۔ تو آپ آ جائیں اور اس مریضہ کو اس کے گھر تک ڈراپ کر دیں۔

ٹیکسی کے کرائے کے پیسے میں دے دوں گی۔ اتفاق سے وہ مریضہ بھی پاکستانی تھی جس کا نام شبنم تھا۔ ”مارینا“ مرسی ہاسپٹل میں پانچ سو ڈالر کی نوکری کرنے والی نرس نے انسانیت کے نام پر جب مجھے پچاس ڈالر ادا کیے تو ایک لمحے کے لیے میرے دل و دماغ میں وہ تمام بریکنگ نیوز سلائیڈ کی طرح چلنے لگیں جن میں بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان کے پہاڑی علاقے مری میں برفانی طوفان میں متعدد افراد امداد نہ پہنچنے کی وجہ سے گاڑیوں میں دم گھٹ کر یا سردی سے ٹھٹھر کر جاں کی بازی ہار گئے۔ قریبی ہوٹلز میں کمروں کا کرایہ عام شہری کی پہنچ سے باہر رہا۔ لوکل رہائشیوں کی بے حسی نے نا جانے کتنے بے بس افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ابلا ہوا انڈا پانچ سو سے ہزار تک کا فروخت ہوتا رہا۔ پندرہ سو سے دو ہزار تک کے کرائے کے کمرے چالیس چالیس ہزار تک دیے گئے۔ پٹرول کا ایک لیٹر تین تین ہزار تک فروخت ہوتا رہا۔ ایک فیملی کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے رات گزارنے کے عوض ان کی بیٹی کے زیور ہتھیا لیے گئے۔

مقامی پولیس نے ایک ایسا شخص بھی گرفتار کیا جو سڑک پر خود برف پھینک کر راستہ بلاک کرتا اور پھر بھاری معاوضہ لے کر برف ہٹا دیتا۔ مسافروں نے مقامی باشندوں کے اس غیر انسانی رویے سے دلبرداشتہ ہو کر اس برفانی طوفان اور سرد رات کو اپنی گاڑیوں میں رہ کر گزارنے کا فیصلہ کیا اور آخرکار سردی کی شدت اور آکسیجن کی کمی سے کئی بچے مرد اور عورتیں جان کی بازی ہار گئے۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے موازنہ کیا انصاف کے ترازو کے ایک پلڑے میں میں نے کافر مارینا کے پچاس ڈالر اور دوسرے میں مری کے سینکڑوں مسلمانوں کے کرتوت انسانیت سوز رویے رکھے تو مجھے کافر مارینا کا پلڑا بھاری لگا۔

ندیم صاحب کہنے لگے ”بابا جی“ جس دن ایک سری لنکن باشندے کو فیصل آباد میں زندہ جلایا گیا وہ دن بھی بیرون ملک آباد پاکستانیوں کے لیے ہزار سال سے طویل ہو گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ایسے شخص کو انسانی جم غفیر نے مار ڈالا جو نہ تو عربی سمجھ سکتا تھا اور شاید نہ ہی اردو۔ اس سری لنکن کافر شخص پہ توہین مذہب کا ٹکٹ چسپاں کر کے جہنم رخصت کرنے والے مجھے جواب دیں کہ ان بچوں عورتوں اور اشخاص کو کس جرم کے تحت قتل کیا گیا۔

سانحہ مری میں معصوم لوگ قتل ہوئے ہیں ناگہانی اموات وہ ہوتی ہیں جن میں قدرتی آفات کی وجہ سے اموات ہوں۔ یہ لوگ تو مس مینیجمنٹ خود غرضی اور مسلمانوں کی کافر سوچ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ”جب ہم ادھر امریکہ میں کسی ہوٹل ریسٹورنٹ یا ٹریفک سارجنٹ کو بتاتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں تو ہم نظریں چراتے ہیں کہ کہیں یہ لوگ سانحہ مری کے بارے کوئی سوال نہ کر لیں یا اموات کی وجوہات نہ پوچھ لیں۔“ میں ندیم صاحب کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

باشعور قومیں اس طرح کے سانحات اور اس قدر گھناونے انسانی رویوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے جس کا عملی مظاہرہ مری میں دیکھنے کو ملا۔ یا جو سری لنکن کے ساتھ ہوا۔ سری لنکن کے قاتلوں اور سانحہ مری کے ذمہ داروں کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے مجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے گی انشاءاللہ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سطح پہ ہم ایسے اقدام کریں کہ ایسے حادثات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔ مری مظفرآباد، شمالی علاقہ جات پاکستان کے خوبصورت ترین علاقے ہیں جہاں ہر پاکستانی سیر کی غرض سے جانا چاہتا ہے۔

گزشتہ حکومتوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا لیکن آپ تو ٹورازم کے فروغ کے دعوے کرتے ہیں۔ ایسے علاقہ جات جہاں لوگ سیر و تفریح کی غرض سے جاتے یا قیام کرتے ہیں وہاں ایسے اداروں کا قیام کیا جائے جو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہوں۔ ایسی گاڑیاں۔ آلات۔ بہترین ٹریننگ اور سہولیات مہیاء کی جائیں کہ کسی بھی خطرناک صورتحال کا احسن طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے۔ اسپیشل اکویپڈ ٹیمیں پہاڑوں کی چوٹیوں پہ تعینات کی جائیں۔ تاکہ میرے پیارے ملک پاکستان کا قدرتی حسن کسی ڈر یا انجانے خوف کی وجہ سے مسخ نہ ہو اور ملکی و غیر ملکی سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کھنچے چلے آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments