ڈاکٹر معید یوسف سے ایک مکالمہ


ڈاکٹر معید یوسف بنیادی طور پر بین الا اقوامی تعلقات عامہ، پاک امریکہ تعلقات اور سیکورٹی امور پر کمال کی دسترس رکھتے ہیں۔ اس وقت وہ پاکستان میں ”قومی سلامتی کے مشیر“ کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ مختلف بین الااقوامی تھنک ٹینک کے رکن بھی رہے ہیں اور سیکورٹی سے جڑے معاملات پر ان کی سمجھ بوجھ بھی قابل قدر ہے۔ اس سے قبل وہ سیکورٹی امور پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی بھی رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ واشنگٹن میں امریکی ادارہ برائے امن میں ایشیائی امور پر ایسوسی ایٹ وائس سربراہ تھے۔ وہ بین الا اقوامی سطح پر مختلف جامعات میں بھی پڑھانے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں اور کئی اہم کتابوں کی مصنف بھی ہیں۔

حال ہی میں جو قومی سلامتی پالیسی کی ایک اہم دستاویز سامنے آئی ہے اس میں ڈاکٹر معید یوسف کا کردار کافی نمایاں ہے۔ وہ اس وقت وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ قومی سلامتی پالیسی کی نہ صرف قیادت کر رہے ہیں بلکہ ہر فورم پر اس پالیسی سے جڑے معاملات یا سوالات پر مکالمہ کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے قومی سلامتی پالیسی کا ایک حصہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس پالیسی پر مجموعی طور پر مختلف فریقین اپنی اپنی سوچ اور فکر کو بنیاد بنا کر اس پر تبصرہ یا تجزیہ یا اس کی خوبی اور خامیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

حال ہی میں مجھ سمیت کچھ دوستوں کو قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف سے اسی قومی سلامتی پالیسی پر ایک مکالمہ کا موقع ملا۔ ڈاکٹر معید یوسف کے بقول کسی بھی پالیسی کو حتمی پالیسی نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی کوئی پالیسی جامد ہوتی ہے۔ یہ پالیسیاں وقت، حالات، تجربات اور رونما ہونے والے واقعات کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہیں اور آگے بھی تبدیل ہوتی رہیں گی۔ لیکن ان کے بقول یہ تاثر درست نہیں کہ اول یہ پالیسی کسی ایک خاص فریق یعنی اسٹیبلیشمنٹ کی ہے اور اس دیگر فریقین سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔

حالانکہ یہ پالیسی ریاست پاکستان کی ہے اور اس میں جو بھی مسائل کا ادراک کیا گیا ہے یا اس میں جن نکات کو ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دی گئی ہے وہ وہی مسائل ہیں جو ہمیں داخلی اور خارجی محاذ پر بطور ریاست درپیش ہیں۔ دوئم یہ پالیسی پہلی بار خود کو محض سیکورٹی مسائل تک محدود نہیں رکھتی بلکہ اس پالیسی کا احاطہ قومی مسائل کو مدنظر رکھ کر ایک بڑے فریم ورک میں کیا گیا ہے۔ اس پالیسی میں کوشش کی گئی ہے کہ ہماری سلامتی پر اثر انداز ہونے والے تمام روایتی اور غیر روایتی مسائل کا وسیع تناظر میں غور بھی کیا گیا ہے اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی کو بھی بنیاد بنایا گیا ہے۔

یہ تاثر جو دیا جا رہا ہے کہ اس پالیسی کی تشکیل میں پارلیمنٹ سمیت تمام فورمز کو نظرانداز کیا گیا ہے اس پر ڈاکٹر معید یوسف کے بقول یہ تاثر محض سیاست کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ اس کی حتمی منظوری حکومت نے دی ہے جو اس کا صوابدیدی حق ہے۔ لیکن اس کی منظوری سے قبل قومی سلامتی کمیٹی جس میں سول اور ملٹری قیادت موجود ہے اس پر سیر حاصل گفتگو اور بہت زیادہ مباحث کے بعد حتمی شکل دی گئی۔ اسی طرح فوجی اور حکومتی قیادت نے وقتاً فوقتاً تمام سیاسی قیادت کو بھی مختلف اجلاس کی مدد سے اعتماد میں لیا۔

اسلام آباد میں منعقد کیے جانے والا ”سیکورٹی ڈائیلاگ کانفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کی دفاعی کمیٹی کو بھی اس پر اعتماد میں لیا گیا۔ البتہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والی پارلیمانی کمیٹی میں حزب اختلاف کے کچھ لوگوں کی عدم شرکت ہوئی تھی، لیکن اب بھی حکومت ہر سطح پر پارلیمانی سطح پر موجود تمام فورمز کو اعتماد میں لینے کے لیے تیار ہے۔

اس سوال پر کیا وجہ ہے کہ اس پالیسی کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا رہا تو اس پر ان کے بقول دنیا میں اس طرز کی سیکورٹی پالیسی پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں ہی پیش کی جاتی ہے اور یہ ہی طریقہ کار یہاں اختیار کیا گیا ہے۔ ان کمیٹیوں میں جہاں حکومت ہے وہیں حزب اختلاف کے لوگ بھی موجود ہیں۔ البتہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس طرح کے حساس معاملات پر حزب اختلاف کو تواتر سے اعتماد میں لینے کے لیے تمام جماعتوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کی مستقل بنیادوں پر تشکیل کو یقینی بنایا جائے۔

ان کے بقول اس پالیسی کا مستقبل موجود رہے گا اور جو بھی نئی حکومت آئے گی وہ اس میں کچھ رد و بدل کر سکتی ہے۔ لیکن اس کو حتمی طور پر اول تو ختم نہیں کیا جائے گا اور اگر کیا گیا تو جو نئی پالیسی بنے گی وہ بھی اسی پالیسی سے مختلف نہیں ہوگی۔ اس لیے مسئلہ اس پالیسی کو متنازعہ بنانے سے حل نہیں ہو گا بلکہ کوشش کرنی ہوگی کہ اس پالیسی پر مکالمہ کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ پالیسی فوری طور پر کوئی بڑے نتائج نہیں دے سکے گی یہ ایک مستقل پالیسی ہے اور اس کے نتائج بھی آگے جاکر نکلیں گے۔ کیونکہ ہم نے نتائج کے حصول کے لیے مختلف ٹارگٹ یا اشاریے ترتیب دیے ہیں اور ان کی مدد سے ہی وہ تمام اہداف کا حصول کو یقینی بنایا جائے گا۔

ایک سوال پر کہ ہم جیو اسٹرٹیجک سے جیو معیشت کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں بھارت سمیت علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات کی بات کی گئی ہے یہ کیسے ممکن ہو گا۔ اس پر ڈاکٹر معید یوسف کے بقول ہم نے ایک جامع فریم ورک میں یہ بات رکھی ہے کہ ہمیں ماضی سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنی ہے۔ لیکن اس وقت سب سے بڑا چیلنج بھارت کی موجودہ قیادت ہے جو بات چیت یا ڈائیلاگ کے لیے یا بہتر تعلقات کے لیے آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔

پاکستان اور بھارت میں جو بھی ڈیڈ لاک ہے وہ اس وقت بھارت کا ہی پیدا کردہ ہے۔ کشمیر اس قومی سلامتی پالیسی کا اہم نقطہ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ بھارت سے جو بھی پیش رفت ہوگی اسی قومی سلامتی پالیسی کے فریم ورک میں ہی ہوگی۔ اس پالیسی میں باہمی تجارت، ملکوں سے بہتر تعلقات، عوام کا تحفظ، سلامتی، وقار، خوشحالی اور گورننس کو بہتر بنانے، تعلیم کو قومی سلامتی پالیسی سے جوڑنے کو فوقیت دی گئی ہے۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی میں کچھ نیا نہیں اس پر ڈاکٹر معید یوسف کا نقطہ نظر تھا کہ جو کچھ اس پالیسی کی دستاویز میں شامل ہے ماضی کی کسی پالیسی میں نہیں تھا۔ پہلی بار بہت سے داخلی نوعیت سے مسائل کو اس پالیسی سے جوڑ کر آگے چلنے کی بات کی گئی ہے کیونکہ ہمیں اندازہ ہے کہ جب تک ان داخلی مسائل کا خاتمہ نہیں ہو گا اور ہم معاشی، سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر کمزور ہوں گے وہاں اپنے دفاع کو کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پاک امریکہ تعلقات اور پاک چین تعلقات میں ڈاکٹر معید یوسف کے بقول ہم دونوں ممالک سے توازن کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں اور کسی ایک سے تعلقات کی بنیاد کسی دوسرے سے خرابی یا بگاڑ کی بنیاد پر نہیں ہوں گے ۔

بنیادی بات یہ ہے کہ جو کچھ ڈاکٹر معید یوسف کہہ رہے ہیں یا جو کچھ اس قومی سلامتی پالیسی کے دستاویز میں شامل ہے اہم بات ان تمام امور سے نمٹنے کی حکمت عملی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے یقینی طور پر ہمیں ایک بڑے فریم ورک یا روز میپ سمیت ایک جامع اور مربوط سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور سیکورٹی حکمت عملی سمیت عملدرآمد کا مربوط نظام درکار ہے۔ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اپنے داخلی مسائل کا بہتر ادراک اور اس کے حل کی طرف بڑھ سکیں۔

یہ عمل ایک بڑی جامع اصلاحات چاہتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا روایتی نظام اصلاحات کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم کڑوی اور سخت اصلاحات کے مقابلے میں مصنوعی انداز میں نظام کا پیچ ورک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمیں کسی بھی شکل میں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں گے۔ اس لیے پالیسی اہم لیکن اس سے بڑا کام ٹھوس بنیادوں پر اپنے داخلی مسائل کا پوسٹ مارٹم کرنا اور اس سے نمٹنا ہو گا۔ لیکن یہ کام محض حکومت تن تنہا نہیں کر سکتی۔

اس کے لیے ریاست، حکومت سمیت تمام اداروں بشمول اہم معاشرے کے فریقین کو شامل کیے بغیر قومی سلامتی کی یہ جنگ کو جیتنا آسان نہیں ہو گا۔ ہمیں شارٹ ٹرم، مڈٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر منصوبہ بندی کر کے تمام فریقین کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ اس لیے اس جنگ میں ہمیں سیاسی سطح پر سفارتی اور ڈپلومیسی کی جنگ میں بھی لیڈ کرنا ہو گا۔ بالخصوص ہمیں سیکورٹی اور قومی سلامتی کے معاملات میں ایک دوسرے پر سیاسی اسکورنگ یا سیاسی مقابلہ بازی کو ختم کر کے مشترکہ جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments