متبادل دوستوں کی تلاش


پاکستان میں اس وقت میری دانست میں سب سے غور طلب یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف سے فقط ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لئے ہماری حکومت کو 377 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانا پڑے ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ بھی عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے اصرار پر مسلسل بڑھانا ہوں گے۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ”کامل خودمختاری“ بھی یقینی بنانا ہوگی۔ اس کے گورنر اور معاونین کی جانب سے لئے ہر فیصلے کو ”نیک نیتی“ پر مبنی تصور کیا جائے گا۔ نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے انہیں کسی فیصلے کی وضاحت کے لئے طلب نہیں کرسکیں گے اور یہ قانون اس ملک میں متعارف کروایا جا رہا ہے جس کا 1973 ء کے آئین کے تحت منتخب ہوا پہلا وزیر اعظم اپریل 1979 ء میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ اس کے بعد آنے والے کسی بھی وزیر اعظم کو پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ اقتدار کے دوران اور اس سے فراغت کے بعد وہ نیب کے عقوبت خانوں میں مہینوں گزارتے رہے۔ ان دنوں عدالتوں کے روبرو پیش ہو کر اپنی صفائیاں دے رہے ہیں۔

سابق وزرائے اعظم کے سیاسی اور سرکاری مصاحبوں کی ایک کثیر تعداد بھی مبینہ طور پر اپنی نظر آنے والی آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک اور ان کے معاونین کو مگر ایسی ذلت سے بچانے کا پیشگی بندوبست کر لیا گیا ہے۔ ایک ہی ملک میں واضح طور پر دو مختلف قوانین لاگو ہوئے نظر آرہے ہیں جو حکمران اشرافیہ کو بھی برہمن اور شودر میں تقسیم کر رہے ہیں۔

معاشی معاملات سے بے خبر رہنا میرے اور آپ جیسے محدود اور کم آمدنی والوں کے لئے ممکن ہی نہیں۔ ہمیں روزانہ کی بناد پر بازار جاکر اپنی روزمرہ زندگی برقرار رکھنے کے لئے لازمی اشیاء خریدنا ہوتی ہیں۔ مہنگائی کی شرح ماپنے کے لئے میرے اورآپ کی ذاتی زندگی سے بڑا پیمانہ موجود ہی نہیں۔ ہمیں حقیقی مسائل سے غافل رکھنے کے لئے مگر ”طوطا حلال ہے یا حرام“ جیسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایسے سوالات سوشل میڈیا خاص طور پر یوٹیوب چینلوں پر مسلط کیے ذہن سازوں کی فراست کے سہارے اٹھوائے جا رہے ہیں۔ انہیں نظرانداز کرنے کے بجائے میرے کئی معتبر ساتھی انتہائی سنجیدگی سے طوطے کو حلال یا حرام ثابت کرنے کی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی اس سے زیادہ خدمت گزاری ہونہیں سکتی۔

یہ بات برحق کہ وطن عزیز میں بنیادی سوالات اٹھانے کی گنجائش محدود سے محدود تر ہو رہی ہے۔ اتنا حق تو ہماری اکثریت کو اب بھی تاہم میسر ہے کہ جو موضوعات فروعی مباحث میں واضح طور پر الجھاتے نظر آئیں ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی جائے۔ ”ذہن سازوں“ کے بچھائے جال سے اجتناب برتا جائے۔ یہ امید ایجاد کرنے سے بھی گریز ہوکہ ”ان ہاؤس“ تبدیلی کو ممکن بنانے کے لئے جاہ وجلال والوں سے خفیہ ملاقاتیں جاری ہیں اور مسلم لیگ (نون) کی صفوں سے چار ایسے افراد بھی نمودار ہوچکے ہیں جو ”ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں“ والا نغمہ الاپ رہے ہیں۔

عمران خان صاحب مجھے پھلوں کی ٹوکریاں نہیں بھیجتے۔ ٹھنڈے دل سے مگر غور کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ انہیں حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج بھی ”اچھی نہیں ملی“ ۔ مثال کے طور پر انہوں نے چند دن قبل روسی صدر پوٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کے بعد وزیر اعظم صاحب نے اپنے ہاتھ سے ٹویٹ لکھ کر ہمیں آگاہ کیا کہ انہوں نے روسی صدر کا اس بیان کی وجہ سے شکریہ ادا کیا جس کے ذریعے پوٹن نے مغربی دنیا کو سادہ ترین الفاظ میں بتادیا ہے کہ مسلمانوں کے لئے مقدس ترین شمار ہوتی ہستیوں اور مبادیات کی تضحیک ”آزادیٔ اظہار“ کا جواز تراشتے ہوئے نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔

روسی صدر کے ساتھ ان دنوں رابطہ کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم نے درحقیقت کمال جرات کامظاہرہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں کی یاوہ گوئی سے اپنے غم بھلانے کی علت سے مہلت ملے تو ٹویٹر اور فیس بک پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد بھی آپ یہ حقیقت بآسانی دریافت کر سکتے ہیں کہ ان دنوں روس اور مغربی ممالک کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ امریکہ کی جانب سے مسلسل دعویٰ ہو رہا ہے کہ روس اپنے ایک ہمسایہ ملک یوکرین کی سرحدوں پر جدید ترین اسلحہ سے لیس افواج کے انبوہ بھیج رہا ہے۔ وہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک سے تقاضا کر رہا ہے کہ تحریری طور پر اسے یقین دلایا جائے کہ یو کرین کو نیٹو نامی فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔ ماضی میں کمیونسٹ بلاک کا حصہ رہے پولینڈ جیسے ممالک میں بھی روس کو دھمکانے والے ایٹمی ہتھیار نہیں پہنچائے جائیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ ان کی جانب سے مطلوبہ تحریری وعدے فراہم نہ کرنے کی صورت روس یوکرین پر فوجی قبضہ کرلے گا۔ جارحانہ حملے کے امکانات اس حد تک قوی تصور کیے جا رہے ہیں کہ اب ایسی مشقیں بھی شروع کردی گی ہیں جو یوکرین پر ممکنہ روسی قبضے کے بعد وہاں سے ایسی مزا حمت یقینی بنانا چاہ رہی ہیں جو روسی افواج کے افغانستان پر قبضے کے بعد اس ملک میں ”مجاہدین“ کے ذریعے کئی برسوں تک برپارہی۔

روس اور مغربی ممالک کے مابین انتہائی کشیدگی کے اس موسم میں پاکستان کے وزیر اعظم نے صدر پیوٹن سے رابطہ کرتے ہوئے سفارتی اعتبار سے اہم ترین قدم اٹھایا ہے۔ یہ پیش قدمی یہ سوچتے ہوئے مزید اہم محسوس ہوتی ہے کہ وائٹ ہاؤس پہنچنے کے ایک سال بعد بھی امریکی صدر نے ہمارے وزیر اعظم سے کسی رابطے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جو بائیڈن کئی برسوں سے امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنا چاہ رہا تھا۔ وہ اقتدار میں نہیں تھا تو ٹرمپ کے متعین کردہ زلمے خلیل زاد کے ساتھ طالبان کے مذاکرات پاکستان کی بھرپور معاونت کی بدولت ہی ممکن ہوئے۔ ”اسلامی امارات افغانستان“ کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ نے جو معاہدہ کیا تھا جو بائیڈن نے اس کی تنسیخ مناسب تصور نہیں کی۔ امریکی افواج کے انخلاء کے لئے فقط مزید مہلت طلب کی۔ جو وقفہ میسر تھا اس کے دوران مگر وہ امریکی افواج کی باعزت واپسی کی راہ ڈھونڈ نہیں پایا۔ بالآخر گزشتہ برس کی 15 اگست کے روز سے تقریباً ایک ہفتے تک امریکی افواج افغانستان سے ذلت آمیز انداز میں جان بچاکر فرار ہوتی نظر آئیں۔ جان بچاکر بھاگتی امریکی افواج اور ان کے افغان اور دیگر حلیفوں کو محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچانے میں پاکستان بھی مددگار ثابت ہوا۔ جو بائیڈن نے تاہم ہمارے وزیر اعظم تک ”شکریہ“ کے دو بول بھی نہ پہنچائے۔ آئی ایم ایف کو خاموشی سے پیغام بلکہ یہ دیا کہ پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے سے قبل وہاں کی حکومت کو اپنے عوام پر مزید ٹیکس لگانے کو مجبور کیا جائے۔ ہمارے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں آئی ایم ایف کے سخت گیر رویے کا ازخود شکوہ کیا ہے۔ میں ہرگز اندر کی کوئی بات عیاں نہیں کررہا۔ نہ ہی کوئی سازشی کہانی بیان کر رہا ہوں۔ فقط وہ حقیقت دہرارہا ہوں جو شوکت ترین صاحب نے بیان کی ہے۔

قصہ مختصر، دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے امریکہ کا ان دنوں پاکستان کے ساتھ رویہ مخاصمانہ ہو چکا ہے۔ ہمیں اب متبادل دوستوں کی تلاش ہے۔ اس ضمن میں فقط چین کا سہارا ہی کافی نہیں۔ برادر ملک سعودی عرب بھی گزشتہ چند مہینوں سے ماضی والی فیاضی نہیں دکھارہا۔ یو کرین کی سرحد پر جارحانہ انداز میں اپنی افواج تعینات کرتے ہوئے روسی صدر پوٹن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ان کی اوقات میں رکھنا چاہ رہا ہے۔ عمران خان صاحب نے سفارت کارانہ مہارت سے اس کی کمر تھپکائی ہے۔

تیل اور گیس کے ذخائر کے اعتبار سے روس خیرہ کن حد تک مالا مال ہے۔ عالمی منڈی میں ان کی فروخت کے ذریعے روس کے قومی خزانے میں اربوں ڈالر وافر تعداد میں جمع ہو رہے ہیں۔ امریکہ کو نظرانداز کرتے ہوئے عمرا ن خان صاحب روس کے ساتھ چین جیسی گہری دوستی استوارکرنے میں اگر کامیاب ہو گئے تو طویل المدت تناظر میں ہمارے تیل اور گیس سے جڑے مسائل کا موثر ترین حل میسر ہو سکتا ہے۔ روس، چین اور پاکستان بلکہ ایک ”اتحاد ثلاثہ“ بھی کھڑا کر سکتے ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو ہمارے ساتھ اپنا مخاصمانہ رویہ تبدیل کرنے کو مجبور کردے۔ یوٹیوب پر چھائے ذہن ساز مگر ان امکانات کی جانب توجہ ہی نہیں دے رہے۔
بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments