امید اور یقین ایک روشن چراغ


امید ایک رجائیت پسندانہ دماغ کی کیفیت ہے، جو مثبت امکانات کی توقع پر ٹکی ہوتی ہے۔ یہ اعتماد کے ساتھ توقع کا نام ہے۔ انسان کی زندگی کبھی بھی امید کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ انسانی زندگی کا ہر عمل کسی امید اور نتیجہ خیزی کی توقع کے ذریعے ہی انجام پاتا ہے، اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش امید ہی کا دوسرا نام ہے۔

ہر انسان کی زندگی میں امیدوں کی ایک دھند ہے، اور کچھ ایسا ہے، جو صاف دکھتا بھی نہیں اور چھپتا بھی نہیں، بس اسی کے سہارے زندگی چل رہی ہے۔ ہم سالوں پر محیط اپنی زندگی کی پلاننگ کرتے ہیں، بلکہ ہر سال، ہر مہینے، ہر ہفتے اور ہر دن کے بارے میں ایک پلان ہوتا ہے کہ یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے، اور یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ خدا نے چاہا تو ہم انشا اللہ یہ کام ضرور کر لیں گے، اور یہ سب کرتے ہوئے ہمارے اندر یہ امید کا ہی روشن چراغ ہے جو ہمیں ہمت اور لگن سے آگے بڑھنے آس دلا رہا ہوتا ہے۔

انسان کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں اور جب ہر طرف مایوسی ہو، اور کوئی کام ڈھنگ سے نہ ہو رہا ہو تو یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ امید کا دامن چھوڑ دیتا ہے، اپنا یقین کھو بیٹھتا ہے، اسے زندگی بے رنگ اور بے معنی لگنے لگ جاتی ہے، لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا، وہ کہتے ہیں نا کہ ،اچھے دن نہیں رہتے تو برے دن بھی نہیں رہتے، جلد یا بدیر اچھا وقت ضرور آتا ہے، نہ سکھ سدا رہتا ہے اور نہ دکھ؛

بقول شاعر
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

سب کچھ ہاتھ سے بلے جانے کے بعد بھی اگر کچھ بچتا ہے تو وہ امید ہے۔ بے شک زندگی کے مشکل ترین وقتوں میں امید ہی حوالہ مندی کا ایک روشن استعارہ ہے۔

میرے خیال میں وقت کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، حالات چاہیے جیسے بھی کٹھن ہوں، مشکلات کے بادل جتنے بھی کالے کیوں نہ ہوں، آسانی کی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوتا ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی امید کا چراغ پورے یقین کے ساتھ روشن رکھے، امید کی روشنی سے انسان کا وجود منور ہو جاتا ہے، انسان ظاہری اور باطنی طور پر مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ اور پوری تگ و دو کے ساتھ اپنے رستے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے۔

؛کہتے ہیں کہ امید پر جیتا ہے زمانہ؛

انسان کو جانچنے کے لیے ہی سب قدرت کے پیمانے ہیں، کیونکہ انسان اپنی فتح اور کامیابی سے اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا ناکامی، یا ارادوں کے ٹوٹنے سے ہوتا ہے، ناکام تجربات ہی سے زندگی کے اصل حقائق آشکار ہوتے ہیں، انسان امید کی ڈور کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے، اور اسی کے ساتھ ہی اس کے اندر مثبت انداز فکر پیدا ہوتا ہے، جو زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے میں بہترین کردار ادا کرتا ہے۔

امید کے ساتھ ساتھ یہ یقین بھی پختہ ہونا چاہیے، کہ جس خالق کائنات نے ہمیں تخلیق کیا ہے وہ کبھی بھی ہم سے غافل نہیں ہوتا، قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ؛اور اسی میں امید اور یقین کا درس دیا گیا ہے۔ امید اور یقین ہی انسانی زندگی کے نشیب و فراز میں وہ واحد سہارے ہیں جن کے ساتھ انسان اپنے مشکل اور ناپسندیدہ حالات سے نبرد آزما ہو سکتا ہے۔ اسی امید اور یقین سے انسان کے اندر ایک جادوئی طاقت ابھرتی ہے جو اس کو آگے بڑھنے اور مشکلات اور پریشانیوں سے مثبت انداز میں نمٹنے کا حوالہ بخشتی ہے، اس مشکل حالات کو اپنے منفی رویے اور منفی انداز و فکر سے مشکل ترین بنانے سے گریز کرنا چاہیے، بلکہ امید اور یقین کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے۔

امید اور رب العالمین پر پختہ یقین کے ساتھ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کوشش جاری رکھیں، تو وہ رب کائنات اپنی رحمتوں اور برکتوں سے ضرور نوازتا ہے۔

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments