نریندر مودی کی حکومت مقبول یوٹیوب چینلز کے نشانے پر

گورو دعا - بی بی سی مانیٹرنگ


نریندر مودی حکومت کے اقدامات پر ملک کے بڑے نشریاتی اداروں اور اخبارت کی طرف سے تنقید محدود ہونے کے سبب کئی مقبول یوٹیوب چینلز بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو ملک کو درپیش بیشتر مسائل پر کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

یہ یوٹیوب چینلز بیک وقت حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، ہندو قوم پرست تنظیموں اور حکومت کے حامی میڈیا اداروں پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں۔

اس صورت حال میں حکومت کے حامی کچھ مقبول یوٹیوب چینلز، جن کو دیکھنے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد ہے، حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں اور اختلاف رائے کی آوازوں پر تنقید کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے 19 جنوری کو کہا تھا کہ حکومت ایسی کسی بھی ویب سائٹ یا یوٹیوب چینل کو بلاک کر دے گی جو ‘انڈیا کے خلاف سازش’ میں ملوث پائے گئے۔

گزشتہ سال دسمبر میں حکومت نے 20 یوٹیوب چینلز اور دو ویب سائٹس کو بلاک کر دیا تھا، جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ مبینہ طور پر پاکستان سے چلائے جانے والے ‘ایک مربوط ڈس انفارمیشن نیٹ ورک’ کا حصہ ہیں اور ان پر انڈیا مخالف پروپیگنڈہ اور ‘جھوٹی‘ خبریں پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔

وزیر اعظم، بی جے پی اور ہندو قوم پرست گروپوں پر تنقید

یوٹیوب چینل ‘نیشنل دستک’ نے جس کے 56 لاکھ سے زیادہ صارفین ہیں، متعدد ویڈیوز شائع کی ہیں جن میں مسلمانوں اور نچلی ہندو ذات کی برادریوں کے لوگوں کو نریندر مودی، بی جے پی اور ہندو قوم پرست گروپوں پر تنقید کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

19 جنوری کو چینل پر ایک ویڈیو میں ہندو قوم پرست گروپ بجرنگ دل کے ‘غنڈوں’ کو ریاست مدھیہ پردیش میں ایک مسلمان نوجوان کو مارنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نوجوان پر، جو اپنی ہندو بیوی کے ساتھ ٹرین میں سفر کر رہا تھا، بجرنگ دل نے ‘لو جہاد’ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا، جو ایک ہندو قوم پرست سازشی سوچ ہے جس میں الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد محبت کے جال میں پھنسا کر ہندو خواتین کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ایک اور یوٹیوب چینل ‘OfficialPeeing Human’ جس کے 10 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبر ہیں کی طرف سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں تیل اور گیس کی قیمتوں پر مودی کی ‘منافقت’ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس ویڈیو میں وزیر اعظم کی مہنگائی کا حل نکالنے کے دعوؤں کی ویڈیوز اور ٹی وی پر نشر ہونے والے بیانات میں تضاد دکھایا گیا۔

یہ چینل تیل کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں اور حکومت کے متضاد بیانات پر طنزیہ ویڈیوز کے ذریعے حکومت اور حکومت کے حامی آوازوں کا مذاق اڑاتا ہے۔

ایک اور مقبول یوٹیوب چینل ‘بہوجن ٹی وی،’ نے جس کے 27 لاکھ سے زیادہ صارفین ہیں، متعدد ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کیں جن میں مختلف مسائل پر مودی حکومت کے خلاف بیانیے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

23 دسمبر کی ایک ویڈیو میں ایک ممتاز دلت رہمنا چندرشیکھر آزاد کو کچھ ہندو نوجوانوں کی طرف سے مسلح افواج میں نوکریوں کا مطالبہ کرنے والی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

آزاد نے سوال کیا، ’اگر یہ حکومت ہندوؤں کے درد پر بھی توجہ نہیں دے رہی ہے تو کیا یہ ہندوؤں کی بھی حکومت ہے یا صرف امیروں کی حکومت ہے۔’

ایک اور چینل ‘دی دیش بھگت’ نے 30 دسمبر کو ایک ویڈیو میں، پوسٹ گریجویٹ میڈیکل طلباء کے کالج الاٹمنٹ میں تاخیر پر دارالحکومت دہلی میں ڈاکٹروں کے احتجاج پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

کسانوں کے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے، ویڈیو میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ ‘اس حکومت کی جارحیت تقریباً ہر ایک طبقے کے خلاف ہے جو اپنی آواز اٹھا رہا ہے، کیا آپ اس کا اگلا نشانہ ہو سکتے ہیں؟’

ان میں سے زیادہ تر چینلز، خاص طور پر جو دلت اور مسلم بیانیے کو اجاگر کرتے ہیں، ہندی میں ہیں۔

بی جے پی کے خلاف انتخابی خبریں

کچھ یوٹیوب چینلز نے شمالی انڈیا کی ریاستوں میں بی جے پی مخالف بیانیے کو اجاگر کیا ہے جہاں فروری اور مارچ میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔

اتر پردیش (یو پی) میں آئندہ انتخابات کے تناظر میں، یوٹیوب چینل ‘دی لائیو ٹی وی،’ نے جس کے 62 لاکھ سے زیادہ صارفین ہیں، بی جے پی کے سینیئر لیڈر اور یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف ریاست میں ہونے والے مظاہروں کی کئی ویڈیوز نشر کیں۔

16 جنوری کی ایک ویڈیو میں یو پی کے مراد آباد قصبے میں لوگوں کو آدتیہ ناتھ پر تنقید کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ایک خاتون کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ وہ ‘کسی کام کے نہیں’ کیونکہ انھوں نے خواتین کو کوئی مالی امداد فراہم نہیں کی ہے۔

اسی طرح، 17 جنوری کی ایک ویڈیو میں آدتیہ ناتھ کے آبائی شہر گورکھپور میں اپوزیشن سے وابستہ کچھ لوگ ان پر تنقید کرتے ہوئے دکھائے گئے۔

یوٹیوب چینل ‘اے آر نیوز انڈیا،’ نے جس کے صارفین کی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ ہے، سرکردہ مسلمان سیاست دان اسد الدین اویسی کی یو پی میں انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقریروں کی بہت سی ویڈیوز جاری کیں، جس میں انہوں نے مودی، بی جے پی اور آدتیہ ناتھ پر کڑی تنقید کی۔

11 جنوری کو ایک ویڈیو میں، اویسی نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ ‘سیکولرازم کو قتل کر کے اسے انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ ایک قبر میں دفن کر دیا گیا ہے۔’

چینل نے ایودھیا کے مقدس شہر میں ہندو پجاریوں کی طرف سے آدتیہ ناتھ پر تنقید اور اتراکھنڈ ریاست میں بی جے پی کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے والی ویڈیوز بھی شائع کیں، جہاں فروری میں انتخابات ہوں گے۔

یو پی میں اویسی کی تقریروں کو قومی میڈیا پر بہت کم ہی نشر کیا جاتا ہے۔

حکومت کے حامی ذرائع ابلاغ پر تنقید

ان میں سے بہت سے یوٹیوب چینلز اکثر حکومت کے حامی مقبول میڈیا اداروں پر بھی سخت تنقید کرتے ہیں۔

’OfficialPeeing Human’ کی ایک ویڈیو میں حکومت کے حامی ٹی وی صحافی ارنب گوسوامی کے دو ویڈیوز جاری کیں جن میں وہ متضاد باتیں کر رہے ہیں۔ ایک 2017 کا اور دوسرا 2021 کا تھا جس میں دیوالی کے موقع پر پٹاخوں پر پابندی کے موضوع پر وہ بالکل مختلف بات کر رہے ہیں۔

ہندو قوم پرست گروہ اور تبصرہ نگار اکثر ایسی پابندیوں پر تنقید کرتے ہیں، اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا نشانہ صرف ہندو تہواروں کو بنایا جاتا ہے اور دوسرے مذاہب کے تہواروں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی۔

ارنب گوسوامی نے 2021 کے کلپ میں، پٹاخوں پر پابندی پر سوال اٹھایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس پابندی کا مقصد صرف دیوالی کو ٹارگٹ کرنا ہے جبکہ اپنے 2017 کے کلپ میں، انھوں نے ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس پابندی کی حمایت کی تھی۔

اسی طرح، ‘پڑھا لکھا آدمی’ چینل پر ایک ویڈیو میں، جس کے ایک لاکھ 60 ہزار صارف ہیں، طنزیہ کلپس دکھائے گئے جن میں حکومت کے حامی ٹی وی صحافیوں یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ اپنے انٹرویو کے دوران ان کی مداح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک کلپ میں نمایاں ہندی چینل ریپبلک بھارت کی ایک سینیئر نیوز اینکر ایشوریہ کپور کو دکھایا گیا ہے، جو آدتیہ ناتھ کی ان کے ‘اعتماد’ پر تعریف کرتی ہیں۔ ایک اور ہندی چینل زی نیوز کے سدھیر چودھری کہتے نظر آتے ہیں کہ ‘2021 میں، لوگ کہتے ہیں کہ آپ [آدتیہ ناتھ] ایک سپر سی ایم [وزیر اعلی] ہیں۔’

یوٹیوب پر حکومت کے حق میں آوازیں

حکومت کے حامی یوٹیوب چینلز بھی سامنے آئے ہیں جو مودی حکومت اور بی جے پی کے پیغامات کو باقاعدگی سے آگے بڑھاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ‘دی نیوز’، جس کو دیکھنے والوں کی تعداد 21 لاکھ سے زیادہ ہے، باقاعدگی سے حزب اختلاف کی جماعتوں پر تنقید اور بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف وفاقی حکومت کے اقدامات کی حمایت میں ویڈیوز نشر کرتا ہے۔

اسی طرح ’اوپی انڈیا ہندی‘ پر 24 جولائی کی ایک ویڈیو میں ‘لو جہاد’ کے بارے میں ہندو قوم پرستوں کے خدشات کی وضاحت کی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments