نجم سیٹھی صاحب کا انصاف اور کمسن بیمار بچے کی لاش



حال ہی میں نیا دور یو ٹیوب چینل پر پاکستان کے مشہور صحافی محترم نجم سیٹھی صاحب کا ایک پروگرام سننے کو ملا۔ اس میں محترم سیٹھی صاحب یہ ذکر فرما رہے تھے کہ کچھ عرصہ سے جسٹس اطہر من اللہ ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں اور بڑے اچھے فیصلے دے رہے ہیں۔ اگر یہ ذکر یہیں تک رہتا تو شاید اس کالم کی ضرورت نہ ہوتی لیکن کسی وجہ سے میرے محترم سیٹھی صاحب نے ایک ایسی بات کہی ہے جس کو کم از کم راقم الحروف ہضم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے فرمایا

” جوڈیشری کے لئے اب بہت کام کرنے والے ہیں اور ہماری امید ہے کہ جوڈیشری اب کھڑی ہو گی اور نیکی کے کام کرے گی اور عوام کو انصاف دے گی ایلیٹ کو انصاف نہیں دے گی۔ رولنگ کلاس کو انصاف نہیں دے گی۔ ایلیٹ [elite] کو انصاف نہیں دے گی۔ عوام کو انصاف دے گی اور انصاف ہوتا ہی وہ جو عوام کے لئے ہو۔ اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ ججز ہیں ریڈ لائن توڑنے والے۔ اب میڈیا بھی واپس آ رہا ہے ریڈ لائن توڑنے کی طرف۔“

گویا نجم سیٹھی صاحب یہ نظریہ پیش فرما رہے ہیں کہ انصاف تو وہی ہوتا ہے جو کہ عوام کے لئے ہو۔ اور جو عدالت یا نظام مراعات یافتہ طبقہ کو انصاف مہیا کرے تو یہ عمل انصاف نہیں کہلا سکتا۔ اور پاکستانی عدالتوں کو اس سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون ایلیٹ طبقہ یا مراعات یافتہ طبقہ میں شامل ہے اور کون عوام میں شامل ہے۔ ایک سکول کی مثال لے لیں۔ سکول میں کام کرنے والے چوکیدار کے نزدیک سکول کے اساتذہ مراعات یافتہ طبقہ میں شامل ہیں اور وہ خود غریب عوام میں شامل ہوتا ہے۔

سکول کے اساتذہ اور کلرکوں کے نزدیک وہ عوام ہیں اور سکول کا ہیڈماسٹر مراعات یافتہ طبقہ کا نمایندہ ہے۔ اور سکول کا ہیڈماسٹر یہ خیال کرتا ہے ہے کہ وہ غریب تنخواہ دار اور عوام کا نمایندہ ہے اور باہر مارکیٹ میں کاروبار کرنے والا تاجر یا محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران مفت میں مراعات کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اور خیالات کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔

اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا انصاف اسے کہتے ہیں کہ عوام کو تو انصاف ملے اور خواص کو اس نام کی جنس مہیا نہ کی جائے؟ یہ تو ٹھیک ہے کہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ غریب لوگ اس آسانی سے انصاف حاصل نہیں کر سکتے یا محروم رہتے ہیں لیکن امیر اور با اثر طبقہ اپنے کام چلاتے رہتے ہیں۔ مگر کیا اسے انصاف کہہ سکتے ہیں کہ ایک طبقہ تو انصاف سے محروم ہو اور دوسرے طبقہ کو انصاف مہیا کیا جائے؟ تو عرض ہے کہ اسے انصاف نہیں کہتے۔ انصاف سب کے لئے برابر ہوتا ہے۔

اگر ایک شخص ملک کا امیر ترین اور بہت با اثر شہری ہے اور اگر اس پر سنگین سے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ اور ملک کی اکثریت بھی اسے مجرم سمجھتی ہے تو بھی یہ تمام عوامل اسے مجرم قرار دینے یا سزا دینے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ آئین اسے کچھ ناقابل تنسیخ حقوق دیتا ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے برابر کے حقدار ہیں۔ چنانچہ ہم با اثر اور امیر ترین طبقہ کو بھی اس حق سے محروم نہیں کر سکتے۔

بہت سے پڑھنے والے یہ سوچیں گے کہ یہ کیا ذکر لے بیٹھے۔ ایسا کب ہوا ہے کہ با اثر اور امیر طبقہ انصاف سے محروم رہا ہو؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ایسا ہوا ہے اور بار بار ہوا ہے اور اس بے انصافی نے بھی بہت سے المیوں کو جنم دیا ہے۔ جب کسی شخص یا خاندان یا گروہ کے خلاف تعصب کی آندھی چل رہی ہو تو عوامی رائے بھی اسی رنگ میں رنگی جاتی ہے۔

تاریخ سے اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ جب پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو روس کا بادشاہ زار نکولس ثانی ایک وسیع سلطنت کا مالک تھا۔ برطانیہ کی طرح یہ بادشاہت صرف نام کی بادشاہت نہیں تھی بلکہ با اختیار بادشاہت تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت روس کے غرباء ایک پسی ہوئی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے اور بنیادی حقوق سے محرومی ان کا مقدر تھی۔ اور امیر طبقہ اپنے رسوخ کے نشہ میں مخمور تھا۔ انہیں کروڑوں غریبوں کی زندگی اور موت سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران غریب روسی فوجیوں کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ برفانی سردی میں انہیں صحیح کپڑے اور جوتے بھی میسر نہیں تھے۔ اور روسی افواج شکست پر شکست کھا رہی تھیں۔ روس کی ملکہ زارینہ جرمنی کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اس وقت روس اور جرمنی کی جنگ ہو رہی تھی۔ جب شاہی خاندان کے خلاف عوام کا غصہ بھڑکا تو سب سے زیادہ نزلہ زارینہ پر گرا۔ لوگ برملا کہتے تھے کہ یہ ہمارے دشمن جرمنی کی ایجنٹ ہے اور انہیں مخبری کرتی ہے۔

اگرچہ زارینہ اپنے خاوند کی تمام خامیوں میں شریک تھیں لیکن بعد میں تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ کم از کم یہ الزام بالکل غلط تھا۔ وہ روس کو اپنا وطن تسلیم کر چکی تھیں اور اب ان کا جرمنی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہ نرس بن کر زخمی فوجیوں کی خدمت کرتی رہیں لیکن پھر بھی روسیوں نے انہیں اپنا ہم وطن تسلیم نہیں کیا۔

بہرحال عوامی غصے نے جنگ کے دوران زار کو اقتدار سے محروم کر کے قید کر دیا۔ کل کو جس گھرانے کا اقتدار عروج پر تھا وہ اب بے بسی کے دن گزار رہا تھا۔ زار، سابق ملکہ اور ان کی چار بیٹیاں اور ان کا بیمار بیٹا سائبیریا میں قید تھے۔ جو قصور تھا زار کا تھا۔ کم از کم زار کے بچوں کو تو قصوروار قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ لیکن اگر ظالم کے خلاف بھی بے لگام نفرت کو پنپنے کا موقع دیا جائے تو بسا اوقات مظلوم بھی ظالم بن جاتا ہے۔

جولائی 1918 میں مقامی سوویت نے زار، سابق ملکہ ان کے تمام بچوں کو گولیوں اور برچھیوں سے چھلنی کر کے قتل کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مقدمہ چلایا گیا۔ کیا زار کو اور اس کے خاندان کو اپنے دفاع کا موقع ملا؟ زار کے کمسن اور بیمار بیٹے کو کس جرم میں مارا گیا؟ زار کی کم عمر بیٹیوں کو کیوں قتل کیا گیا؟ عوامی غصہ ہر جرم کا جواز نہیں بن جاتا۔ اسی پر یہ طیش ختم نہیں ہوا۔ ان کی لاشوں کو جنگل میں لے جا کر مسخ کیا گیا اور پھر دو قبروں میں دفن کر دیا گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لینن کو بھی اس کی خبر نہیں تھی۔ ان کا ارادہ تھا کہ زار پر مقدمہ چلایا جائے اور ٹراٹسکی ان کے خلاف پیش ہو۔

اب کچھ لوگ کہیں گے کہ انقلاب میں تو ایسا ہوجاتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ انقلاب اور کڑے انصاف کا نعرہ ہر بے انصافی کا جواز نہیں ہوتا۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رکتا نہیں ہے۔ اسی اندھی نفرت کا فائدہ اٹھا کر ایک اور مراعات یافتہ اور با اثر طبقہ اٹھتا ہے اور وہی حرکتیں شروع کر دیتا ہے جو کہ گزشتہ مراعات یافتہ طبقہ کر رہا تھا۔ چنانچہ زار اور اس کے حامی تو ختم ہو گئے۔ اس کے بعد کمیونسٹ ایک دوسرے کو ختم کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔

آخر سٹالن کے دور میں انہوں نے بہت سے کمیونسٹوں کو انقلاب دشمن قرار دے کر راستہ سے ہٹانا شروع کیا۔ ٹراٹسکی بھی جنہوں نے شاید زار پر مقدمہ چلانا تھا اس کی زد میں آ گئے۔ پہلے انہیں روس چھوڑنا پڑا۔ کمیونسٹ پارٹی کے قائدین جو کہ پہلے زار کے خاندان کو قتل کر رہے تھے، اب اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ چنانچہ 1940 میں ٹراٹسکی کو سوویت ایجنٹ نے قتل کر دیا۔ 1920 اور اس کے بعد بار بار کمیونسٹ پارٹی کی تطہیر کی گئی۔

ایک رو میں تو دس فیصد ممبران کو غیر صالح کمیونسٹ قرار دے کر فارغ کیا گیا۔ بہت سے مارے گئے اور ہزاروں کو قید کیا گیا۔ کمیونسٹ دور کی خوبیوں اور خامیوں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سوویت دور میں بار بار بری طرح انصاف کو پامال کیا گیا۔ سینکڑوں لکھنے والے اور ہزاروں اختلاف کرنے والے قید کیے گئے۔ ذاتی خط یا سرگوشی میں بھی اظہار رائے ایک جرم بن گیا۔ کل جس تخت پر زار بیٹھا تھا، آج اس پر سٹالن کی ذات جلوہ گر تھی۔ نتیجہ یہ کہ انصاف تو وہی ہے جو سب کے لئے یکساں ہو۔ اگر عوام کا نام لے کر با اثر طبقہ کو انصاف سے محروم کرو گے تو آخر میں کوئی بھی نہیں بچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments