ایک تھا کرونا


برسوں بعد بھی لوگ اپنے بچوں کو یہ کہانی سنایا کریں گے کہ ”کرونا“ نامی ایک وبا پھیلی تھی اور دنیا بھر کے لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔ ان دنوں انسان، انسان سے دور بھاگتا تھا۔ محبتیں صرف سوشل میڈیا اور موبائل فونز تک محدود ہو گئی تھیں۔ کنواروں کی شادیاں رک گئی تھیں اور شادی شدہ لوگوں کو سوشل ڈسٹنس کا مشورہ دیا جا رہا تھا۔ لوگ ہاتھ کی بجائے کہنیوں سے مصافحہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ عید تہوار پر بھی دوسروں سے گلے ملنا خلاف تہذیب بن گیا تھا۔

وہ بہت عجیب دن تھے۔ لوگ دن رات خدا کو یاد کرتے تھے، لیکن عبادت گاہیں بند تھیں۔ کوئی ملک اپنے دشمن کو ایٹم بم سے نہیں ڈراتا تھا۔ اسلحے کی دوڑ تھم سی گئی تھی۔ عالمی طاقتیں اسلحہ بارود کے لیے نہیں طبی سامان کے لیے لڑ رہی تھیں۔ جہاز اور کاریں بنانے والی کمپنیاں وینٹی لیٹر بنا رہی تھیں۔ ماسک بنانے والے اداروں کی چاندی ہو گئی تھی اور میڈیکل سٹور بنانا بہترین کاروبار سمجھا جانے لگا تھا۔

جب وبا نے زور پکڑا تو ملک کی بڑی بڑی عمارتیں کارنٹائن میں بدل گئیں۔ پرہجوم بازار ویران گئے اور موت دبے پاؤں ہر شخص کا تعاقب کرنے لگی۔ ان دنوں جنگ و جدل کی باتیں بے معنی سی لگتی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کو اذیت ناک موت اور بھوک سے ڈراتے تھے۔ سب کے کان اس خوشخبری کے منتظر تھے کہ کرونا کا علاج دریافت ہو گیا ہے۔ لیکن انتظار طویل ہوتا چلا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے دنیا کی رونقیں اب کبھی بحال نہیں ہوں گی۔

تو کیا اس وقت ہر طرف صرف خوف اور مایوسی تھی، دنیا میں کوئی اچھا کام نہیں ہو رہا تھا؟ ”کہانی سنانے والے سے سوال

کیا جائے گا۔

” کیوں نہیں! اس وقت بہت سے اچھے کام بھی ہو رہے تھے۔ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جو ہم نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔“

کیسے واقعات؟ ”بچے حیرت سے پوچھیں گے“

کرونا کے دنوں میں دھواں اگلتی گاڑیاں اور فیکٹریاں بند ہو گئیں تو لوگوں نے پہلی بار صاف شفاف نیلا آسمان دیکھا۔ رات کو ”

تاروں بھرا آسمان ہمیں کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا تھا۔ سائنس دانوں نے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ اوزون کی تہ میں ہونے والا شگاف پر ہو رہا ہے۔ برسوں سے اپنے کاموں میں مگن لوگوں کو گھر والوں کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہوا۔ ایک دوسرے کو دلچسپ قصے سنائے جانے لگے، باذوق لوگوں میں پھر سے کتابیں پڑھنے کا رجحان پیدا ہو گیا۔ ان رشتے داروں سے بھی فون پر رابطے ہونے لگے جنھیں لوگ اپنی مصروف زندگی میں کہیں کھو بیٹھے تھے۔

بچے آپ کی بات توجہ سے سنیں گے اور دلچسپی سے پوچھیں گے :
”جب ہر جگہ پابندیاں تھیں تو آپ کا وقت کیسے گزرتا تھا؟“
یہ سنتے ہی بے اختیار مسکرا دیں گے اور فخر سے بتانا شروع کریں گے :

”وہ میری زندگی کا بہترین وقت تھا۔ میں سکول سے لمبی چھٹیاں ہو جانے پر خوش رہتا تھا۔ کچھ بچوں کو یہ خوش فہمی ہو گئی تھی کہ اب سکول ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے ہیں اور تعلیم صرف آن لائن ایجوکیشن کی شکل میں زندہ رہے گی ان دنوں کرفیو کا دوسرا نام لاک ڈاؤن رکھ دیا گیا تھا۔ شہریوں کو سختی سے گھروں میں رہنے کی تلقین کی جاتی تھی۔ لیکن دوسرے بچوں کی طرح مجھے بھی گھر جیل دکھائی دیتا تھا۔ اماں کی روک ٹوک اور ابا کی نصیحتوں سے بچنے کے لیے، میں ناشتے کے بعد ہی چپکے سے دوستوں کے ساتھ باہر نکل جاتا تھا۔ وہ سڑکیں جہاں عام دنوں میں ٹریفک کا سیلاب دکھائی دیتا تھا کرونا کی آمد کے بعد وہاں خاموشی کا راج تھا۔ جگہ جگہ کرکٹ کے میدان سج گئے تھے۔ ایک ہی سڑک پر کئی ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں اور کھلاڑی وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو یہ تسلی دیتے رہتے تھے کہ :

” کوئی کرونا شرونا نہیں ہے۔ یہ صرف مغرب کی سازش ہے۔ “

لیکن جیسے ہی پولیس کی گاڑی دکھائی دیتی تھی، کھیل کے میدان میں کھلبلی مچ جاتی تھی۔ ہم بھی شور مچاتے گلیوں میں گھس جاتے اور کونوں کھدروں میں دبک کر ایک دوسرے کو کرونا وائرس کے تباہ کن نقصانات سے ڈرانا شروع کر دیتے۔ جب پولیس نظروں سے اوجھل ہو جاتی تو سب بچے بڑے اپنے مورچوں سے باہر نکل آتے اور ہر طرف ایک ہر نعرہ گونجنے لگتا:

” کرونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments