خصوصی افراد کے حقوق کو بھی انسانی حقوق سمجھا جائے


دبیرہ ملک عمر کوٹ سندھ سے تعلق رکھتی ہیں۔ مسکولر ڈسٹرافی کا شکار ہیں۔ چھوٹے بھائی بہنوں کے بہترین مستقبل کے لئے سندھ چھوڑ کر اسلام آباد کے نواحی علاقے میں رہائش اختیار کی۔ سندھ سے ایف۔ ایس۔ سی کی۔ پندرہ سال ٹیوشن پڑھا کر گھر کا خرچ چلایا۔ اسلام آباد میں واقع پراپرٹی کی کمپنی ”نی اوم مارکیٹنگ“ میں بطور انویسٹمنٹ کنسلٹنٹ کام کر رہی ہیں۔

دبیرہ کے والد صاحب کاشتکار ہیں۔ خاندان پانچ بہنوں اور ایک بھائی پر مشتمل ہے۔ دبیرہ دو بہنوں کی شادی کروا چکی ہیں، جبکہ دو زیرتعلیم ہیں۔ بھائی تعلیم مکمل کر کے نجی کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے۔

دبیرہ کا بچپن کنری پاک ڈسٹرکٹ عمر کوٹ میں گزرا۔ مسکولر ڈسٹرافی کے آثار بچپن سے ہی نمایاں تھے۔ عام بچوں کی طرح دوڑ نہیں سکتی تھیں، کھیلتے کھیلتے جلد تھک جاتیں۔ بڑی ہوئیں تو گرنے اور چوٹیں لگنے کا سلسلہ بھی بڑھتا گیا۔ والد صاحب نے دبیرہ کا میرپور خاص، حیدر آباد اور کراچی تک کے ہسپتالوں سے علاج کروایا لیکن کہیں بھی مرض کی تشخیص نہ ہو سکی۔ مرض بڑھتا رہا۔ اسی طرح گرتے پڑتے دبیرہ سکول جاتی رہیں۔

دبیرہ نے پرائمری دانش پبلک سے کیا جو گھر سے کافی فاصلے پر تھا۔ راستے میں اکثر گر جایا کرتیں جس کی وجہ سے کپڑے گندے ہو جاتے۔ جس پر سکول کے بچے اور اساتذہ مذاق اڑایا کرتے۔

چھٹی جماعت میں گھر کے نزدیک سکول میں داخلہ کروا دیا گیا لیکن اس وقت تک بیماری کافی بڑھ چکی تھی۔ دبیرہ کے لئے گھر کے نزدیک ترین سکول میں بھی خود سے جانا مشکل ہونے لگا۔ پھر کسی نے لاہور جانے کا مشورہ دیا۔ لاہور میں جس ڈاکٹر کو دکھایا گیا اس کے علاج کا ایک سالہ کورس تھا۔ دبیرہ کی والدہ علاج کے لئے ایک سال لاہور میں رہیں۔ لیکن افاقہ نہ ہوا۔ اس دوران سکول والوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ سکول سے نکالنے کی دھمکیاں بھی دیں۔

دبیرہ کی صحت میں کوئی فرق نہ دیکھتے ہوئے والدہ نے واپس جانا مناسب سمجھا۔ کمزوری بہت بڑھ چکی تھی۔ اب دبیرہ کسی کی مدد اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتی تھیں۔ کلاس تک کافی سیڑھیاں تھیں اس لیے سکول میں انھیں گراؤنڈ میں ہی بٹھا دیا جاتا۔ دبیرہ باہر بیٹھ کر ہی کام لے لیتیں۔ گھر میں والدہ اور بڑی بہن کی مدد سے تیاری کر لیتں۔ تکلیف دہ صورتحال کے باوجود دبیرہ امتحانات میں پاس ہوتی رہیں۔

نویں جماعت کے امتحانات کے لئے داخلہ بھیجنے کی باری آئی تو سکول کی پرنسپل نے داخلہ بھیجنے سے انکار کر دیا۔ جس پر دبیرہ کے پیروں سے زمین نکل گئی۔ والدہ نے پرنسپل صاحبہ کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانیں۔ والدہ صاحبہ نے ہمت نہ ہاری۔ اپنی دوست سے بات کی جو ایک نجی سکول چلا رہی تھیں، جن کے بھر پور تعاون سے دبیرہ میٹرک کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

میٹرک کے بعد دبیرہ نے مزید پڑھنے کا خیال دل سے نکال دیا تھا۔ والدہ صاحبہ نے ہار نہ مانی گھر کے نزدیک گورنمنٹ کالج گئیں۔ پرنسپل نے کہا کہ آپ بچی کو پڑھنے کے لئے بٹھا دیں۔ لیکن ان کا داخلہ ہم نہیں بھیجیں گے۔ کالج سے صرف ان بچیوں کا داخلہ جاتا ہے جو ریگولر کالج آتیں ہیں۔

کچھ عرصے بعد گھر سے فاصلے پر نیا گرلز کالج کھلا۔ والدہ صاحبہ پرنسپل غلام نبی شہانی سے ملنے چلی گئیں، انھیں دبیرہ کی حالت کے بارے میں بتایا۔ پرنسپل نے والدہ کی فریاد سنتے ہی دبیرہ کو داخلہ دے دیا۔ شہانی صاحب بڑی باقاعدگی سے دبیرہ کو نوٹس بھجواتے رہے۔ امتحانات کا مرحلہ آیا تو دبیرہ کا سینٹر وہی کالج بنا جس کی پرنسپل نے داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ دبیرہ کی ویل چیئر دیکھتے ہی انھوں نے کہا ہم اسے پیپر نہیں دینے دیں گے۔

بات گھر تک پہنچی۔ والدہ نے شہانی صاحب سے بات کی۔ جن کی مداخلت پر پرچہ دینے کی اجازت ملی۔ دبیرہ دو پرچے باآسانی دینے میں کامیاب ہو گئیں۔ تیسرا پرچہ دینے کالج گئیں تو پتہ چلا کہ امتحان دوسری منزل پر لیا جائے گا۔ چھوٹے بھائی کے لئے دبیرہ کو پینتیس سیڑھیاں اٹھا کر لے جانا ناممکن تھا۔ منت سماجت کے بعد پرچہ نیچے حل کرنے کی اجازت تو مل گئی لیکن دبیرہ کی حاضری نہیں لگائی گئی۔ جس کی وجہ سے ساری محنت ضائع گئی۔ شہانی صاحب کی کوششوں سے دبیرہ انٹر کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

تعلیم کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بعد دبیرہ نے مزید پڑھنے سے توبہ کر لی۔ انٹر کے دوران دبیرہ نے گھر میں بچوں کی ٹیوشن اکیڈمی قائم کر لی تھی۔ ایف۔ ایس۔ سی میں پاس ہو جانے کے بعد دبیرہ نے بچوں کو دو شفٹوں میں پڑھانا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ پندرہ سال کامیابی سے چلتا رہا۔

گاؤں کی زندگی میں آگے بڑھنے کی مواقع کم ہی میسر آتے ہیں۔ دبیرہ کو گاؤں میں بھائی اور بہنوں کا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔ پھر دبیرہ نے زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ کیا اور پورے خاندان کو لے کر 2019 ء میں اسلام آباد شفٹ ہو گئیں۔ اسلام آباد میں دبیرہ کے لئے سب کچھ نیا تھا اس لیے سیٹ میں کافی وقت لکھا۔ دبیرہ کو نیٹ پر آن لائن انویسٹمنٹس نظر آئیں تو کچھ پیسہ لگا دیا۔ لیکن یہ انویسٹمنٹ فراڈ نکلی۔ دبیرہ کا سارا پیسہ ڈوب گیا جس کی وجہ سے بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

دبیرہ کے لئے ایک طرف نئے شہر کی پریشانیاں تھیں تو دوسری طرف کرونا نے زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ دبیرہ چھوٹے چھوٹے آن لائن کام کر کے گھر چلاتی رہیں۔ آئن لائن پراپرٹی کے کاموں سے بھی جڑ گئیں۔ دبیرہ جو ڈیل طے کر لیتیں انھیں اطلاع نہیں دی جاتی اور ان کے حصے کا کمیشن ہڑپ کر لیا جاتا۔ اسی دوران دیا، سایہ اور سٹیپ نامی این۔ جی۔ اوز کے ساتھ مختلف پراجیکٹس پر کام کیا، بہت سی ٹریننگز بھی لیں۔ گھر کے اخراجات اچھی نوکری کے بغیر پورے کرنا ناممکن تھا اس لیے دبیرہ نے نوکری ڈھوڈنا شروع کر دی۔

نوکری کی تلاش کا یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا۔ کہیں سے انکار ملتا تو کہیں رسائی نہ ملتی۔ پھر کسی نے ”نی اوم مارکیٹنگ“ کے بارے بتایا۔ توصیف عوان ”نی اوم مارکیٹنگ“ کے چیف ایگزیکٹو ہیں جو خواتین کے حقوق کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ خواتین کو خودمختار اور با اختیار بنانے کے مشن کی تکمیل کی غرض سے دفتر میں خواتین کے ساتھ ساتھ دبیرہ کو بھی کام کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ دبیرہ نوکری سے بہت مطمئن ہیں۔ کمپنی کی مینجمنٹ سے لے کر اسٹاف تک سب دبیرہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

دبیرہ مستقبل میں تعلیم کے سلسلے کو مزید آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔ این۔ جی۔ او بنا کر اپنی جیسی لڑکیوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔

دبیرہ کا معاشرے کو یہی پیغام ہے کہ خصوصی افراد بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہیں۔ خصوصی افراد کی ضروریات عام انسانوں سے کچھ مختلف ضرور ہیں۔ لہذا ہمارے حقوق کو بھی عام انسانوں کے حقوق طرح انسانی حقوق سمجھا کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments