برف کا آدمی


میرے والد مرحوم جناب غلام محی الدین نظر صاحب سن 1970 سے 1992 ء اپنی وفات تک روزنامہ مشرق سے وابستہ رہ کر بچوں اور بڑوں کے لئے صحافتی و ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔ انھوں نے قومی روزنامہ میں پہلی مرتبہ بچوں کے لئے خصوصی ایڈیشن ”بچوں کا مشرق“ اور تصویری خاکوں کے ساتھ روزانہ شائع ہونے والی سلسلہ وار کہانی کا آغاز کیا۔ روزانہ شائع ہونے والی ان کی لکھی سلسلہ وار کہانی کو اتنی مقبولیت ملی کہ بچے تو بچے، بڑے قارئین بھی اسے شوق سے پڑھتے تھے جس کی وجہ سے آئے روز دفتر میں پسندیدگی کے خطوط کے ڈھیر لگے رہتے۔

اخبار کے صفحہ نمبر 2 پر روزانہ شائع ہونے والی سلسلہ وار کہانی کے لئے تصویری خاکے معروف کارٹونسٹ میرؔ صاحب تیار کرتے تھے۔ والد مرحوم دفتر سے گھر آ کر رات گئے تک لکھتے رہتے تھے، جب وہ اپنی کوئی تحریر مکمل کرلیتے تو پھر وہ مسودہ اپنی بیگم یعنی میری والدہ صاحبہ کو دے دیتے۔ والدہ صاحبہ ان کی تحریر پڑھ کر سناتیں اور جہاں ضرورت ہوتی جملہ کو مزید بہتر کرنے میں والد صاحب کی مدد کر دیتیں جبکہ میں اور میرے چھوٹے بھائی پاس بیٹھ کر ان کی لکھی کہانی بڑے شوق سے سنتے ہوئے پس منظر میں کھو جایا کرتے تھے۔ اس طرح ایک طرف ہمیں مزیدار کہانی سننے کو ملتی تھی تو دوسری جانب ہماری ذہنی و معاشرتی تربیت بھی ہو رہی ہوتی تھی۔

انہی دنوں والد صاحب نے ایک سلسلہ وار کہانی ”برف کا آدمی“ شروع کی۔ کہانی کا ہیرو برف کا آدمی ہوتا ہے جو برف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی لئے وہ برفانی پہاڑوں پر ہی رہتا ہے۔ کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ میاں بیوی اپنے نومولود بچہ کے ساتھ برف کے پہاڑوں پر گھومنے آتے ہیں تو برفانی طوفان کا شکار ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں لیکن ان کا نومولود بچہ معجزانہ طور پر بچ جاتا ہے۔ قدرت اس بچہ کی حفاظت کرتی ہے اور وہ برفانی وادیوں میں خطرناک جانوروں کے درمیان پرورش پانے لگتا ہے اور ایک دن بڑا ہو کر وہ برف کا آدمی بن جاتا ہے۔

برف پوش پہاڑوں پر آنے والے سیاح جب بھی کسی برفانی طوفان یا مصیبت میں پھنس جاتے تو برف کا آدمی ان کی مدد کر کے سیاحوں کی جان بچا دیتا۔ سلسلہ وار کہانی میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ اصلاحی پہلووں کو بھی اجاگر کیا جاتا تاکہ مثبت معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔ کہانی پڑھتے سنتے اکثر بچوں کے ذہن میں ہیرو کا کردار تخلیق ہوجاتا ہے جو انھیں ہمیشہ یاد رہتا ہے جیسے میرے ذہن میں برف کے آدمی کردار ابھی تک نقش ہے کہ کیسے وہ برف میں پھنسے سیاحوں کی مدد کرتا ہے۔ جب مری میں حالیہ سانحہ پیش آیا تو مجھے میرے بچپن کا ہیرو کردار برف کا آدمی بہت یاد آیا۔ میرے دل میں خیالات آنے لگے کہ شاید کہانی کے کردار کی طرح کوئی سچ میں برف کا آدمی ہوتا اور اس برفانی طوفان میں گھرے ہوئے سیاحوں کی زندگیوں کو بچا لیتا، کاش کہ آج کے دور میں سچ میں برف کا آدمی ہوتا۔

مری کے دلخراش واقعہ کے بعد جب میڈیا رپورٹس آنا شروع ہوئیں کہ کس طرح ہوٹلز نے مصیبت زدہ سیاحوں کو لوٹنا شروع کیا، کس طرح نامعلوم افراد نے راستوں میں برف کی رکاوٹیں پیدا کر دیں، کس طرح لالچیوں نے ٹائروں کے لئے سونے کے بھاؤ لوہے کی زنجیریں بیچیں، کس طرح انتظامیہ کے اہلکاروں نے معصوم بچوں، بزرگوں اور خواتین کی چیخ و پکار سنی ان سنی کردی، کس طرح خواتین کے زیورات اتروائے گئے۔ میں تو اپنے خیالوں میں ایک نیک دل برف کے آدمی کا سوچ رہا تھا لیکن یہاں تو بے شمار ایسے برف کے آدمی نکلے جن کے دل بھی برف کے تھے جو انسانیت کو بچانے کی بجائے انسانیت کے ہی قاتل نکلے۔

شاید یہ موجودہ دور کے برف کے آدمی ہیں جو جان بچانے کی بجائے یہ سوچتے ہیں کہ کس طرح جان لی جائے۔ اللہ کو پیارے ہونے والوں کی دردناک ویڈیوز جو سوشل میڈیا پر پر اپلوڈ کی گئی تھیں اسے دیکھا بھی نہیں جاسکتا لیکن سوچیے ان ویڈیوز کے اصل ذمہ دار کتنے سنگدل، کتنے بے رحم اور کتنے سفاک ہیں جنھوں نے محض چند روپوں کی خاطر انسانی زندگی کے روشن چراغ بجھا دیے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے شفاف انکوائری کے بعد 15 افسران کو عہدوں سے ہٹا تو دیا ہے لیکن ابھی بھی بہت سے بے حس انسانوں کے دلوں پر جمی برف کی تہہ کو اتارنے کی ضرورت ہے۔ مری کو سیاحوں کے لئے کھولنے سے قبل ضروری ہے کہ وہاں پہلے عالمی معیار کے مطابق انتظامات مکمل کیے جائیں تاکہ پھر برفانی طوفان میں کسی آنکھ کو مدد کے لئے برف کے آدمی کی تلاش نہ کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments