دل کالے توں من٘ہ کالا (پری زاد) چنگا


تخلیق کار یا تو جذباتی ہوتا ہے یا حساس۔ حساسیت اگر زندہ ہو تو اپنے گردوپیش ہونے والے سب واقعات اور حالات اندر اتارتی رہتی ہے اور درد جب چھلکنے کی حد کو پہنچتا ہے تو وہ کسی بھی صورت کا روپ دھار کر بہنا شروع کر دیتا ہے ’نظم ہو یا نثر‘ افسانہ ہو یا غزل ’کہانی ہو یا ناول‘ قلم سے جاری لفظوں کا درد ہو یا برش سے کینوس پہ پڑتے چھینٹے ’کوئی نہ کوئی اچھوتی تخلیق وجود پا ہی جاتی ہے کہ جس سے دل کے درد کو اماں ملے۔ کچھ درد ایسے سانجھے ہوتے ہیں یا معاشرے میں اس قدر عام پائے جاتے ہیں کہ تخلیق کو دیکھ کر یوں لگتا کہ جیسے اسی کے درد کو زباں دے دی گئی ہو اور یہی تخلیق کار کی اصل کامیابی ہے کہ پڑھنے یا دیکھنے والا خود کو اس کی تخلیق کے کسی نہ کسی پہلو سے جوڑ لے۔

روزمرہ کے ساس بہووں پہ مبنی ڈراموں کا رجحان اس قدر چل پڑا کہ حسب روایت فوج ہی کو آ کر مداخلت کرنا پڑی اور انہوں نے بھی اپنے ’ڈرامے‘ میں یہ پیغام دیا کہ ساس بہو کے ڈراموں سے بہتر ہے کوئی معلوماتی پروگرام دیکھ لیا جائے۔

میرے پاس تم ہو کے دانش کے تھپڑ کی گونج ابھی باقی تھی کہ پری زاد کا جادو چل نکلا۔ یہ سحر بہت ہی مسحورکن ثابت ہوا کہ کہ خود کو پری زاد کے روپ میں دیکھنے کا شوق بہت سوں کو چرانے لگا۔ آخری خبریں آنے تک ایک صاحب نے تو اپنے آپ کو باقاعدہ اس کردار میں ڈھال لیا ہے اور اسی کی طرح ڈائری پکڑے ’کندھے ڈھلکائے‘ دنیا سے اکتائے ہوئے نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور کچھ تو اس پہ بھی کف افسوس مل رہے ہوں گے کہ ’گوانڈیاں‘ دا منڈا بازی لے گیا۔

کہانی کار بھی ملک ریاض کی طرح اس معاشرے کی دکھتی رگ خوب جانتا ہے ’اپنے پراجیکٹ کی کامیابی کے لئے اس نے بھی معاشرے کے ہر طبقۂ فکر کے لئے اس کی دلچسپی کا ساماں مہیا کیے رکھا۔ جس سے نہ صرف یہ ڈرامہ یکساں مقبول رہا بلکہ ہر کسی کو اپنی کوئی نہ کوئی شبیہ اور اپنا تصوراتی ہیرو تلاش کرنے میں بڑی مدد ملی۔ تصوراتی ہیرو ہو اور دل کے پھپھولے نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔ جو مطلوبہ انجام پا گیا وہ ہیرو اور جو کسی موڑ پہ رہ گیا اسے بھی ناکامی کا سہرا سجانے کو کچھ نہ کچھ مل ہی گیا۔

دو وقت کی روٹی پوری کرنے جیسی مشکل ’خاندانی سیاست کا ذکر‘ ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش ’دنیاوی رنگ و بو کی بات‘ کم وقت میں امیر ہونے کی جستجو ’تیسری جنس کی مشکلات کا بیاں‘ ہماری اشرافیہ کا کھوکھلا پن ’اپنی مجبوریاں بیچنے کی کسک یا قدرت کے چھپر پھاڑ کر دینے جیسے محاورے کا استعمال‘ ان سب نے کہانی کو کسی نہ کسی کی کہانی بنا دیا۔

کہانی کے جاندار مکالمے تو بہت ہی مقبول ہوئے اور مختلف سوشل میڈیا پہ اکثر دیکھے جاتے ہیں۔ غربت سے امارت کے سفر پہ ہیرو کا کردار عین ویسا ہی دکھایا گیا جیسا کہ صحیح فلاحی معاشرے میں ہونا چاہیے اور جس کا پرچار ہمارے اسلاف کرتے آئے کہ اگر اللہ کریم رزق کشادہ کر دے تو دیواریں اونچی کرنے کی بجائے دستر خواں وسیع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

کہانی کو روایتی انداز سے ہٹ کر پیش کرنا ہی اسے باقی ڈراموں سے ممتاز کرتا ہے۔ لگی بندھی کہانی کی روانی کی بجائے کرداروں کے اتار چڑھاؤ نے بھی ڈرامے کا اشتیاق کم نہیں ہونے دیا۔ جو کردار ایک دفعہ سکرین پہ ظاہر ہو گیا اس کے ساتھ انصاف کے سارے تقاضے کچھ یوں پورے کیے گئے کہ بشیر میمن کا کہا ہوا جملہ نہایت موزوں لگا کہ کرداروں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ”انہیں گھر تک چھوڑ کے آئے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments