ایک عمر رسیدہ ہندو خاتون: جس کے دل میں اب تک ماڈل ٹاؤن بستا ہے


1996 میں مجھے دہلی جانے کا موقع ملا۔ اس دورے میں ایک عمر رسیدہ ہندو خاتون سے ملنے کا اتفاق ہو جس کا جم پل لاہور کا تھا۔ وہ ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ ان کی رہائش ماڈل ٹاؤن میں تھی۔ تقسیم ہند کے نتیجہ میں بے سرو سامان ایک مسلمان خاتون کی مہربانی سے اپنے خاندان کی جان بچا کر ہندوستان جانے میں کامیاب ہوئی۔ اس سے ملاقات کی روداد پیش خدمت ہے۔

شام چار بجے کے قریب میں ان کے بھیجے ہوئے آدمی کے ساتھ ان کے گھر چلا گیا۔ وہ ایک بہت ہی بڑا گھر تھا جیسے ہر امیر آدمی کا ہوتا ہے۔ ذہن میں کئی خدشات لیے میں ان کے گھرمیں داخل ہو گیا۔ اس دوران میں ان کا بیٹا جس کا نام موہن تھا جو کوئی بیس سال کی عمر کا ایک نوجوان تھا، بھی آ گیا اور اس نے مجھے خوش آمدید کہا۔ موہن بھی ایک دلچسپ لڑکا تھا، اس سے پہلے کہ ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں کرتے وہ مجھے اپنا گھر دکھانے کے لیے لے گیا۔ اس نے مجھے بہت سارے کمرے دکھائے، تب اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ موہن کی ایک دلچسپ بات، جو آپ کو بھی دلچسپ لگے گی، اس سے پہلے اور اس کے بعد کہیں نہیں دیکھی۔

موہن نے مجھے بتایا کہ اسے ٹھنڈ بہت پسند ہے جبکہ دلی میں گرمی ہوتی ہے۔ اس لیے اس نے اپنے بیڈ روم میں دو اے سی لگائے ہوئے ہیں۔ جب میں اس کمرہ میں گیا تو مجھے یوں لگا جیسے میں کسی برفانی علاقہ میں آ گیا ہوں۔ موہن نے بتایا کہ یہ دونوں اے سی پوری گرمیاں بند نہیں ہوتے اور سارا دن چلتے رہتے ہیں۔ جب میں رات کو اس کمرے میں آتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں کسی برفانی علاقے میں آ گیا ہوں۔ یہ میرا ایک انوکھا شوق ہے اور ڈیڈ کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہے۔ وہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ یہ فضول خرچی ہے۔ میں ان کا اکلوتا بیٹا ہوں اس لیے وہ مجھے منع نہیں کرتے۔

گھر کی سیر کے بعد ہم نیچے فیملی روم میں آ گئے جہاں ان کی فیملی کی بے شمار تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ ابھی تک میری حیرانی دور نہیں ہوئی تھی اور مجھے سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی کہ میرے ساتھ یہ خصوصی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟

اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک خاتون، جن کی عمر ستر اسی سال کے قریب ہوگی لیکن وہ بہت صحتمند تھیں، انھوں نے بڑی اچھی ڈریسنگ کی ہوئی تھی وہ اپنی وہیل چیئر پر کمرے میں آ گئیں۔ ان کے احترام میں ہم سب لوگ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ سب نے انھیں سلام کیا میں نے بھی سلام کیا اور پھر ہم سب دوبارہ بیٹھ گئے۔ بیٹھنے کے بعد کچھ دیر خاموشی رہی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب آگے کیا ہو گا؟ کچھ وقت گزرا تو میں نے محسوس کیا کہ بوڑھی اماں کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور وہ ان کو اپنے پلو سے پوچھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

میری حیرانی مزید بڑھ گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کچھ دیر بعد انھوں نے ایک گہری سانس لی اور مجھے کہنے لگیں کہ آج مجھے پچاس سال پرانی بات یاد آ رہی ہے۔ اسی لیے جب مجھے پتا چلا کہ کوئی لاہور سے آ رہا ہے تو میں نے مکیش سے کہا کہ اسے گھر لے کر آنا۔ آپ نے ہماری دعوت قبول کی، میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے جو بات شروع کی وہ اب تک جاری ہے اور مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے کان ابھی بھی ان کے کہے ہوئے الفاظ سن رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ میرے میاں ڈنڈوت سیمنٹ پلانٹ میں مینجر تھے جو انگریزوں کی ملکیت تھا۔ ہم ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہائش پذیر تھے، گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمارا دفتر شملہ منتقل ہو جاتا اور ہم چار ماہ شملہ میں رہتے تھے۔ ہم صدیوں سے لاہور کے رہنے والے تھے۔ پہلے ہم اندرون لاہور رہتے تھے لیکن جب ماڈل ٹاؤن آباد ہوا تو ہم ان لوگوں میں سے تھے جو سب سے پہلے آ کر ماڈل ٹاؤن میں آباد ہوئے تھے۔ ہمارا تعلق کشمیر سے تھا ہم کشمیری برہمن نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

میری اور میرے میاں کی تعلیم و تربیت لاہور میں ہوئی۔ شادی کے بعد میں اپنے میاں کے ساتھ ماڈل ٹاؤن آ گئی۔ ہمارا بڑا سا گھر تھا۔ ہمارے گھر کی کوئی چاردیواری نہیں تھی اور ہر طرف درخت ہی درخت تھے۔ ہم ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ یہ کہتے وہ رک گئیں اور پھر تھوڑی دیر بعد بولیں کہ راکیش نے پہلا قدم ماڈل ٹاؤن میں ہی اٹھایا تھا۔ اس کے چلنے کی خوشی میں ہم نے ایک دعوت کا اہتمام بھی کیا تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد تقسیم ہند کی بات ہونے لگی۔ ہمارا تو سب کچھ ہی لاہور تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو گا؟ تقسیم ہند تک تو بات ہماری سمجھ میں آتی تھی لیکن اس سے آگے کیا ہو گا یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی؟

پھر ایک دن پتا چلا کہ قتل و غارت شروع ہو گئی ہے، ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کو ہندوستان میں قتل کیا جا رہا ہے۔ جب ان کی لاشیں لاہور سٹیشن پر آئیں تو یہاں بھی لوگوں کو غصہ آیا اور انھوں نے یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ لوگ جان بچا کر بھاگ رہے ہیں۔ انھی دنوں مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے پرانے محلے ( اندرون شہر ) میں جہاں ہندو اکثریت میں رہتے تھے کا پانی بند کر دیا گیا ہے۔ ہندو اکثریت کے علاقے کرشن نگر میں بھی قتل و غارت شروع ہو گئی ہے۔ یہ بات بڑھتی چلی گئی ہے۔ چند دن پہلے ہم راکیش کے پہلا قدم اٹھانے کی خوشی منا رہے تھے اور اب یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ راکیش کو بچائیں گے کیسے؟

ارد گرد کے حالات کو دیکھ کر صاف نظر آ رہا تھا کہ لاہور میں رہنے والے تمام ہندوؤں اور سکھوں کو اس علاقے میں جانا ہو گا جو تقسیم ہند کے بعد بھارت کا حصہ بن گیا ہے۔ پھر ایک دن پتا چلا کہ ایک گاڑی ہندوؤں اور سکھوں کو لے کر بھارت جائے گی لیکن سٹیشن تک کیسے جایا جائے گا؟ یہ بہت بڑا سوال تھا۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ مشتاق بیٹا میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کتنا خوف تھا؟ کئی دن تک ہمارے گھر میں میں کوئی کھانا نہیں بنا، بس ہر وقت ایک دھڑکا سا لگا رہتا تھا۔ خبریں سنتے تھے تو خوف میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔

ماڈل ٹاؤن میں ہمارے ساتھ والے بلاک میں ایک خاتون رہتی تھیں، جنھیں ہم مسز خان کہتے تھے۔ وہ ایک امیر عورت تھی ان کے گھر میں کئی گاڑیاں بھی تھیں اور وہ کافی اثر و رسوخ والے لوگ تھے۔ ہمارا ان کی طرف آنا جانا بھی تھا۔ اس خوف کے عالم میں جب کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی، ایک دن اوپر والے نے کرم کیا اور مسز خاں ہمارے گھر آئیں اور انھوں نے ہمیں حوصلہ دیا۔ لیکن صرف حوصلہ سے تو مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ بہر حال ایک امید ضرور پیدا ہو گئی۔

مسز خان نے ہمیں کہہ رکھا تھا کہ آپ ہر وقت تیار رہیں، میں کسی بھی وقت آپ کو لے کر ریلوے سٹیشن چھوڑنے کے لیے آ سکتی ہوں۔ ہم نے کیا تیار ہونا تھا۔ کچھ قیمتی سامان ہم نے ایک بیگ میں رکھ لیا۔ ایک ہی بیٹا تھا، وہی ہماری سب سے بڑی متاع تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی ہر وقت ایک کونے میں بیٹھے رہتے اور مسز خان کا انتظار کرتے۔ ہمیں ہر آہٹ پر ان کی آمد کا گماں گزرتا۔ آخر وہ وقت بھی آ گیا، جب ہمیں کسی نے بہت آہستہ سے آواز دی، رات کا پچھلا پہر تھا۔

ہم اپنے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے گھر پر آخری نظر ڈالی اور باہر تاریکی میں کھڑی کار میں آ کر بیٹھ گئے۔ مسز خان ہم تینوں کو رات کی تاریکی میں ماڈل ٹاؤن سے سٹیشن تک لے آئیں۔ مسز خان نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ صبح سے اب تک دس خاندانوں کو ماڈل ٹاؤن سے سٹیشن پہنچا چکی ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد ہم رات کے اندھیرے میں ایک ٹرین میں بیٹھ کر بھارت کی طرف روانہ ہو گئے۔

اور میں رات کی تاریکی کی وجہ سے لاہور کو آخری مرتبہ جی بھر کے دیکھ بھی نہ سکی۔ بھارت آنے کے بعد باوجود شدید خواہش کے کبھی لاہور جانا نہیں ہوا۔

جب ہماری گاڑی چلی تو اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی ہندوستان کی طرف سے آ کر رکی ہے۔ اس میں بے شمار لوگ زخمی حالت میں تھے اور لاشوں کے انبار بھی نظر آرہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں جن کو ہندوؤں اور سکھوں نے بھارت میں قتل اور زخمی کیا تھا۔ جو لوگ بھارت جا رہے تھے وہ بھی زخمی اور جو آرہے تھے وہ بھی بد حال۔ ہم انتہائی کسمپرسی کی حالت بھارت میں آ گئے۔ ہم یہاں کئی سال عارضی رہائش گاہوں میں رہے۔ وہ زندگی کے اتنے مشکل دن تھے کہ ہم زندگی میں اٹھائی ہوئی ہر آسائش بھول گئے۔

بھارت آنے کے بعد ہمارا مسز خان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ آج آپ آئے تو مجھے مسز خان بھی یاد آئیں اور ہمارے وہ ہمسائے بھی یاد آئے جو سٹیشن تک آتے ہوئے قتل کر دیے گئے تھے۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں اپنی ماں سے ان کی ہجرت کی داستان سن رہا ہوں کہ وہ کس طرح سے ہندوستان سے پیدل قصور پہنچیں اور تیرا سال کی عمر میں کئی سو میل کا پیدل سفر اپنے خاندان کے ساتھ طے کیا۔ میری والدہ کے خاندان کے کتنے ہی لوگ قتل کیے گئے اور کتنے ہی اغوا کیے گئے۔ ان کی تعداد کتنی تھی؟ جب کوئی چیز ان گنت ہو تو اسے گنا کیسے جاسکتا ہے؟ وہ تو ان کے اپنے خونی رشتہ دار تھے جن کو گننے کا حوصلہ بھی کس میں تھا!

مجھے یہ بھی یاد آیا کہ میری والدہ اور ان کا خاندان کس طرح چھ ماہ سے زائد عرصہ تک سکھ بن کر اور اپنے گھروں میں چھپ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوا۔ ان کو بھی ایک ”مسز خاں“ نے پناہ دی تھی۔ میری والدہ کے خاندان کو بچانے والے محسن کا نام سردار دلیر سنگھ کھروڑ تھا جو میری والدہ کے گاؤں کا نمبردار تھا۔

دونوں طرف مارنے والے بھی تھے اور بچانے والے بھی۔ کوئی مسز خان تھا اور کوئی دلیر سنگھ۔
درد تو درد ہی ہوتا ہے وہ کسی کا بھی ہو، بات تو صرف محسوس کرنے کی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی اماں جی نے بہت ساری باتیں کیں۔ میں پوری توجہ سے سنتا رہا اور جب وہ تھک کر جانے لگیں تو میرا سر چوم کر کہا کہ لاہور جا کر مسز خاں کو ڈھونڈنا اور مل جائیں تو میرا سلام کہنا۔ کہنا کہ ایک خاندان آپ کے احسان کا اب تک شکر گزار ہے۔

اب مجھ میں بھی مزید باتیں سننے کی ہمت باقی نہ تھی۔ بھیگی آنکھوں کے ساتھ چائے کی آدھی پیالی چھوڑ کر میں نے رخصت چاہی۔ گفتگو کا یہ سلسلہ پچھلے پچیس سال سے چل رہا ہے۔ لگتا ہے کہ گفتگو ابھی ادھوری ہے۔ نا جانے کب بات دوبارہ شروع ہو جائے۔

میں نے ماڈل ٹاؤن میں رہنے والے اپنے ایک دوست جن کا نام یوسف خان تھا سے مسز خاں کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے بھی ان کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ایک عظیم خاتون تھیں جنھوں نے بہت سے ہندوؤں اور سکھوں کو سٹیشن پر پہنچایا تھا لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ مدت ہوئی کہ وہ اللہ کے پاس چلی گئیں۔ اللہ ان کی روح کو سکون عطا فرمائے۔ آمین۔

میں معافی چاہتا ہوں کہ یہ سفر نامہ ایک درد نامہ میں تبدیل ہو گیا۔ لیکن ایسا ہی ہوا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ اس کا ذکر ضروری تھا تاکہ راکیش اور مشتاق کو یاد رہے کہ ان کے بڑوں پر کیا بیتی۔ یہ ہم سب کی خواہش ہے آئندہ ایسا نہ ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments