ایس۔ایل۔او: ذرا سلو بھٸی سلو


ابھی ہمارےاساتذہ اور طلبہ و طالبات کورونا سے سنبھلنے نہیں پاٸے تھے کہ عالمی یوم تعلیم کے موقعے پر تبدیلی سرکار نے تعلیمی سیشن کے درمیان میں ایس۔ایل۔او کے نام سے نٸے اور پیچیدہ شکنجے میں جکڑ کر ان کی چیخیں نکلوا دیں۔تبدیلی سرکار کو معلوم نہیں کس نورتن نے یکساں تعلیمی نصاب کی الٹی پٹی پڑھا دی کہ اس نے تعلیم کے شعبے کی حالت زار پر توجہ دے کر بنیادی مساٸل حل کرنے کے بجاٸے سستی شہرت والے چورن بیچنا شروع کر دیے۔یوں تو ملک عزیز میں تعلیم کے شعبے کے ساتھ کبھی بھی مناسب سلوک روانہیں رکھا گیا مگر موجودہ حکومت میں جس طرح اس شعبے کے ساتھ پے در پے کھلواڑ کیا جارہا ہے اس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر پیشہ ور ماہرین کے بجاٸے مفاد پرست، نااہل اور امیر طبقے کے بارسوخ افراد کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔
 جس روز پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس کا نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کو ٹوپیاں اور سکارف پہنانے کو یونیفارم کا حصہ بنانے والا “ایمان افروز”بیان شاٸع ہوا، اسی دن اخبارات میں یہ ہوشربا اور تشویشناک خبر بھی چھپی کہ پنجاب کے تعلیمی ادادروں میں پینتیس ہزار سے زاٸد اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ہزاروں سکولوں کی عمارات خستہ حال اور نامکمل ہیں۔تجربہ گاہیں، کتب خانے، کھیل کے میدان، پینے کے پانی، واش رومز، فرنیچر اور ٹیچنگ و معاون عملے کا رونا دھونا ختم ہونے میں نہیں آرہا مگر حکومت نے مذہب کا تڑکا لگاتے ہوٸے ریاست مدینہ کے قیام کے لیے مختلف کلاسز کے لیے قرآن پاک کی سورتیں، ناظرہ اور تشریح و تفسیر کا اہتمام ضرور کرنا ہے۔انہیں اپنے من پسند شارحین، مفسرین اور مبلغین کے تراجم اور تفسیریں ضرور پڑھانی ہیں۔ادھر سعودی عرب سالہا سال کے تلخ تجربات کی بھٹی سے گزر کر اس نتیجے پر پہنچا کہ قرآن و حدیث کی تعلیم نوخیز ذہنوں میں دہشت گردی و انتہا پسندی پیدا کرتی ہے اس لیے وہ بنیادی اصلاحات کرتے ہوٸے جماعت ہشتم تک قرآن و حدیث پڑھانے سے اجتناب کرنے لگے ہیں جبکہ ادھر ہم جدید ریاست مدینہ کے قیام کے لیے اسے لازمی قرار دے کر انتہا پسندی کی نٸی نرسریاں لگا رہے ہیں۔ملک میں موجود لاکھوں مدرسوں میں بوٸے گٸے بیجوں ہی سے نجات نہیں ملتی جو اب تناور درخت بن چکے ہیں کہ اب تعلیمی اداروں میں بھی انتہا پسندی کو فروغ دینے کا اہتمام کیا جانے لگا ہے۔
 آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، فن لینڈ، سویڈن اور جاپان سمیت جن ملکوں کا نظام تعلیم دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں شمار ہوتا ہے وہاں بچے کو بارہ سال کی عمر تک بنیادی انسانی اخلاقیات، سماجی و معاشرتی آداب، شہری و تمدنی زندگی کے طور طریقے، مذہبی ہم آہنگی، اختلاف راٸے کا ڈھنگ، بڑوں و بزرگوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی تعلیم دی جا تی ہے۔انہیں اٹھنے، بیٹھنے، گفتگو، محفل میں بیٹھنے، راستہ چلنے اور مختلف موقعوں پر مثبت انداز میں رد عمل دینے کے طور طرہقے سکھاٸے جاتے ہیں تاکہ آگے چل کر وہ ملک کے مفید اور کار آمد شہری بن سکیں جبکہ ہم تین چار سال کے بچے کو مدرسے کے گھٹن زدہ ماحول میں ڈال کر اسے حفظ قرآن پر لگا دیتے ہیں جہاں وہ جھوم جھوم کر اور جھول جھول کر قرآن کی سورتوں کو بغیر سمجھے رٹا لگاتا رہتا ہے۔جہاں نہ صرف اس کے بنیادی انسانی حقوق پاٸے مال کیے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات اسے جنسی درندگی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔تعلیم کے حوالے سے کسی بھی شعبے کا انتخاب خود بچے کا بنیادی حق ہوتا ہے مگر چار پانچ سال کے معصوم بچے سے یہ حق چھین کر اس پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہوٸے اپنی “آخرت”بنانے کے لیے اس کی دنیا اجیرن کر دی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بے شمار طلبا تعلیم ادھوری چھوڑ کر مدرسے سے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں اور زندگی بھر ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔بہتر نہیں کہ بچے کو عالمی اخلاقیات سکھاٸی جاٸیں اور جب وہ سن شعور کو پہنچ جاٸے تو اس کی مرضی کے مطابق اسے اس کے شعبے کا انتخاب کرنے دیا جاٸے؟
کورونا کی پانچویں لہر نے غیر یقینی اور مخدوش صورت حال پیدا کردی ہے۔کورونا کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔بے شمار تعلیمی ادارے کورونا کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے بند کیے جارہے ہیں اور تبدیلی سرکار یکساں تعلیمی نصاب کے شوشے کے بعد ایس۔ایل۔او یعنی (students learning outcome ) کے نام پر نصاب کے علاوہ پیپر پیٹرن کو بھی چوں چوں کا مربا بنا کر پہلے سے پریشان اساتذہ، طلبا اور والدین کو مزید پریشان کر رہی ہے۔ستم بالاٸے ستم یہ کہ یہ ایس۔ایل۔او سیشن کے درمیان میں جاری کیا جارہا ہے جو پہلے ہی تین ماہ تاخیر سے شروع کیا گیا تھا۔خاص طور پر اردو اور انگریزی کے پرچہ جات کے پیٹرن کو اسی فیصد تک تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ نادری حکم صرف فیڈرل بورڈ تک محدود رکھا گیا ہے۔اب فیڈرل بورڈ سے منسلک طلبا کو اپنے علاوہ باقی دو صوبوں کی نصابی کتب بھی پڑھنا پڑیں گی۔اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری طرف حکومت اومی کرون کی شدید لہر کی وجہ سے اس سال پھر سے سمارٹ سلیبس کے نفاذ کے بارے سوچ رہی ہے۔
موجودہ حکومت کے ماہرین تعلیم نظام تعلیم و امتحانات کو ملک کی نظریاتی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں رجعت پسند، قدامت پرست اور خانقاہی و طالباتی سوچ کے ملغوبے پر مشتمل فکر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ہم گذشتہ پچھتر سال سے طلبا کو مذہب، نظریہٕ پاکستان اور متعصب تاریخ پڑھا کر نفرت کا زہر ان کے رگ و پے میں اتار رہے ہیں۔سرکاری مطالعہٕ پاکستان کے نام پر مغالطے اور مسخ شدہ تاریخ پڑھا کر دولے شاہ کے چوہے بنا رہے ہیں۔طلبہ و طالبات پہلے ہی دو سال تک تعلیم کے تسلسل سے کٹ کر رہے ہیں۔آن کی محویت، لگن اور ارتکاز توجہ کی صلاحیت صلاحیت بری طرح متاثر ہوٸی ہے۔اب امتحان سے قبل ان کے سروں پر ایس۔ایل۔او کی تلوار لٹکا دی گٸی ہے۔ہماری ارباب اختیار سے دردمندانہ اپیل ہے کہ موجودہ حکومت جو یو ٹرن کے لیے بدنامی کی حد تک مشہور ہے، اس معاملے میں ایک مثبت یو ٹرن لے کر لاکھوں طلبہ و طالبات کی دعائیں لینے کا موقع ضاٸع نہ کرے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments