نرگسیت کا شکار مائیں


کچھ روز قبل مجھے اپنی ایک یونیورسٹی کی دوست ملی، اس کا نام زارا تصور کر لیتے ہیں۔ یونیورسٹی کے زمانے میں وہ کچھ لئے دیے رہنے والی اور شرمیلی سی لڑکی تھی مگر اب وہ ایک انتہائی با اعتماد اور پرکشش خاتون میں ڈھل چکی تھی جس میں ایک خاص موہ لینے کی صلاحیت، گفتگو کا سلیقہ اور آپ کو خوش رکھنے کا فن جھلک رہا تھا۔ میں نے خوش ہو کر دل سے اس کی تعریف کی کہ تم تو بہت پرکشش شخصیت کی مالک بن چکی ہو تو ہنس کر کہنے لگی، ہاں اب میں اپنی والدہ کے اثر سے جو دور ہوں۔

میں گھر آ کر بھی زارا اس بات کے بارے میں سوچتی رہی۔ میں نہ صرف اس کی والدہ سے مل چکی تھی بلکہ زمانہ طالب علمی میں ہم سب لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی والدہ کے بہت زیادہ کہے میں ہے۔ ہمارے زمانے میں زیادہ تر لڑکیاں والدین کا کہا بنا سوال کے ہی مانتی تھیں مگر زارا کے چھوٹے سے چھوٹے فیصلوں میں بھی ان کی مداخلت جھلکتی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ایک ہم جماعت لڑکی سے اس کی بات چیت صرف اس لیے ختم ہو گئی تھی کیونکہ اس ہم جماعت کی والدہ زارا کی والدہ کو ایک ملاقات میں کچھ بھائی نہیں تھیں اور انہوں نے زارا کو کہا کہ تم دوستی ختم کر دو، اور زارا نے کر دی۔ اس زمانے میں کچھ ایسا لگتا نہیں تھا، کہ زارا والدہ کے اس کنٹرول سے متفق نہیں ہے یا اس کا برا مانتی ہے مگر ان دو دہائیوں کے بعد اس کا یہ جملہ ظاہر کر رہا تھا کہ والدہ کے ضرورت سے زیادہ کنٹرولنگ ہونے کی وجہ سے زارا کو اپنے آپ کو ڈھونڈنے، پانے اور دنیا کے سامنے لانے میں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بڑے درخت کے نیچے ایک چھوٹا درخت نہیں اگ پاتا، ہر درخت کو اپنے پورے جوبن پر آنے کے لئے نہ صرف اپنی جگہ چاہیے بلکہ سورج کی تپش کا وہ حصہ بھی جو اسے مضبوط بنائے۔ صرف سائے میں ایک مضبوط درخت نمو نہیں پاتا۔

ہمارے معاشرے میں boundaries یا کسی کی ذاتی حدود کا کوئی خاص تصور نہیں ہے۔ والدین کا رشتہ ایک عزت و احترام کا رشتہ ہے خصوصاً ماں ایک ایسی ہستی ہے جس سے محبت کا جذبہ قدرتی بھی ہے اور اس کی خدمت لازم بھی۔ یہ بات تو بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں نقش کر دی جاتی ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔ پھر ماں کی ممتا جیسا بے لوث جذبہ بھی کہیں نہیں ملتا۔ یہ بات درست ہے کہ ماں کے اندر بچے کی محبت ہونا ایک قدرتی امر ہے، مگر پھر یہ بات بھی سچ ہے کہ ماں باپ بھی انسان ہی ہوتے ہیں، جن کے اندر personality disorders اور ذہنی مسائل یہاں تک کہ ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں بھی پائی جا سکتی ہیں۔

کچھ دنوں بعد میری زارا سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اب کے زارا نے کھل کر مجھ سے اپنی والدہ کے بارے میں گفتگو کی۔ زارا کہنے لگی کہ اس کے نزدیک اس کی والدہ ایک پرسنالٹی ڈس آرڈر، جسے narcissistic personality disorder کہتے ہیں، اس کا شکار ہیں۔ میں نے پوچھا کیا یہ بات تمہیں کسی نفسیات دان یا معالج نے بتائی ہے؟ کہنے لگی کہ میری والدہ تو کسی نفسیات دان کو ملنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتیں مگر جب میں نے اپنی شخصیت کی کمیوں پر قابو پانے کے لئے ایک تھیراپسٹ سے مدد لی تو انہوں نے مجھے اس بات سے آگاہ کیا کہ یہ بہت ممکن ہے۔

میں نے کہا کہ میں تمہاری والدہ سے مل چکی ہوں اور وہ ویسے تو ہم سے اور تم سے بہت پیار سے پیش آتی تھیں۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ کچھ سخت طبیعت کی مالک ہیں مگر تم اپنی کمیوں کا ذمہ دار انہیں سمجھو گی، یہ کیسے ہوا۔ ویسے بھی ہر انسان کو اپنے والدین سے کچھ شکوے ضرور ہوتے ہیں، تمہیں کیونکر لگا کہ ان کی شخصیت کسی نفسیاتی گرہ کا شکار ہے؟

زارا کہنے لگی کہ بچپن سے میں کیا پہنوں، میں کیا پڑھوں، میں کیا کھاؤں، میں کب سووں جاگوں، ان تمام باتوں کے فیصلے میری والدہ کرتی تھیں، انتہائی محبت سے مگر، سب ان کی مرضی کے۔ کسی بھی اختلاف رائے کی صورت میں وہ مجھے باور کروا دیتی تھیں کہ یہ مرضی میرے نقصان کا باعث ہے اور اس سے آگے ان کی ناراضگی کا۔ اگر میں بال بڑھانا چاہتی تو وہ کہتیں کہ تمہیں چھوٹے بال ہی سجتے ہیں اس لیے انہیں بڑھانے کہ کوشش مت کرنا۔ کس کزن سے بات کرنا ہے، کیا بات کرنا ہے، یہ تک وہ مجھے کسی ملاقات سے پہلے سمجھا دیتی تھیں۔ کہنے لگی کہ ایک نرم دل انسان ہونے کے ناتے مجھے ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ میں ان سے اختلاف کروں یہاں تک کہ بڑے ہونے کے بعد بھی۔ کہنے لگی مگر میری شادی کے بعد جب میں نے علیحدہ گھر میں رہنا شروع کیا اور ان کے اور میرے مفادات علیحدہ ہوئے تو مجھے سمجھ میں آیا کہ وہ کس حد تک صرف اپنے بارے میں سوچتی ہیں اور مجھ پر مکمل کنٹرول چاہتی ہیں۔

مثلاً انہوں نے کہا کہ تم نے جو گاڑی خریدی ہے وہ تمہیں اپنے بھائی کو دے دینا چاہیے اور میرے انکار پر انہوں نے میرے ساتھ دماغی کھیل کھیلنے شروع کر دیے کہ میں وہ گاڑی ہر صورت میں اسے دے دوں۔ اس کے بعد میں ایک جسمانی بیماری کا شکار ہو گئی جس میں مجھے شدید تکلیف تھی، مگر چونکہ میں ان کو ایک انکار کر چکی تھی اس لئے انہوں نے اس تکلیف سے بھی لا تعلقی کا اظہار کیا۔ تب میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوئی اور ایک تھیراپسٹ کے پاس گئی جس کے ساتھ مل کر میں نے شروع سے آخر تک ان کے روئے پر نگاہ دوڑائی تو اس نے کہا کہ وہ بہت حد تک اس پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار لگتی ہیں۔ زارا نے مزید بتایا کہ اس کی والدہ ہمیشہ بہترین اور مہنگا ترین لباس زیب تن کرتی ہیں اور اگر کوئی اچھی اور مہنگی چیز انہیں میرے پاس بھی نظر آئے تو اس چیز کو مجھ سے لے لینا وہ اپنا حق سمجھتی ہیں۔ انہوں نے کبھی مار پیٹ سے کام نہیں لیا مگر ڈراوا اور ذہنی دباؤ اس قدر ڈالتی تھیں کہ زارا کو لگتا تھا کہ ان ان دیکھی لکیروں کے درمیان رہنا ہی بہتری ہے۔ اس کے علاوہ اس کی والدہ نے یہ بات طے کر دی تھی کہ زارا اور اس کے بہن بھائی بہت اچھی پڑھائی کریں گے اور بہترین ہونے سے کم ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ زارا کہتی ہے مگر یہ رویہ بھی پڑھائی کے بارے میں تھا، زارا کو لگا کہ وہ تقریر اچھی کر سکتی ہے تو اس کے کوشش کرنے سے بھی پہلے اس کی والدہ نے اسے ٹوک دیا کہ یہ صلاحیت تم میں ہر گز نہیں اس لئے کوشش کر کے مایوس مت ہو۔ زارا کہتی ہے کہ بہت سے لوگ ٹین ایج میں بغاوت کر دیتے ہیں اور اپنے والدین کو بتا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کوشش اور اپنی مایوسی سے سیکھنا چاہتے ہیں مگر زارا اس مقام پر بھی نرم طبیعت کی وجہ سے اپنی والدہ کے آگے بول نہ سکی۔

وہ بچپن میں اپنی والدہ کی لاپرواہی کی وجہ سے ایک حادثے کا شکار ہوئی مگر والدہ نے ہمیشہ کہا کہ وہ حادثہ کچھ ایسا بڑا نہیں کہ اس کے بارے میں سوچا جائے۔ زارا نے کہا کہ ان سب چیزوں کے باوجود اس نے اپنی والدہ کو کبھی خوش نہیں دیکھا اور وہ کہتی ہیں کہ وہی حالات کا شکار اور مظلوم ہیں۔ زارا کہتی ہے کہ جب بڑے ہو جانے، ماں بن جانے اور اپنے شوہر اور گھر بار کے ساتھ اپنی بہت اچھے رتبے کی نوکری تک ساتھ میں چلانے کے باوجود میری والدہ نے مجھ پر کنٹرول نہیں چھوڑا تو میری برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس نے سمجھا کہ اس کی والدہ اس کی زندگی کا کنٹرول اور اس کی باگیں اپنے ہاتھ سے تب تک نہیں چھوڑیں گی جب تک کہ وہ ان کے ساتھ اپنی boundaries مقرر نہیں کرتی۔

میں نے پوچھا کہ کیا تمہارے دیگر بہن بھائیوں اور والد نے بھی والدہ کے اس حد سے بڑھے کنٹرول اور اجارہ داری کے رویے کو محسوس کیا ہے اور ان کا ردعمل کیا ہے؟

زارا نے کہا کہ والد صاحب کے بارے میں تو میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتی مگر میرا اکلوتا بھائی عمر کے ساتھ ساتھ ہو بہو والدہ کا نقش بنتا جا رہا ہے۔ والدہ چونکہ اس کے ساتھ رہتی ہیں اس لئے شاید اپنی حدود مقرر کرنے کے لئے یا شاید ردعمل کے طور پر اس میں انا اور غرور بے حد زیادہ ہے۔ میری دوسری بہن تو والدہ سے کنارہ کش ہو چکی ہے اور وہ ان سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی۔

زارا نے کہا کہ وہ بے ادب نہیں ہے، وہ اپنی والدہ سے محبت بھی کرتی ہے، ان کی پروا بھی کرتی ہے مگر اب اس نے سیکھ لیا ہے کہ اپنی حدود مقرر کرنا اور اپنی والدہ تک سے ان حدود کا احترام کروانا اس کے لئے بہت ضروری ہے۔

میں نے پوچھا کہ کیا اس بات پر تمہاری والدہ خفا نہیں۔ اس نے کہا کہ بالکل، انہیں جب بھی ادراک ہوتا ہے کہ میں اپنی مرضی پر چلنا چاہتی ہوں تو وہ پیار سے، غصے سے، تحائف یا پیسہ دے کر، ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ وہ میری ذاتی زندگی کا کنٹرول دوبارہ پا لیں اور جب تک کہ میں ان کے قابو میں نہ آ جاؤں۔ وہ ہر حربہ آزماتی ہیں مگر میں سمجھ چکی ہوں کہ جب تک میری والدہ کی بنیادی صحت کو کوئی خطرہ نہ ہو، اپنی مرضی کو ان کے تابع کر دینا میرا فرض نہیں خصوصاً میں اب جس عمر میں پینچ چکی ہوں اور خود بھی ایک ماں بن چکی ہوں۔ زارا کہنے لگی کہ اب اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ اپنے بچوں کی boundaries کا احترام کرے، انہیں راستہ اور درست اور غلط کا فرق ضرور سمجھائے، ہر مصیبت میں ان کے پیچھے کھڑی ہو، مگر ساتھ میں اپنے بچوں کو خود زندگی کو سمجھ کر فیصلے کرنے دے اور اس بات کے لئے تیار رہے کہ ہر انسان اپنے غلط فیصلوں سے سیکھنے اور اپنی شخصیت اور اس کے مثبت اور منفی پہلو خود کھوجنے کا حق رکھتا ہے۔ بچے آپ کی اولاد ہیں مگر آپ کی ملکیت یا شے نہیں جسے آپ ریموٹ سے چلنے والے کھلونے کی طرح استعمال کریں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments