صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام


کچھ دنوں سے پاکستان میں صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام کی بحث جاری ہے اور یہ خاص قسم کا شوشہ چھوڑا گیا ہے اس سے پہلے بھی یہ بحث ہوئی تھی مگر وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں لیکن اب پھر یہ بحث شروع ہوچکی ہے اب ہم پاکستان کی تاریخ میں اس صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام پر نظر ڈالتے ہیں کہ آیا پاکستان میں کونسا نظام بہتر ہے تو سب سے پہلے صدارتی نظام پر بات کرتے ہیں اس نظام سے پاکستان کو کیا نقصانات اور فائدے ہوئے.
پاکستان میں جب بھی صدارتی نظام رہا اس سے پاکستان کو زیادہ نقصان  اور فائدہ ہوا اول تو ایوب خان کے دور حکومت کی بات کرے اس میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ لڑی گئی جس سے پاکستان کی معیشت بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور یہ بات واضح ہے کہ جنگ سے کوئی بھی ملک امن اور خوشحال نہیں رہ سکتا کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا اعلاج ہی نہیں ہے پھر اس کے بعد 1971 میں دوسری جنگ لڑی گئی اور یوں پاکستان ٹوٹ گیا اور بنگلادیش بن گیا پھر 1999 میں اسی طرح بھارت کے ساتھ پھر بلا اشتعال انگیزی ہوئی. یہ رہی پاکستان میں صدارتی نظام کی خامیاں اور فائدہ یہ ہوا کہ اس ایوب خان کے دور میں سند طاس معاہدہ جیسا بڑا معاہدہ ہوا جس سے پاکستان کو اپنی پانی اور دریاؤں کا حق حاصل ہو گیا اور اس دور حکومت میں 1965 کی جنگ سے پہلے معاشی حالت بھی ملک کے اچھے تھے کیونکہ آپ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ وہی پاکستان تھا جس نے جرمنی جیسے ملک کو 1962 میں قرض دیا تھا لیکن آج ےو بدقسمتی سے پاکستان دیوالیہ پن کا شکار ہو رہا ہے.
پھر ضیاء الحق کا دور جس میں لسانی فسادات ہوئے اور ملک مستحکم نہیں رہا اور پھر مشرف کے دور حکومت میں افغانستان کے جنگ نے ہمیں اور کمزور کردیا گیا. لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھے آپ دنیا کی کسی بھی ملک کی تاریخ دیکھ لے تو سب سے جنگیں صدارتی نظام میں ہی لڑی گئی آپ خود نظر دوڑالیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا اور یہ بھی نوٹ کرلیں کہ جس ملک میں جنگ ہورہی ہیں تو اس ملک کی کرنسی کمزور نہیں ہوگی اور اگر کرنسی تگڑی بھی نہیں ہو رہی ہیں تو مستحکم ضرور ہوگی جیسا کہ افغانستان کی کرنسی ہماری کرنسی سے تگڑی ہے. کیونکہ جمہوری حکومت میں ملک کبھی جنگ کر ہی نہیں سکتا.
ہر ملک کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے جس پر وہ اپنا ملک چلارہے ہوتے ہیں اب اگر پاکستان میں پارلیمانی نظام کی بات کی جائے تو پاکستان میں ایک وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور اٹھارویں ترمیم کے بعد بہت سی اختیارات صوبوں کو چلیں گے جس سے وفاق پر بوجھ کم ہوگیا. اس کے بعد پاکستان میں موجود پارلیمانی نظام جیسا بھی ہو لیکن اس نظام ہی سے یہ ملک چلے گا . کبھی ہم نے آئین پر عملدرآمد کیا ہے کہ نہیں ایک دفعہ اس آئین پر ملک چلا لو تو پھر پتہ چل جائے گا کہ پاکستان میں موجود پارلیمانی نظام ہی چل سکتا ہے یا صدارتی نظام.  البتہ پارلیمانی نظام میں تبدیلیاں ضروری ہے جیسا انتخابی اصلاحات کے حوالے سے,  عدلیہ کے اختیارات اور اصلاحات کے حوالے سے ضروری ہے.  اور اگر  ایک لیڈر ڈلیور ہی نہیں کر سکتا تو اس میں نظام کا ہی کیا قصور اس سے پہلے بھی بہت سے لیڈر آئے اور چلے گئے اور سب نے اپنی اپنی کارکردگی دکھائی.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments