صدارتی نظام کا چورن یا عمران خان کی پریشانی


وزیر اعظم عمران خان نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ گورنمنٹ سے باہر نکلے تو آپ کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ ابھی تک تو آفس بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں، اگر وہ سڑکوں پر نکل آئے تو آپ کو چھینے کی جگہ نہیں ملے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ بات سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے وطن واپسی کے متعلق کہی، عمران خان سمجھ چکے ہیں کہ نواز شریف آنے والا ہے۔ اور اس کی حکومت تھوڑی وقت کی مہمان ہے، وزیر اعظم کا لب و لہجہ اور چہرے کی پریشانیاں بتا رہی ہیں کہ تبدیلی تو نہیں آئی مگر ان کی چھٹی ہونے والی ہے۔ وزیراعظم نے یہ دھمکی اپوزیشن والوں کو جہاں تک دی ہے اصل میں اسٹیبلشمنٹ کو دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آپ جو ان کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں وہ سب چیزوں سے باخبر ہیں۔ مجبوری اس وقت یہ ہے کہ وہ حکومت میں بیٹھے ہیں باہر نکلیں تو بہت کچھ کریں گے۔ لیکن عمران خان یہ نہیں سمجھ رہے ہیں ملک میں اصل مالک وہ ہیں جو اسے لائے تھے اور اب آسانی کے ساتھ اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے رخصت کر رہے ہیں وہ ڈھول باجوں کے ساتھ۔ عمران خان جب اقتدار میں ہیں ملک کے وزیر اعظم ہیں کچھ نہی کر سکتے ہیں تو اپوزیشن میں آ کر کیا کریں گے۔ آج کے وزیر اعظم عمران خان نے لب و لہجے اور گھبراہٹ سے لگ رہا ہے کہ تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ اب لینے کے بجائے دینی پڑ گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کسی بھی وزیر اعظم نے اپنی 5 سالہ مدت پوری نہیں کی ہے تو موجودہ وزیراعظم پانچ سال پورا کریں گے۔ اس وقت نہ تو ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا ہیں اور نہ ہی جنرل فیض حمید ہیں۔ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف بھی نیوٹرل نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم نے کچھ روز قبل کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کو توسیع دینے کے متعلق بات کی تھی۔ وفاقی وزیر محمد میاں سومرو کی کی جانب سے نجکاری کمیشن کے چیئرمین شپ عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اب باتیں ہو رہی ہیں صدارتی نظام کی۔ ریاست مدینہ کے راگ آلاپنے کے ساتھ اسلامی صدارتی نظام کا چورن بیچنے کی جو کوشش کی گئی اس کو کہی سے بھی اہمیت نہی دی گئی بلکہ مذاق بنایا جا رہا ہے! ۔ وزیراعظم عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف نے میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی ہے کہ ملک میں بہتری کے لئے صدارتی نظام ہی واحد حل ہے۔

تازہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں بلدیاتی انتخابات کے دوران حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جو عوام نے دھلائی کی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی نے پی ٹی آئی کو شکست دے دی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت نے عمران خان کے گھر میں گھس کر جو پٹائی کی ہے وہ کسی سے چھپی نہیں ہے۔ مولانا فضل پشاور کے میئر سمیت 17 اضلاع میں اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں ہیں۔ جس میں پشاور کی تحصیل متھرا سے جے یو آئی کے فریداللہ خان کامیاب ہو گئے، پشاور کی تحصیل شاہ عالم سے جے یو آئی کے کلیم اللہ، چارسدہ سے جے یو آئی کے مولانا عبدالروف شاکر، چارسدہ کی تحصیل شب قدر سے جے یو آئی کے حمزہ آصف خان، مردان کی تحصیل کاٹلنگ سے مفتی حماد اللہ یوسفزئی مردان کی تحصیل تخت بھائی سے حافظ محمد سعید، مردان کی تحصیل رستم سے جے یو آئی کے مولانا مبارک شاہ، بنوں سٹی سے عرفان اللہ درانی، بنوں تحصیل وزیر سے ملک مستو خان کامیاب ہوئے۔ ٹانک سے جے یو آئی کے صدام حسین بٹینی، ہنگو تحصیل ٹل سے جے یو آئی کامیاب ہوئی ہے۔ کوہاٹ سٹی سے قاری شیر زمان، مہمند ایجنسی کی تحصیل خوئزی بائزی سے مفتی بسم اللہ جان، پشاور سے حاجی زبیر علی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ وہ نتائج تھے جس کے بعد کے پی کے صوبے میں عمران خان کی جماعت کے لوگ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی میں دھڑا دھڑ شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو کے پی میں عمران خان سے نفرت کی بنیاد پر ان کی شکست ہوئی ہے۔ مہنگائی بھوک بدحالی بیروزگاری سے عوام نے بلے کو رد کر دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان یا اپوزیشن جماعتیں تو دور کی بات اس وقت دیکھا جائے تو عوام موجودہ حکومت سے اتنا تنگ آ چکی ہے جو پی ٹی آئی یا عمران خان کا نام لیتے ہوئے بھی گالی سمجھتے ہیں۔ عمران خان کا وقت تو ویسے ہی پورا ہو چکا ہے اسٹیبلشمنٹ نے بھی سر پر رکھا ہوا شفقت کا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ وزیر اعظم اب حکومت میں رہ کر کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو اپوزیشن میں آ کر کیا کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر کھانے کی قوت نہیں ہے۔ عمران خان اگر راستوں پر نکل آئے تو مہنگائی کی پسی ہوئی عوام اس کا وہ حشر کرے گی کہ کہیں چھپنے کی جگہ نہی ملے گی۔ ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔ عوام کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ لوگ ایک وقت کھانے کے لئے پریشان ہیں۔ تبدیلی کے نعرے لگائے گئے کہ ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر دیں گے ہوا یہ کہ لاکھوں لوگوں کے بے گھر اور بے روزگار کر دیا گیا۔

عمران خان کے اپنے پارٹی کے لوگ بھی اسے چھوڑ رہے ہیں۔ اتحادی جماعتیں بھی ایک اشارہ پر دھڑام کے ساتھ نکل جائیں گی۔ عمران خان جیسے ہی حکومت سے باہر نکلیں گے، روڈ راستے تو دور کی بات ہے وہ فارن فنڈنگ کیس سمیت آٹے، چینی، یوریا کھاد، دیگر اسکینڈلز میں ملوث ہوتے ہوئے کیسز میں پھنس جائیں گے اور باہر جانے کے لئے این آر او مانگیں گے جو شاید مشکل سے ملے۔ عمران خان نے جس طرح کی گیدڑ بھبکیاں دی ہیں آگے چل کر یہی اس کے گلے میں پڑ جائیں گی اور مشکل سے باہر نکلنے کا راستہ بھی نہیں ہو گا۔

عمران خان کو جیسے ہی اقتدار ملا یہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگے، احتساب کے نام پر انتقام شروع کر دیا، انتقام بھی اس طرح کا تھا کہ جتنے بھی مخالفین ہیں ان کے خلاف نیب، ایف آئی اے میں مقدمات بناؤ اور جیل میں بند کردو، عمران خان نے پہلے امن امان کی بحالی اور معیشت پر توجہ نہی دی بلکہ سی پیک کے منصوبے بند کر دیے۔ پاکستان کے سابق حکمرانوں کے خلاف چور چور کا شور مچایا اور دنیا میں مذاق بنایا۔ ہوا کیا! کچھ بھی نہیں۔ نیب نے اس طرح کام کیا نہ سانپ مرا نہ لاٹھی بچی، بدنام بھی ایسا ہوا جس کا نام بھی نہیں ہوا، سابق دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو رگڑا دیا، مولانا فضل الرحمان میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے اسے ایسے نچوڑا کے کہیں کا نہ چھوڑا۔ 20 سے بڑے شہروں میں لانگ مارچ کیے اور کراچی سے لے کر اسلام آباد تک آزادی مارچ کیا اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد آزادی مارچ کے وقت ہی عمران خان کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی تھی، رہی سہی کسر کے پی کے بلدیاتی الیکشن میں پوری کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی 27 فروری سے کراچی سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ نون لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف بھی فروری میں واپس پاکستان آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے رابطہ شروع کر دیا ہے اور ان ہاؤس تبدیلی کی راضی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف ان ہاؤس تبدیلی کے بجائے نئے الیکشن کرانا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی آنے والا ہے۔ عمران خان جتنا اقتدار میں چھپے رہیں گے اتنا ہی ناکام ہوں گے، اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے گروی رکھ دیا ہے۔ ملک کو قرضے لے کر مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے۔ منی بجٹ کے بعد مزید مہنگائی ہوئی ہے۔ بجلی گیس، پیٹرول کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ملک اب مزید صدارتی نظام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا جائے تاکہ ملک کسی بڑی مشکلات سے بچ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments