تحریک طالبان پاکستان: کیا پاکستانی شہروں میں شدت پسندی کے تازہ واقعات دہشتگردی کی نئی لہر کا آغاز ہیں؟

زبیر اعظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


انار کلی
گذشتہ ہفتے صوبائی دارالحکومت لاہور کے مصروف ترین انارکلی بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے تھے
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 17 جنوری کی رات کراچی کمپنی کے قریب گشت کرنے والے چار پولیس اہلکاروں پر موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے فائرنگ کی۔ اس واردات میں زخمی ہونے والے ہیڈ کانسٹیبل محمد منور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے جن کی نماز جنازہ پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے ناصرف یہ اعلان کیا کہ یہ واقعہ دہشت گردوں کی کارروائی تھی بلکہ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس پر حملہ اشارہ ہے کہ اسلام آباد میں دہشت گردی شروع ہو گئی ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی جس میں دو دہشت گرد بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ ٹی ٹی پی کے مطابق اسی رات دیر اور شمالی وزیرستان میں ہونے والی کارروائیوں میں بھی دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔

اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعے کے تین ہی روز بعد صوبائی دارالحکومت لاہور کے مصروف ترین انارکلی بازار میں بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے۔

ان واقعات کے بعد 21 جنوری کو وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹریوں اور پولیس سربراہان کے نام ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں سکیورٹی انتظامات بہتر کرنے کی تاکید کی گئی۔

اس مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ لاہور میں انارکلی بازار میں ہونے والے دہشت گرد حملے اور ریاست مخالف گروہوں کی جانب سے خطرے کے تناظر میں تمام صوبوں اور علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ چوکنا رہیں تاکہ کسی بھی ناخواشگوار واقعے سے نمٹا جا سکے۔

سنہ 2022 کے پہلے ماہ یعنی جنوری کے دوران پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے قبل ایسے واقعات کا سلسلہ زیادہ تر خیبر پختونخوا کے جنوبی اور قبائلی اضلاع تک ہی محدود تھا۔ ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ ان واقعات میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے جس کے دوران ملک کے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان سوالات کا جواب جاننے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی صورتحال میں بتدریج کیسے تبدیلی آئی ہے۔

فائل فوٹو

فائل فوٹو

پاکستان میں امن کی واپسی

پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں 2017 کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کا اندازہ اعداد و شمار کی مدد سے لگایا جائے تو ساؤتھ ایشیا ٹیریرزم پورٹل کے مطابق سنہ 2013 میں پاکستان میں دہشت گردی کے تقریبا چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020 میں کم ہو کر 319 رہ چکے تھے۔

ان میں سے بھی کئی واقعات ایسے تھے جن میں کالعدم تحریک طالبان، القاعدہ جیسے شدت پسند گروہو کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ ملک میں موجود دہشت گردوں کی کارروائیوں کا دائرہ کار انتہائی محدود ہو چکا ہے اور دہشت گرد گروہ ملک بدر کر دیے گئے ہیں۔

اس دورانیے میں ایسی رپورٹس بھی موصول ہوییں کہ کالعدم تحریک طالبان کے زیادہ تر اراکین افغانستان فرار ہو چکے تھے اور کئی جیلوں میں قید ہیں۔

اگلے تین سالوں میں پاکستان میں امن کی واپسی ہوئی جسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ اس کا ایک اظہار پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی شکل میں بھی ہوا۔

افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے نتائج

گذشتہ برس اگست میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور اس کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی ایک ایسا واقعہ تھا جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔

سکیورٹی صورتحال کے تناظر میں اس تبدیلی کا تعلق ایسے گروہوں سے تھا جن کے بارے میں پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ گروپ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

حکومت اور پاکستان فوج کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ان گروہوں کی پشت پناہی بھی کی جا رہی ہے جس کے لیے کبھی براہ راست تو کبھی بلاواسطہ انڈیا کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان میں دو مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔

کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ طالبان کی حکومت کی مدد سے پاکستان می دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی جب کہ چند ماہرین کا ماننا تھا کہ پاکستان مخالف گروہوں، جن میں کالعدم تحریک طالبان سرفہرست ہے، کو مزید تقویت ملے گی۔

ایسے میں افغانستان کی جیلوں میں قید تحریک طالبان پاکستان کے اراکین کی رہائی کی خبریں اور مناظر سامنے آئے جن کے بعد گذشتہ سال ہی پاکستان کے شمالی مغربی سرحدی علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

فائل فوٹو

افغانستان نے طالبان میں اقتدار میں آنے کے بعد جیلوں سے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا گیا تھا جن میں ٹی ٹی پی کے کمانڈرز بشمول خالد بلتی (تصویر میں نہیں ہیں) بھی شامل تھے

2021 میں دہشت گردی میں اضافہ

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 میں پاکستان میں 207 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 335 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ 555 افراد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے افراد میں سے 177 سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے جب کہ 126 عام شہری اور 32 دہشت گرد تھے۔

ڈیٹا کے مطابق دہشت گرد حملوں میں سنہ 2020 کے مقابلے میں تقریباً 42 فیصد اضافہ ہوا۔

ان حملوں میں سے 128 کارروائیوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، مقامی طالبان گروپس اور داعش ملوث تھے۔ 2020 میں ان گروپس نے مجموعی طور پر 95 حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فور پیس سٹڈیز

یعنی واضح طور پر پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا جس پر وفاقی حکومت اور وزیر اعظم کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

ایسے میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایک بین الاقوامی ادارے کو انٹرویو کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد طالبان کی جانب سے بھی تصدیق کی گئی اور جنگ بندی کا اعلانات بھی سامنے آیا۔ لیکن یہ مذاکرات جلد ہی ناکام ہو گئے تھے، جس کے بعد طالبان کی جانب سے گذشتہ سال نو دسمبر کو جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔

آئی ایس پی آر

آئی ایس پی آر کی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں ٹی ٹی پی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اُن سے مذاکرات معطل ہیں اور اُن کے خلاف آپریشنز جاری ہیں جو اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گے

کیا پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشت گردی لوٹ رہی ہے؟

حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی دائمی ہے یا وقتی، اس سوال سے قطع نظر یہ بات واضح ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی موجودہ لہر کے دوران صرف تحریک طالبان ہی نہیں بلکہ داعش بھی سرگرم نظر آ رہی ہے۔

عبد الباسط سنگاپور میں مقیم ٹیرزم ایکسپرٹ اور ایس راجہ رتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ریسرچ فیلو ہیں۔

بی بی سے بات کرتے ہوئے عبد الباسط کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں کوئی لنک نہیں۔ ’یہ دونوں مختف واقعات ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔’

عبد الباسط کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں کمی اور بیشی کا سلسلہ نیا نہیں بلکہ ایسا پہلے بھی ہوتا رہتا ہے۔ ایسی لہریں پہلے بھی آئیں اور ختم ہو گئیں لیکن ہر لہر کے پیچھے چند عوامل ضرور ہوتے ہیں جنھیں سمجھنا ضروری ہے۔

عبد الباسط کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی موجودہ لہر کا آغاز اگست میں ہوا تھا جب کالعدم تحریک طالبان کو ایک جانب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد آزادی اور حوصلہ ملا تو دوسری جانب 11 مختلف گروہ موجودہ سربراہ نور ولی محسود کی قیادت میں دوبارہ اکھٹے ہوئے۔

’اس کا ایک نتجہ دہشت گردی کی نئی لہر کے نیتجے میں نکلا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔’

عبدالسید سویڈن میں مقیم پاکستان اور افغانستان کے سکیورٹی امور پر تحقیق کرتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کےتحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود کی سربراہی میں دوبارہ متحد اور مضبوط ہوئی جس کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔

عبد السید کے مطابق دہشت گردی کا سلسلہ افغانستان سے منسلک سابقہ قبائلی علاقوں خصوصاً وزیرستان، باجوڑ اور دیر سے شروع ہوا مگر بتدریج ان کا دائرہ کار خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع سمیت پنجاب اور بلوچستان کے شہری علاقوں تک بڑھا ہے۔

’اسلام اباد میں سال 2020 میں بھی پاکستان طالبان نے دو حملوں کا دعویٰ کیا تھا اور پچھلے سال بھی تین کا، اس لیے یہ حملہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھا۔’

ان کے مطابق حالیہ لہر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ’اس بار اہداف محدود ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود نے اپنی جنگ کو پاکستان میں فقط سیکورٹی فورسز اور حکومت کے بعض اہداف تک محدود رکھا جس کا مقصد یہ تھا کہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں عوام کے جانی و مالی نقصانات سے ان کی تنظیم کو عوامی سطح پرجس تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اس کا راستہ روکا جائے۔’

فائل فوٹو

فائل فوٹو

‘دہشتگردی کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر جنگ جاری‘

پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے پیر کو پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے ابھی کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ہیں۔

شیخ رشید کے مطابق ’طالبان نے یہ کہا کہ انھوں (ٹی ٹی پی) نے 20 برس تک ہمارے ساتھ مل کر (افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں غیر ملکی افواج کے خلاف) لڑائی لڑی ہے، ہمارے ساتھ انھوں نے جنگ کی ہے۔‘

شیخ رشید نے کہا کہ افغان طالبان نے یقین دہانی کروائی کہ ’ہم اپنی سرزمین آپ (پاکستان) کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘

تحریک طالبان سے مذاکرات کامیاب کیوں نہ ہو سکے؟

وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق ٹی ٹی پی سے بات چیت کو ہم نے آگے بڑھایا اور کہا کہ جو لوگ قانون اور آئین کے دائرہ کار میں آنا چاہیں تو ہم ان کی بات سُننے اور (اُن سے بات) کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن جو لوگ ایسے سخت مطالبے کریں، جو پاکستان کی سالمیت سے ٹکرانے والے ہوں تو پھر ان سے تو ٹکرایا جائے گا۔

وزیر داخلہ کے مطابق ’ٹکرانے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کہا جائے گا کہ ٹکرایا جائے گا، ہر روز دہشتگردی سے عظیم افواج نمٹ رہی ہے۔ ایجنسیز اور فوج بلوچستان اور کے پی کے میں ایسے معاملات کو دیکھ رہے ہیں، جبکہ پنجاب اور سندھ میں سکیورٹی صورتحال کو سی ٹی ڈی دیکھ رہی ہے۔‘

ان کے مطابق ’جہاں اطلاع ملتی ہے کہ کوئی سر اٹھا رہا ہے، تو ایکشن لیا جاتا ہے۔‘

شیخ رشید کے مطابق بلوچستان میں 11 جنوری سے بی این اے نامی ایک تنظیم سامنے آئی ہے جبکہ ملک میں داعش، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور اس کے متعدد گروپس متحرک ہیں۔

افغانستان میں ٹی ٹی پی پر پُراسرار حملے اور ردعمل

عبد الباسط دہشت گردی کی تازہ لہر کی ایک اور وجہ بھی گردانتے ہیں۔ جہاں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا وہیں افغانستان میں بھی ایسے واقعات پیش آئے جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماوں کو نشانہ بنایا گیا۔

عبد الباسط پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر کو ان پراسرار واقعات سے بھی جوڑتے ہیں جن کی ذمہ داری کسی نے بھی قبول نہیں کی۔

عبد الباسط کے مطابق افغانستان کے کنڑ کے علاقے میں ہی ٹی ٹی پی کے فقیر محمد پر ڈرون حملہ ہوا، سوات طالبان کے مفتی بورجان پر حملہ ہوا اور بعد میں خالد بلتی قتل ہوئے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ان کا ردعمل بھی ہو سکتے ہیں۔ ’حالانکہ افغانستان میں 2018 سے ایسے پراسرار حملے ہو رہے ہیں جن کی کوئی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔’ واضح رہے کہ ایسے ہی ایک حالیہ حملے میں افغانستان میں علیحدگی پسند بلوچستان کی بی ایل اے کے رازق مندئی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

مولوی فقیر محمد

مولوی فقیر محمد (فائل فوٹو)

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی

عبد الباسط کہتے ہیں کہ ’یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ حالیہ لہر دہشت گردی کی ایک بڑی لہر ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ جلد ہی ختم بھی ہو جائے’ لیکن اُن کے مطابق مکمل طور پر دہشت گردی کو ختم کرنا مشکل ہو گا۔

’افغانستان میں طالبان ٹی ٹی پی کو ختم نہیں کریں گے کیوںکہ یہ 20 سال سے ساتھ ہیں، اور ٹی ٹی پی نے ان کا بہت ساتھ دیا ہے۔’

’معاملہ یہ ہے کہ طالبان کے اندر ٹی ٹی پی کے لیے اسی وجہ سے حمایت ہے اور اگر اوپر کی سطح پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی گئی تو اس سے ایک جانب یہ خطرہ ہے کہ ٹی ٹی پی داعش سے ہاتھ ملا سکتی ہے اور دوسری طرف یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ افغان طالبان کے اندر موجود گروہ بندی اس بات پر مزید کھل کر سامنے آ سکتی ہے جو اس وقت کوئی نہیں چاہتا۔‘

عبد السید کہتے ہیں کہ ان حملوں میں تیزی کو مذاکرات میں ناکامی کے ردعمل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

’پاکستانی طالبان کی ایک حکمت عملی ہے کہ اگر ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو اس کا نقصان حکومت کو ان حملوں کی شکل میں برداشت کرنا پڑے گا۔’

’پاکستان اپنی سالمیت پر حرف نہیں آنے دے گا‘

وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق پاکستان اپنی سالمیت پر کبھی حرف نہیں آنے دے گا اور کسی صورت دہشتگردی کی اجازت نہیں دے گا۔ ’ہم اس حوالے سے اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔‘

وزیر داخلہ کے مطابق ابھی تک راولپنڈی اسلام آباد میں دس پولیس والوں کو شہید کیا گیا، ان حملوں میں ملوث چار افراد کو گرفتار کیا جبکہ دو مارے گئے ہیں۔

شیخ رشید کے مطابق سی پیک کے خلاف جو داسو اور گوادر میں واقعات ہوئے ہیں نہ صرف ان کو گرفتار کیا گیا ہے، بلکہ جوہر ٹاؤن کے تینوں ملزمان کو سزائے موت ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

خالد بلتی کی ہلاکت کی تصدیق: کراچی مدرسے کے سابق استاد اور ٹی ٹی پی کمانڈر کون تھے؟

ٹی ٹی پی، دولت اسلامیہ کی بڑھتی کارروائیاں: ’ہو سکتا ہے سرحدپار سے لوگ پاکستان داخل ہوئے ہوں‘

حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا مستقبل کیا ہے

پاکستان حکومت کیا کر سکتی ہے؟

عبد الباسط کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے لیے مشکل یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کو ایک حد سے زیادہ مجبور نہیں کیا جا سکتا، اسی لیے پاکستان کے پاس محدود آپشنز ہیں۔ افغانستان میں ڈھکی چھپی کارروائیاں یا پھر مذاکرات۔’

عبد السید نے دعویٰ کیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف حالیہ کارروائیاں پاکستان کا جواب ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی طالبان کی بیشتر قیادت اور رہنما سرحد پار یعنی افغانستان میں ہیں لہٰذا پاکستانی ادارے ماضی کی طرح خفیہ حملوں میں اُن کو نشانہ بنا سکتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں افغانستان میں پاکستانی طالبان کے سابقہ ترجمان مفتی خالد بلتی کا پراسرار قتل اور ایک سینئیر کمانڈر مفتی بورجان پر قاتلانہ حملہ، مگر یہ سلسلہ افغانستان کے نئے اہل اقتدار (افغان طالبان) کے لیے اندرونی طور پر مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔’

’پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات زبان زد عام ہیں اور ایسے حملے اس تاثر کو مضبوط کر سکتے ہیں کہ گویا کہ افغان طالبان پاکستانی مفادات کے لیے شاید ان کارروائیوں میں خفیہ طور پر ملوث ہیں۔ لہٰذا شاید پاکستان زیادہ دیر تک یہ سلسلہ مستقبل میں وہاں جاری نہ رکھ سکے۔’

عبد السید نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے سنہ 2020 کے ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں پاکستانی طالبان کے افراد کا شمار چھ ہزار کے قریب بتایا گیا تھا جو کہ مختلف گروہوں کے انضمام سے قبل کا تھا۔

’اب جو پچھلے سال کابل میں طالبان کے برسراقتدار انے کے بعد جیلوں سے کئی ہزار قیدی آزاد ہوئے ہیں تو ان میں بھی کئی سو کا تعلق پاکستانی طالبان سے تھا۔ ان سب کو ملا کر دیکھا جائے تو افغانستان میں قریباً دس ہزار کے قریب پاکستانی طالبان کے افرادی قوت کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے جو کہ پاکستان کے اندر اُن کے سلیپر سیل اور حامیوں کے علاوہ ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments